ہم جنس پرستی، سائنس اور فطرت سے ماورا

غلام اصغر  بدھ 1 جولائی 2015
 مغرب کے پاس ہم جنس پرستی کا کوئی معاشرتی حل نہیں تھا اور نہ ہے کیونکہ وہ فرد کی آزادی کا قائل ہے۔ فوٹو:فائل

مغرب کے پاس ہم جنس پرستی کا کوئی معاشرتی حل نہیں تھا اور نہ ہے کیونکہ وہ فرد کی آزادی کا قائل ہے۔ فوٹو:فائل

میں پولیس سے اکھڑ رہا تھا، موٹر بائیک میری ہے، بھلے ٹھیک کہ اس کے دو پہیے لگے ہیں لیکن رقم خرچ کرنے کے بعد اب یہ اختیار میرا ہے کہ میں جیسے چاہوں اسے بھگاؤں لیکن پولیس والا بھی بضد تھا کہ جب تک ون ویلنگ پر پابندی موجود ہے، آپ یہ حرکت نہیں کرسکتے، اگر کریں گے تو آپ کو جیل جانا پڑے گا۔ آپ کی ریاست تو انسان کی آزادی سلب کررہی ہے، موٹر بائیک بھی میری اور چلانے کا حقدار بھی میں تو بھلا ریاست کو کیا اختیار کہ وہ میرے ون ویلنگ کی خواہش کو روک سکے؟ میں ایک لبرل انسان ہوں جو اپنی آزادی پر یقین رکھتا ہوں۔ میں اپنے آپ کو بہتر سمجھ سکتا ہوں کیونکہ میں اپنے آپ کو بہتر جانتا ہوں، میں خود پسند ہوں، مجھے پاگل سمجھیے یا جاہل اب اگر میں ون ویلنگ سے مر بھی جاؤں تو آپ کو کیا؟ یہ زندگی تو میری اپنی ہے۔

تمہاری ریاست مذہبی ہے، تمہارا بیانیہ قرارداد مقاصد ہے، تم انسانوں پر قدغن لگاتے ہو، ان کی خواہشات پر اور ان کی آزادیوں پر۔ وہ دیکھو دنیا کی سپر پاور انسانوں کی لذت کیلئے انہیں ہم جنسوں سے شادی کا اختیار دے رہی ہے، ارے ’’گائے‘‘ تو پھر بھی انسانی نسل سے تعلق رکھتا ہے، اگر مجھے ایک کتیا سے لذت مل سکتی ہے تو مجھے اس سے بھی شادی کا حق ملنا چاہیے کیوں کہ میری زندگی پر کسی کو قدغن لگانے کا اختیار نہیں ۔

اچھا تو تم لبرل انسان ہو، اگر تم اپنی آزادی کے قائل ہو تو مجھے جسمانی ساخت کے علاوہ انسان اور حیوان میں فرق سمجھا دیجئے، تمہاری خواہش تمہیں گھاس کھانے پر اکسا سکتی ہے لیکن حضرت حیوان بھی شاید آزادیوں میں آپ سے پیچھے رہ گیا کہ گوشت کھانے والا جانور، چارے کی خواہش نہیں کرتا۔ ہاں وہ اپنی آزادیوں کے لیے قراردادیں اور قوانین پاس نہیں کرواتا، لیکن ماڈرن لبرل ازم نے تو اس فرق کو بھی غیر منطقی سمجھا۔ تمہاری آزادی، مذہب اور ریاست سے آزاد تو تھی ہی، سائنس اور فطرت سے بھی فرار اختیار کر رہی ہے اور انفرادیت پسندی ایسی کہ جس معاشرے میں زندہ ہیں۔ اسی سے بیگانہ ہو رہے ہیں، لذتوں کی چاہت میں تم اپنے تو ذاتی، معاشرے کے نفع  و نقصان سے بھی دور ہوگئے۔ ہم جنس پرستی جیسی آزادی سے تم نے فطرت کے ساتھ غداری و خیانت کا ارتکاب کیا ہے، کیونکہ فطرت نے جس صنف کو لذت کی نوع اور تمدن کی خدمت کا صلہ بنایا تھا اور جس کے حصول کو فرائض اور ذمہ داریوں اور حقوق کے ساتھ وابستہ کیا تھا، ہم جنس پرست اسے کسی خدمت کی بجا آوری اور کسی فرض اور حق کی ادائیگی اور کسی ذمہ داری کے التزام کے بغیر چرا لیتا ہے۔

1840ء سے 1973 تک ہم جنس پرستی ایک مرض کے طور پر دیکھی جاتی رہی، نفسیاتی علاج بھی دریافت ہوئے اور ایلو پیتھک علاج بھی آزمائے گئے جس میں کاسٹریشن اور انزائم تھراپی شامل تھی لیکن سائنس اس کے کامیاب علاج میں ناکام رہی، بہتر علاج کے لیے اس پر ریسرچ جاری رہیں اور اس کی بائیولوجیکل اور جینیاتی وجوہات کی تلاش جاری رہی۔ 1956ء میں ایک خاتون نے شکاگو میں ریسرچ کی جس میں دونوں اقسام کے جنس پرستوں میں طبی بنیادوں پر کوئی فرق ثابت نہ ہوا اسی ریسرچ کی بنیاد پر لبرل گروپس نے خود کو تحریک دی اور سیاسی بنیادوں پر 1973ء میں ’’ہم جنس پرستی‘‘ کو طبی ادارے نے بیماریوں کی لسٹ سے خارج کردیا۔ لیکن دوسری طرف ڈی این اے میں اس کا فزیولوجیکل وجود نہ ملا، خود سائنس دان کہتے ہیں کہ ہم جنسی پرستی پر ریسرچ کا سب بڑا موٹیو سیاسی تحرک تھا چاہے اُس کے نتائج ہم جنس پرستی کے حق میں آئے ہوں یا مخالفت میں۔ حال میں اسے ایپی جینٹکس کا حصہ مانا گیا ہے۔

ایپی جینٹکس جدید سائنس ہے خوش قسمتی سے میں خود اسی شعبہ سے تعلق رکھتا ہوں اس لیے زیادہ وضاحت کے ساتھ بتاؤں گا۔ آج سے ایک عشرہ پہلے یہ سمجھا جاتا رہا کہ انسان وہی کچھ کرتا ہے جو اس کے ڈی این اے میں کوڈ کی شکل میں موجود ہو اور موجود ماحول میں ایکسپریس ہو۔ لیکن ایپی جینٹکس نے اس تصور کو تھوڑا بدلا ہے کہ انسان وہ کچھ کرتا ہے جس کا شعور اسے حاصل ہوتا ہے۔ مطلب سارا کا سارا ڈی این اے ہی کام نہیں کرتا بلکہ انسان کی سوچ بھی اس کا حصہ بنتی ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہم جنس پرستی کا تعلق انسان کی اپنی سوچ سے ہے نہ کہ فزیکل سائنس سے۔

دوسری چیز انسان کے اعضاء کی بناوٹ اور ساخت ہے وہ ہم جنس پرستی کو سپورٹ نہیں کرتی، ہم جنس پرست دراصل اپنی اور اپنے معمول کی طبعی ساخت اور نفسیاتی ترکیب سے جنگ کرتا ہے اور اس میں خلل عظیم برپا کر دیتا ہے جس سے نہ صرف اس کے اخلاق بلکہ دونوں کے جسم اور نفس پر نہایت بُرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مرد کا عضو خاص عورت کے حساب سے بنایا گیا ہے، پھر اس کی غدود جسے مادہ منویہ کہا جاتا ہے، ہم جنس پرستی میں اس کی اہمیت پیشاب سے زیادہ کی نہیں رہتی۔ ہم جنس پرستی میں ہم اس کا فنکشن گم کردیا جاتا ہے۔  یہ سراسر انسانی ساخت اور بناوٹ اور بائیو لوجی سے انحراف ہے۔ اس لیے ہم جنس پرستی  کو نہ تو فطری کہا جاسکتا ہے اور نہ سائنسی۔

جہاں تک ہم جنس پرستی کے دائمی اور ناقابل تبدیل کا تعلق ہے ہاں یہ ایسا ہی ہے لیکن اس کا تعلق نفسیات اور معاشرت سے ہے۔ مغرب کے پاس اس کا کوئی معاشرتی حل نہیں تھا اور تھا بھی تو وہ فرد کی آزادی کا قائل ہے۔ جب تک اسے بیماری قرار دیا جاتا رہا اس کا نفسیاتی علاج کیا جاتا رہا حتی کہ مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے کے لیے ’’چینجنگ آور مائنڈز‘‘ نامی فلمیں بھی تیار کی گئیں۔ لیکن یہ ایسا معاملہ نہیں تھا، یہ بالکل مشت زنی جیسا عمل ہے جس کا علاج نہ سائنس کے پاس ہے اور نہ ہی نفسیات کے پاس۔ ہاں اس کا علاج معاشرے میں  موجود تھا، مذہب کی الہامی حدود و قیود میں موجود تھا جس سے لبرل حلقے آزاد رہنا چاہتے ہیں۔

کیا آپ بھی ہم جنس پرستی کو سائنس اور فطرت سے ماورا سمجھتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

غلام اصغر

غلام اصغر

غلام اصغر 2012ء سے بلاگنگ سے وابستہ ہیں۔ اسلام، سائنس، جدید رحجانات اور عالمی اسلامی تحریکیں آپ کا پسندیدہ موضوع ہیں۔ آپ سے [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔