یہ ستم آخر کب تلک؟

مقتدا منصور  جمعرات 9 جولائی 2015
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

گزشتہ جمعہ کو نیپرا (NEPRA) نے کراچی کے گھریلو صارفین کے لیے بجلی کے نرخ میں 20 سے 80 فیصد تک ازخود اضافہ کردیا ہے۔ K الیکٹرک کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی نے نرخ بڑھانے کے لیے کوئی درخواست نہیں دی تھی۔

پھر نیپرا کے دل میں اس کمپنی کے لیے اچانک یہ ہمدردی کیوں جاگی ہے؟ جب کہ کمپنی کی کارکردگی، اہلیت اور صلاحیت کے بارے میں عوام کو ان گنت شکایات ہیں۔ دو ہفتے قبل پڑنے والی قیامت خیز گرمی کے دوران ہونے والی اموات کے دیگر اسباب کے علاوہ ایک سبب کمپنی کی جانب سے کی جانے والی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کو بھی قرار دیا جارہا ہے۔

عوام کو یہ بھی شکایت ہے کہ K الیکٹرک نے مختلف علاقوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ میں امتیازی سلوک کے ذریعے شہر کی طبقاتی تقسیم کو مزید گہرا کردیا ہے۔ خود نیپرا نے اپنی حالیہ رپورٹ میں یہ الزام لگایا تھا کہ K الیکٹرک اپنی استعداد سے کم بجلی پیدا کررہی ہے اور وفاق سے کم قیمت پر بجلی خرید کر مہنگے داموں فروخت کررہی ہے۔ مگر ان تمام الزامات کے باوجود کمپنی پر اس قدر عنایات اور عوام پر ظلم و ستم کے کوہِ گراں کئی سوالات کو جنم دے رہے ہیں۔

یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ 18 ویں ترمیم کے تحت جب صوبوں کو بجلی پیدا کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، تو پھر بجلی کی تقسیم اور انتظام کا حق انھیں کیوں نہیں دیا جارہا؟ اصولی طور پر تو کراچی جیسے میگا شہر میں بجلی جیسی بنیادی سماجی خدمت کی تقسیم کا نظام صوبائی ہی نہیں بلکہ مقامی حکومت کے زیر انتظام ہونا چاہیے۔ مگر ہماری قومی سیاسی جماعتیں مقامی حکومتی نظام کو اپنے اقتدار واختیار کے لیے چیلنج سمجھتی ہیں۔ اسی لیے وہ لولا لنگڑا مقامی حکومتی نظام تک رائج کرنے میں پس وپیش سے کام لیتی ہیں۔

دوسری طرف وفاقی حکومت کی جانب سے ایک نجی کمپنی کو اس کی درخواست کے بغیر ہی گھریلو صارفین کے لیے بجلی کے نرخوں کو 80 فیصد تک بڑھانے کی اجازت دینا اس شہر کے باسیوں کے ساتھ کھلی دشمنی ہے۔ صوبے کی دو بڑی نمایندہ جماعتوں کے علاوہ قلمکار، اہل دانش اور متوشش شہری بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر مسلسل  ان شکوک وشبہات کا اظہار کرتے چلے آرہے ہیں کہ اس جماعت کا مطمع نظر سندھ میں امن بحال کرنا نہیں ہے بلکہ یہاں کی نمایندہ جماعتوں کو زچ کرنا ہے اور اس سلسلے میں اسے اسٹبلشمنٹ کی بھی مکمل سرپرستی حاصل ہے۔ حکومت کا حوصلہ اس لیے اور بھی بلند ہوا ہے، کیونکہ سندھ کی دو لسانی کمیونٹیز کے درمیان اس حد تک غلط فہمیاں پیدا ہوچکی ہیں کہ دونوں ایک دوسرے کی سوچ اور اقدامات کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔ ان رویوں کی وجہ سے وفاقی حکومت کے حوصلے مزید بلند ہوئے ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے K الیکٹرک کو جس طرح بلاجواز بجلی کے نرخ بڑھانے کی اجازت دی ہے، اس سے اس تصور کو بھی تقویت حاصل ہوئی ہے موجودہ حکومت کا کردار کسی طور بھی عوام دوست نہیں ہے۔ حالانکہ اس کے بارے میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ یہ کاروباری حلقوں کی نمایندہ جماعت ہے۔

اسی بنیاد پر اس سے فیوڈل بنیاد رکھنے والی جماعتوں کے مقابلے میں ترقی دوست اقدامات کی توقع کی جاتی رہی ہے۔ لیکن مسلم لیگ (ن) کے موجودہ اور سابقہ دونوں ادوار کا جائزہ لیا جائے، تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے بارے میں قائم تاثرات محض غلط مفروضوں اور ابہام (Illusion) سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کاروباری حلقوں کے مفادات کی ترجمانی کرنے کے بجائے عالمی مالیاتی اداروں کی ترجیحات کو سامنے رکھ کر فیصلے کر رہی ہے‘ جس کا مقصد ان اداروں کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔

حکومت کے دو سالہ دور کا جائزہ لیا جائے تو کئی تلخ حقائق سامنے آتے ہیں۔ کاروبار دوست ہونے کی دعویدار حکومت کا دو برس کے عرصہ میں بجلی کے بحران پر قابو پانا تو دور کی بات اس کی قلت میں کمی بھی نہیں لاسکی ہے۔ حکومت کی انھی غلط پالیسیوں کے باعث فیصل آباد میں موجود ٹیکسٹائل کی صنعت بند ہورہی ہے۔ جب کہ لاہور کے تاجر بھی ہڑتال کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ موجودہ حکومت کے دو سالہ دور حکمرانی میں مہنگائی میں 35 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ اس کے سوا ہے۔

حکومت کی غلط پالیسیوں کے سبب روزگار کے نئے ذرایع پیدا ہونے کے بجائے موجود ذرایع بھی سکڑ رہے ہیں۔ یہ تمام مظاہر حکومت کی ناکام معاشی پالیسیوں کی واضح مثال ہیں۔ جنرل پرویز مشرف دور کی معاشی سرگرمیوں کو جعلی کہنے والی حکومت کی اپنی پالیسیاں اور طرز عمل جعلی اعدادوشمار پر مشتمل ہوتے ہیں۔ پرویز مشرف دور میں جو معاشی سرگرمیاںجاری تھیں، ان کے اثرات کم ازکم معاشرے کی نچلی سطح تک نظر تو آرہے تھے۔ موجودہ حکومت کے اقدامات ہوسکتا ہے کہ کسی مخصوص حلقے تک محدود ہوں، عوام میں ان کے اثرات بہرحال نظر نہیں آرہے۔

دوسرا پہلو جس پر گفتگو کرنے کی ضرورت ہے، وہ حکومت کی ترجیحات ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ موجودہ حکومت کی اولین ترجیح سڑکوں کی تعمیر ہے، تاکہ کاروبار کو فروغ حاصل ہوسکے۔ مگر یہ بھی ایک مفروضہ ہے۔ حکومت کی ترجیح صرف ایسی شاہراہوں کی تعمیر ہے، جس پر زیادہ سرمایہ کاری ہو اور مخصوص طبقات کو فائدہ ہوسکے، جس کی مثال چین سے گوادر پورٹ کو ملانے والی شاہراہ ہے۔

جس کے روٹ پر سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی بعض قوم پرست جماعتوں کے  تحفظات ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ بنیادی انفرااسٹرکچر میں صرف سڑکیں ہی شامل نہیں ہوتیں، بلکہ بجلی، گیس اور پانی کی فراہمی بھی شامل ہے، جس پر کوئی ٹھوس کام نہیں ہورہا۔ اس کے علاوہ ٹیکس کے نظام میں وسعت اور اسے کاروبار دوست بنانے پر بھی کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔ اس کے برعکس عالمی بینک اور IMF کی شرائط کی تکمیل میں عوام اور کاروباری طبقے کی گردن پر کند چھری چلائی جارہی ہے۔

حکومت کی دوسری ترجیح میٹرو بس سروس ہے۔ جس ملک میں لوگ نان شبینہ کو محتاج ہیں، 45 فیصد سے زائد آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور کردی گئی ہو، وہاں میٹرو بس محض عیاشی ہے۔ عوام کی ضرورت سستی اور بروقت پبلک ٹرانسپورٹ کی دستیابی ہے۔ اس لیے کسی ایک روٹ پر شاندار سروس سے عوام کا بھلا نہیں ہوتا۔ اسلام آباد سے راولپنڈی میٹرو بس سروس ہی کو لیجیے، اس پر اربوں روپے خرچ کر دیے گئے۔ حالانکہ اس سے کم رقم سے ان دونوں شہروں کے درمیان کئی روٹس پر بس سروسیں شروع کی جاسکتی تھیں۔

مگر اپنی خواہشات کی تکمیل پر دونوں ہاتھوں سے جس شاہانہ انداز میں غریب ملک کا قومی خزانہ لٹایا گیا، وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ دراصل یہ باتیں ان لوگوں کی سمجھ میں آتی ہیں، جنھیں عوامی مسائل اور مشکلات کا فہم و ادراک ہوتا ہے۔ ایک ایسی حکومت جس کی قیادت نودولتیوں پر مشتمل ہو، انھیں عوامی مسائل و مشکلات سے کیا علاقہ۔ ایسے حکمرانوں کا مطمع نظر عوام کی فلاح نہیں، بلکہ کمیشن کا حصول ہے۔

قومی ترقی میں دوسرا اہم معاملہ تعلیم ہے۔ مگر یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ تعلیم حکومت کی ترجیحات میں شاید سب سے آخر میں کہیں ہو تو ہو، اس کی دس کلیدی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ حالانکہ  وزیراعظم نے اوسلو (ناروے) میں تعلیم پر ہونے والی کانفرنس میں تعلیم کی اہمیت پر خاصی فصیح و بلیغ تقریر کی۔ لیکن یہ باتیں صرف تقریر کی حد تک تھیں۔ اگر موجودہ یا سابقہ حکومتیں تعلیم کے فروغ میں سنجیدہ ہوتیں تو جنگی بنیادوں پر اس کے لیے منصوبہ بندی کرتیں۔

لیکن جس طرح توانائی کے بحران پر قابو پانے میں حکومتوں کی غیر سنجیدگی سب پر عیاں ہے، اسی طرح تعلیم کے بارے میں حکومتوں کے دعوے بھی محض نعرہ بازی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ تعلیم کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ پرانے سرکاری اسکولوں کی مرمت کے بجائے اور ان میں ضروری سہولیات مہیا کی جائیں۔ اس کے بعد یہ دیکھا جائے کہ کسی گاؤں، قصبے اور شہر میں مزید کتنے نئے اسکولوں کی ضرورت ہے۔ اساتذہ کی جدید خطوط پر تربیت بھی تعلیم کے فروغ کا اہم ترین جزو ہے۔ یہ مانا کہ 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم صوبائی معاملہ ہے۔ لیکن جس طرح نصاب اور ہائر ایجوکیشن کے معاملات میں وفاق دخیل ہے، اسی طرح پرائمری تعلیم کے فروغ کے لیے بھی صوبوں کو مہارت اور سہولیات فراہم کرسکتی ہے  ۔

پھر عرض ہے کہ ہمارے جو دوست موجودہ حکومت کو کاروبار دوست اور معیشت کی بحالی کا ذریعہ سمجھتے ہیں، وہ شدید غلطی پر ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی موجودہ اپنے ملک کے کاروباری حلقوں کے بجائے عالمی مالیاتی اداروں کی حمایتی حکومت ہے۔ دوسرے اپنی غلط پالیسیوں اور حکمت عملیوں کے باعث وفاق کو کمزور کرنے کا سبب بن رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔