- ویسٹ انڈیز ویمن ٹیم کا پاکستان کو ون ڈے سیریز میں وائٹ واش
- کراچی میں ایرانی خاتون اول کی کتاب کی رونمائی، تقریب میں آصفہ بھٹو کی بھی شرکت
- پختونخوا سے پنجاب میں داخل ہونے والے دو دہشت گرد سی ٹی ڈی سے مقابلے میں ہلاک
- پاکستان میں مذہبی سیاحت کے وسیع امکانات موجود ہیں، آصف زرداری
- دنیا کی کوئی بھی طاقت پاک ایران تاریخی تعلقات کو متاثر نہیں کرسکتی، ایرانی صدر
- خیبرپختونخوا میں بلدیاتی نمائندوں کا اختیارات نہ ملنے پراحتجاج کا اعلان
- پشین؛ سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں3 دہشت گرد ہلاک، ایک زخمی حالت میں گرفتار
- لاپتہ کرنے والوں کا تعین بہت مشکل ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان
- سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی کو سزا سنانے والے جج کے تبادلے کی سفارش
- فافن کی ضمنی انتخابات پر رپورٹ،‘ووٹوں کی گنتی بڑی حد تک مناسب طریقہ کار پر تھی’
- بلوچستان کے علاقے نانی مندر میں نایاب فارسی تیندوا دیکھا گیا
- اسلام آباد ہائیکورٹ کا عدالتی امور میں مداخلت پر ادارہ جاتی ردعمل دینے کا فیصلہ
- عوام کو ٹیکسز دینے پڑیں گے، اب اس کے بغیر گزارہ نہیں، وفاقی وزیرخزانہ
- امریکا نے ایران کیساتھ تجارتی معاہدے کرنے والوں کو خبردار کردیا
- قومی اسمبلی میں دوران اجلاس بجلی کا بریک ڈاؤن، ایوان تاریکی میں ڈوب گیا
- سوئی سدرن کے ہزاروں ملازمین کو ریگولرائز کرنے سے متعلق درخواستیں مسترد
- بہیمانہ قتل؛ بی جے پی رہنما کے بیٹے نے والدین اور بھائی کی سپاری دی تھی
- دوست کو گاڑی سے باندھ کر گاڑی چلانے کی ویڈیو وائرل، صارفین کی تنقید
- سائنس دانوں کا پانچ کروڑ سورج سے زیادہ طاقتور دھماکوں کا مشاہدہ
- چھوٹے بچوں کے ناخن باقاعدگی سے نہ کاٹنے کے نقصانات
’’عمران خان ۔۔۔ تم بھی‘‘؟
عظیم رومن جنگجو جولیس سیزر کو بھرے دربار میں اس کے دشمن جب چاقوؤں کے پے در پے وار سے شدید زخمی اور نڈھال کر رہے تھے تو سیزر مدد کے لیے دوستوں کو پکارتا اور کراہتا رہا۔ عین اس وقت جب وہ نڈھال ہوکر گرنے ہی لگا تھا تو سیزر کے معتمدِ خاص، اس کے منہ بولے بیٹے بروٹس نے اپنا خنجر سیزر کے جسم میں گھونپ دیا۔ اپنے منہ بولے بیٹے بروٹس، جسے سیزر بہت زیادہ چاہتا تھا کا یہ وار وہ سہہ نہ سکا اور اس کی رہی سہی سکت بھی دم توڑ گئی۔ بروٹس کے وار سے شدید صدمہ زدہ اور حیران سیزر صرف اتنا ہی کہہ سکا، ’’بروٹس، میرے بچے، تم بھی؟‘‘ ۔
یہ فقرہ سیزر کے لبوں سے نکلا اور تاریخ کے صفحوں پر بے وفائی، سازش اور دھوکہ دہی کے استعارے کے طور پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نقش ہو گیا۔ آخری ہچکیاں لیتے وقت سیزر کے ذہن میں اُن تمام جنگوں اور فتوحات کے واقعات کی فلم ضرور چلی ہوگی جب موت اس کے قریب سے چھو کر گزر گئی اور آئی بھی تو اس کے ہاتھوں جسے ساری زندگی اُس نے بیٹے کی طرح پیار کیا۔
گزشتہ دنوں عمران خان کا یہ بیان کہ ’’پینتیس پنکچر والی بات صرف ایک سیاسی بیان تھا‘‘ پڑھا تو ایسا لگا جیسے کپتان نے میرے پہلو میں خنجر گھونپ دیا ہو۔ میں کتابوں اور اُن میں لکھے ہوئے حروف پر یقین کرنے والا بندہ ہوں، جس نے ہمیشہ یہ یقین رکھا کہ ایک لیڈر اپنے لوگوں سے کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ اِسی آئیڈیل ازم نے مجھے عمران خان کی طرف راغب کیا۔ جب اُس نے اپنے 2011 کے لاہور کے کامیاب جلسے کے بعد پے در پے بیانات میں دعویٰ کیا کہ میں اپنی قوم سے کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا۔
Soon it will be the drop scene of #imrankhan allegations as Arif alvi apologize for 35 puncture.
— Ashar Qazi (@ashar_qazi) July 2, 2015
یہ بیان پڑھنے کے بعد میرے ذہن میں 2013 کے ابتدائی مہینوں کے واقعات فلم کی طرح چلنے لگے جب الیکشن کی تیاریاں زوروں پر تھیں۔ میری رہائش نون لیگ کی ایک اکثریتی آبادی میں ہے۔ میرے خاندان کے بہت سے بزرگوں نے نواز شریف کی حمایت کا اعلان کیا مگر میرے اور مجھ سمیت کچھ نوجوانوں نے عمران خان کی آواز پنجاب کے اس دور افتادہ علاقے میں بلند کرنے کی ٹھان لی جہاں مولوی اور زمیندار کے اتحاد کےعلاوہ کسی اور کا جیتنا ناممکن ہے۔ ہم سب دوست جانتے تھے کہ ہم الیکشن نہیں جیتیں گے لیکن جب ذہن پر حق اور سچ کا سودا سمایا ہو تو ہار اور جیت سے فر ق ہی کیا پڑتا ہے؟
پس ثابت ہوا کے پنتیس پنکچرز کی ضرورت عمران خان کے دماغ کو ہے #ImranKhan #PTI #35puncture
— aisha ghazi (@aishaghazi) July 1, 2015
وہ رات مجھے آج بھی یاد ہے جب ہم اپنے محلہ کے وسطی میدان میں تحریک انصاف کا جلسہ منعقد کروا رہے تھے اور چاروں طرف ایستادہ مکانوں میں سے ایک بھی مکان ایسا نہیں تھا جہاں ہم تحریک انصاف کا پوسٹر لگا سکتے کیونکہ ہر گھر پر مسلم لیگ نون کا پوسٹر چسپاں تھا۔ وہ رات بھی مجھے یاد ہے جب عمران خان نے ہمارے قصبے میں آنا تھا اور ہم تمام رات جاگ کر جلسہ گاہ میں جھنڈے اور بینر لگاتے رہے حتیٰ کہ شدید بارش اور آندھی کی وجہ سے ہمیں گھر واپس جانا پڑا۔ دس پندرہ موٹر سائیکلوں پر بیٹھ کر علاقے میں گھومتے پھرتے اور ’کون بچائے گا پاکستان، عمران خان، عمران خان‘ اور ’صاف چلی شفاف چلی تحریکِ انصاف چلی‘ کے نعرے لگاتے لگاتے حلق میں کانٹے پڑجاتے اور سر میں درد شروع ہوجاتا۔ محلے کے دوستوں، ہمسائیوں، بزرگوں کی معنی خیز مسکراہٹوں اور طنزیہ فقروں کا مقابلہ ہمیشہ حوصلے اور یقین سے کیا۔ الیکشن کا دن بھی ابھی ذہن سے محو نہیں ہوا جب ہمارے پاس اتنے بھی بندے نہیں تھے کہ ہر پولنگ اسٹیشن پر اپنا ایک نمائندہ بٹھاسکیں۔ جب تحریکِ انصاف نے صرف 18 ہزارووٹ لیے تو ہم ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے تھے کہ توقع سے بہت اچھے ووٹ مل گئے۔
الیکشن کے بعد سے دھرنے کے دنوں تک اور دھرنے سے جوڈیشل کمیشن تک میں نے عمران خان کے ایک ایک بیان کا دفاع کیا کیونکہ میرا خیال تھا کہ یہ بندہ کبھی غلط بیانی نہیں کرسکتا۔ مگر کیا کریں کہ آخری تجزیے میں یہ سب کچھ غلط ثابت ہوا۔ کفِ افسوس ملتے ہوئے عمران خان کی خدمت میں صرف اتنا عرض کروں گا…..
’’ کپتان، تم بھی؟‘‘
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔