لاہور کے کیسے کیسے گل پھول

انتظار حسین  جمعـء 3 جولائی 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

ہم نے لاہور کے ایک چٹورے سے پوچھا کہ تم نے نین سکھ کا گلقند تو کھایا ہو گا۔ اس نے حیران ہو کر پوچھا کہ نین سکھ کا گلقند۔ اچھا‘ یہ کونسا گلقند ہے۔ اور اس میں کیا خاص بات ہے۔ ہم نے اس عزیز پر تعجب کیا اور کہا کہ کمال ہے تم لاہورئیے ہو اور نین سکھ کے گلقند سے نا آشنا ہو۔ ویسے نین سکھ کے عرق گلاب کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے۔ وہ عزیز نین سکھ کے عرق گلاب سے بھی نا آشنا نکلا۔ سب سے زیادہ وہ حیران اس وقت ہوا جب ہم نے اسے بتایا کہ نین سکھ کے چَھترے عام چارہ نہیں چرتے۔ گلاب کی پتیاں ان کا چارہ ہیں۔ جب وہاں کے کسی چَھترے کو حلال کیا جاتا ہے تو اس کے گوشت سے گلاب کی مہک آتی ہے۔ اس گوشت کا قورمہ۔ کہئے کہ گلاب دار قورمہ۔ پہلے ہی نوالہ میں گلاب دار ذائقہ سے زبان اور تالو معطر ہو جاتے ہیں۔

اس عزیز نے اب پلٹ کر ہم سے پوچھا کہ یہ مہکتی معلومات تم نے کہاں سے حاصل کیں۔ ہم نے کہا کہ مجید شیخ کی تازہ تصنیف سے جس کا عنوان ہے ’لاہور‘ ٹیلز آف اے فیبلڈ سٹی‘‘۔ شایع کیا ہے اسے سنگ میل پبلشرز نے۔

پھر ہم نے اس عزیز کو سمجھایا کہ اس لذیذ گلقند اور عرق گلاب اور گلاب دار قورمہ کے لیے ممنون احسان ہونا چاہیے ہمیں شہنشاہ جہانگیر کا۔ یہ روایت قلم بند کی ہے مجید شیخ نے اس طرح کہ شہنشاہ جہانگیر سہانی صبح راوی ندی کے کنارے کنارے سیر کر رہا تھا۔ ایک مقام پر پہنچ کر وہ ٹھٹھکا۔ دور دور تک گلاب ہی گلاب اور گلاب کی مہک اتنی کہ راوی کنارے کا وہ پورا ٹکڑا طبلۂ عطار بنا ہوا تھا۔

جہانگیر نے خوش ہو کر زمین کے اس معطر ٹکڑے کو نین سکھ کے نام سے نوازا۔ تب سے نین سکھ کے باسی شہنشاہ جہانگیر کے نام کی مالا جپتے ہیں اور گلاب کی کاشت کر کے منوں ٹنوں گلاب کی پتیاں جمع کرتے ہیں۔ ان سے گلقند ایسا ذائقہ دار تیار کرتے ہیں کہ حکیم اجمل خاں کے عطار بھی ان کے سامنے پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔ پھر ان پتیوں کا عرق گلاب۔ اور پھر ان پتیوں کو کھا کر نین سکھ کے دنبے جو گل کھلاتے ہیں اور خوشبو کی پوٹ بن جاتے ہیں۔ اور نین سکھ کے عرق گلاب کے کیا کہنے۔ مجید شیخ بتاتے ہیں کہ سکھوں کے عہد حکومت میں جو ایک رانی جنداں گزری ہے وہ تو غسل ہی نین سکھ کے عرق گلاب سے کرتی تھی۔

ادھر ہمارا اور یاروں کا معاملہ یہ ہے کہ گھر کی مرغی دال برابر۔ لاہور کی سڑکوں پر جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں اور نہیں جانتے کہ یہ نگر کیا شان رکھتا ہے۔ اس کی گلیاں اس کے کوچے سمجھ لو کہ جنت نظیر ہیں اور اس کی خاک سے کیسا کیسا گل کھلا ہے اور کیا کیا شخصیت نمودار ہوئی ہے۔ یہ تو اب مجید شیخ نے یہ بتانے کا بیڑا اٹھایا ہے کہ اس شہر کے درودیوار‘ یہاں کی تاریخی عمارات‘ یہاں کے گلی کوچے‘ یہاں کے مقابر اور درگاہیں زبان حال سے کیا کچھ کہتی نظر آتی ہیں۔ کیسی کیسی شخصیت نے یہاں جنم لیا۔ برصغیر کی تاریخ میں ان کا کیا مقام ہے۔

شہر کے گلی کوچوں کا اور ان میں بسنے والی مخلوق کا حالیہ احوال بیان کرتے کرتے وہ عہد قدیم میں نکل گئے ہیں اور ہمیں ہر قدم پر یہ بتا کر حیران کرتے ہیں کہ قدیم عہد کے جس عالم فاضل کو دیکھو کریدنے پر پتہ چلتا ہے کہ وہ تو شہر لاہور کا فرزند تھا۔ برصغیر کی علمی تاریخ میں ایک عالم کا یا کہئے کہ ایک ودھوان کا ذکر ایک نرالی تخلیق کے ذیل میں آتا ہے۔ یہ کہ اس نے زیرو دریافت کیا۔

زیرو یعنی صفر یعنی شونی‘ شونی‘ شونی۔ سنسکرت میں وہ شونی ہے‘ عربی میں آ کر صفر بن گیا۔ انگریزی میں وہ زیرو کہلایا۔ صفر ایسی شے کو جو ویسے تو بالکل صفر ہے مگر بڑے سے بڑا عدد اس کے سامنے صفر ہے۔ اسے جس نے اپنی علمی تخلیق سے دریافت کیا اس کا نام پنگل تھا۔ اس کے زمانے کا تعین اس طرح کیا گیا ہے کہ ویدک عہد ختم ہو رہا تھا۔ موہنجوداڑو اور ہڑپا پہلے ہی زوال کر چکے تھے۔ اب ایک نیاعہد بصورت شہر لاہور نمود کر رہا تھا۔ اس وقت لاہور کا نام سلاتورا تھا۔

تو پنگل سلاتورا یعنی لاہور کا سپوت تھا۔

اور اس کا ایک بھائی تھا پاننی (Panini) سنسکرت زبان کا بڑا عالم۔ اس نے قواعد مرتب کی۔ یعنی سنسکرت قواعد کا بانی۔ کہتے ہیں کہ اسی کے آس پاس کے زمانے میں گوتم بدھ اور مہاویر نمودار ہوئے۔ یہ دونوں تو لاہور کی مخلوق نہیں تھے۔ مگر مجید شیخ نے انھیں بھی لاہور سے دور نہیں جانے دیا ہے۔ لاہور نہ سہی تھا تو وہ پنجاب ہی کا علاقہ جہاں مجید شیخ کی تحقیق کے مطابق ان دنوں بڑے پیشواؤں نے ظہور کیا۔

خیر یہاں تک تو مضائقہ نہیں۔ اگر پاننی اور پنگل دو بڑے ودھوان‘ ایک سنسکرت قواعد کا بانی‘ دوسرا صفر کا خالق۔ دونوں مجید شیخ کی تحقیق کے حساب سے لاہورئیے تھے۔ اس تحقیق میں مجید شیخ کی خوشی کے ساتھ ہمارے لیے بھی خوشی کا سامان ہے کہ ہم بھی تو لاہور ہی میں رہتے ہیں۔

مگر اس سے آگے مجید شیخ کی تحقیق نے جہاںقدم رکھا ہے وہ ذرا مخدوش علاقہ ہے۔ رامائن اور مہا بھارت کا علاقہ۔ یہاں تحقیق کے میدان میں دوچار بہت سخت مقام آتے ہیں اور مجید شیخ صاحب نے چھوٹتے ہی ایسا بیان دیدیا ہے کہ ہم خود چکنم میں پڑ گئے۔ ان کی یہ تحقیق تو ہم نے آسانی سے ہضم کر لی کہ ہنومان کوئی بندر وندر نہیں تھا۔ بندر جیسی شکل کا تھا اور رامچندر جی کا بندہ تھا۔

اور لاہور کا رہنے والا تھا۔ راون کے خلاف اس نے مہم کا آغاز اسی شہر سے کیا تھا۔ ارے خود مجید صاحب پہلے ہمیں یہ بتا چکے ہیں کہ ستیا جی نے اس ویرانے میں جہاں وہ شہر بدر ہونے کے بعد آ کر رہیں وہاں انھوں نے دو بیٹے جنے۔ بڑے بیٹے نے وہ شہر آباد کیا جو خود اس کے نام سے ماخوذ ہو کر لاہور کہلایا۔ اور اب ان کی نئی تحقیق یہ کہہ رہی ہے کہ ہنومان لاہور کا رہنے والا تھا۔ اس نے راون کے خلاف مہم کا آغاز اسی شہر سے کیا تھا۔ مگر یہ تو وہ وقت تھا جب ابھی ستیا جی نے اس بیٹے کو جنم ہی نہیں دیا تھا جسے یہ شہر آباد کرنا تھا۔

پھر انھوں نے چلتے چلتے رامائن کے بارے میں ایسا بیان دیدیا ہے جو مروجہ رامائن سے لگا نہیں کھاتا۔ اور بغیر کسی حوالے اور بغیر کسی سند کے۔ تو کوئی محقق‘ کوئی عالم تو ویسے ہی اسے قابل اعتنا نہیں سمجھے گا۔ یہ کہہ کر رد کر دے گا کہ یہ کسی صحافی کا غیر ذمے دارانہ بیان ہے۔ ایک جانے مانے بیانیہ کو رد کرنے کے لیے تو حوالوں اور اسناد کے ساتھ پوری کتاب پیش کرنی ہوتی ہے۔ اور اگر آپ نے یہ کام کر بھی لیا تو محققوں کے علاوہ جو پوری مخلوق مروجہ بیان ہی کو مصدقہ بیان سمجھتی ہے اس سے آپ کیسے نبٹیں گے۔ مجید شیخ صاحب نے یہ کیسے فرض کر لیا کہ مروجہ رامائن کو مذہبی مرتبہ حاصل نہیں ہے۔ کس عقیدت سے اس رامائن کا پاٹھ کیا جاتا ہے۔ گاندھی جی اپنے آخری وقت میں ستیا رام ستیارام کا ورد کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوئے رام چندر جی کو اوتار کا مرتبہ حاصل ہے۔

یہ صحیح ہے کہ رامائن کے کئی بیانئے ہیں۔ مگر مروجہ رامائن سے ہٹ کر جو بیانئے ہیں وہ تو پرانی کتابوں میں دفن ہو گئے یہ ایک تھیٹر گروپ نے یہ طے کیا تھا کہ رامائن کے جو مختلف بیانئے ہیں انھیں اسٹیج کیا جائے۔ اس پر عقیدتمندوں نے وہ فساد ڈالا کہ تھیٹر کے انچارج صفدر ہاشمی کو جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔

تو مجید صاحب اس باب میں اپنی تحقیق پیش کرتے ہوئے کیا مضائقہ ہے کہ تھوڑا سوچ سمجھ لیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔