تنگ ہوگئی اﷲ کی زمین جائیں توکہاں؟

پاکیزہ منیر  جمعـء 3 جولائی 2015

برمی مسلمانوں کے قتل عام اور نسل کشی کے غیر انسانی فعل پر اقوام متحدہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے مجرمانہ خاموشی اختیارکر رکھی ہے، روہنگیا کے مسلمان اقوام عالم کی بے حسی پر نوحہ کناں ہیں، انسانی حقوق کی دعویدار دنیا نے آنکھیں بند کرلی ہیں۔

انٹرنیٹ کی مدد سے سوشل میڈیا پر ایسی ایسی تصویریں سامنے آئی ہیں کہ انسانیت کا سرشرم سے جھک گیا ہے، عورتوں کی گردن کٹی لاشیں نوعمر بچوں کے پھانسی میں جھولتے جسم زندہ لوگوں کو جلتے ہوئے دکھایا گیا، مسلمانوں کے جسم کے کئی ٹکڑے کیے گئے، ایسا ایسا ظلم جو پہلے نہ سنا اور نہ ہی دیکھا، یہ کیسے انسان ہیں جو دوسرے انسان کو اتنی بے دردی سے قتل کررہے ہیں۔ ان سے تو شیطان بھی پناہ مانگتا ہوگا، مسلمان یہاں بے ضرر اقلیت ہیں جنھوں نے حکومت یا اکثریت کو کبھی نقصان نہیں پہنچایا، اندازہ تو اسی بات سے کیا جاسکتا ہے کہ اتنی بے دردی سے کاٹے مارے جا رہے ہیں، روہنگیا کے مسلمان مگر ان بے چاروں کے پاس اپنے دفاع کے لیے کوئی سازوسامان تک نہیں کہ یہ مقابلہ یا پھر تھوڑی بہت مزاحمت ہی کرسکے۔

روہنگیا کے کچھ مسلمان کشتیوں میں جانوروں کی طرح ٹھنسے ہوئے کمزور لاغر، مجبور جن پر سمندر کی وسعتیں بھی تنگ ہوگئیں وہ برما کے بدھوں سے اپنی زندگی لاشیں بچالائے ہیں مگر کوئی ملک ان کی کشتیوں کوکنارہ دینے پر تیار نہیں ہے۔

ترکی وہ واحد ملک ہے جس نے ان مظلوم مسلمانوں کے لیے اپنی سمندری سرحدیں کھولی،کئی دنوں کے بھوکے اور پیاسے لوگوں کو خوراک فراہم کی پوری کشادہ دلی سے ان مسلمانوں کی مدد کرنے میں سب سے آگے آئے ہیں۔ شاید ترکی کا کارنامہ دیکھ کر عرب اور عجم کو بھی شرم آگئی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے روہنگیا کے مسلمانوں کے لیے فنڈ دینے پر رضامندی ظاہرکی ہے بس جلد ہی اس پر عمل درآمد بھی ہوجائے۔

ہزاروں مسلمان ابھی بھی سمندر میں بھٹک رہے ہیں۔  اس مہاتما بدھ کو دنیا میں امن کا پیامبر اور عدم تشدد فلسفے کا داعی سمجھا جاتا ہے، تاہم ان کے پیروکاروں کا اصل چہرہ روہنگیا کے مسلمانوں پر مظالم کے بعد سب کے سامنے آگیا،جنھوں نے مسلمانوں پر ایسے مظالم ڈھائے کہ ان کی زندگی موت سے بدتر بنادی، خطے کے مسلم ممالک کی خاموشی بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔میانمار پانچ کروڑ کی آبادی کا ملک ہے، جہاں کا مذہب بدھ مت ہے جو مہاتما بدھ کے پیروکار ہیں، مہاتما بدھ کو دنیا میں امن کا بڑا پیامبر اور عدم تشدد فلسفے کا داعی سمجھا جاتا ہے اور ان کی تعلیمات کے مطابق جس نے کسی جانورکو بھی قتل کیا تو وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے کسی انسان کو قتل کیا، اس کے باوجود ان سفاک بدھوں کا اصل چہرہ اپنے ملک میں اقلیتی مسلمانوں پر مظالم و تشدد کے بعد سب کے سامنے آگیا۔

مشرقی ایشیائی ملک میانمار انیس سو سینتیس تک برصغیر کا ہی حصہ سمجھا جاتا تھا۔ پھر برطانیہ نے اسے برصغیر سے الگ کرکے ایک علیحدہ کالونی کا درجہ دے دیا اور انیس سو اڑتالیس تک یہ علاقہ بھی برطانوی تسلط کے زیر اثر رہا۔ روہنگیا مسلمانوں میانمارکی آبادی کا صرف 4 فی صد ہیں جو شروع سے ہی یہاں جبری مشقت کرتے آئے ہیں اور ان کو پراپرٹی خریدنے کا حق ہے نہ ہی تعلیم کی سہولیات میسر ہیں، بنیادی انسانی حقوق بھی ان مسلمانوں کو شروع سے ہی فراہم نہیں کیے گئے۔

بنگلہ دیش میں بھی روہنگیا مسلمان ایک عرصے سے اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں، بنگلہ دیش بھی اپنے سرحد کھولنے کو تیار نہیں۔ انڈونیشیا کی سرحد بھی ان مسلمانوں کے لیے بند ہے جب کہ ملائیشیا بھی ان کو اپنے ملک میں داخلے کی اجازت نہیں دیتا۔ امن کا نوبل پانے والی آنگ سانگ سوچی بھی اس ظلم کے خلاف گونگی ہی ہیں۔ صورت حال کو انتہائی تشویش اور اضطراب کے ساتھ دیکھ رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ حکومت پاکستان مظلوم برمی مسلمانوں کی حمایت اور امداد کے لیے کوئی موثر اقدام عمل میں لائے، پاکستان دوسرے مسلمان ملکوں خصوصاً ترکی کے تعاون سے اس معاملے کو اقوام متحدہ، او آئی سی اور دوسرے عالمی اداروں میں اٹھانے کے ساتھ ساتھ ملائیشیا اور انڈونیشیا وغیرہ جیسے مسلمان ملکوں کو اپنے پڑوسی روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ بہتر طرز عمل اختیار کرنے پر آمادہ کرسکتا ہے سعودی عرب کو بھی ان مظلوم مسلمانوں کے انسانی حقوق کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کرنا ہوگا۔

اس وقت تمام اسلامی ممالک کو آگے آنا چاہیے اور آگے بڑھ کر برما کے مسلمانوں کی مدد کرنی چاہیے اور اسلامی بھائی چارے کی مثال قائم کرنی چاہیے یہ وقت ہے مسلمانوں کے آپس میں اتفاق کا کہ ایک بھائی کو غیروں نے تکلیف دی تو دوسرا بھائی اس کی تکلیف پر اس کی مدد کرے اور دنیا کو بھی دکھائیں کہ ایک اسلامی ملک دوسرے اسلامی ملک اور مسلمانوں کے ساتھ کتنا تعاون کرتا ہے یا پھر کرسکتا ہے۔ اﷲ بھی مظلوموں کا ساتھ دیتا ہے ہمیں بھی اپنے ان برما کے مسلمانوں کی مدد کرنے کے لیے آگے آنا چاہیے۔

میری حکومت پاکستان سے اپیل ہے کہ مہربانی کرکے آگے آئے اور برما کے مسلمانوں کی مدد کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔