رمضان المبارک ایک رنگا رنگ لمبا تیوہار

انتظار حسین  جمعـء 10 جولائی 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

ہمارے تیوہاروں میں سب سے لمبا تیوہار‘ کہہ لیجیے کہ تیس روزہ تیوہار وہ ہے جو رمضان المبارک کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ روزہ تو دینی فریضہ ہے لیکن جب اس دینی فریضہ نے دھیرے دھیرے اپنے ارد گرد رسوم و روایات کا ایک سلسلہ قائم کر لیا تو پھر وہ تیوہار بن گیا۔ تیوہار بننے کے ساتھ روزے کی سختی نرمی میں بدل گئی۔

تو اب سوچئے کہ ہم اپنے تیوہار کس طریقے سے مناتے ہیں۔ عید‘ تو عید‘ شب برات ان کا ذکر تو آپ کو کتابوں میں مل جائے گا کہ کب کس ملک کس شہر میں یہ تیوہار کیسے منائے جاتے ہیں۔ رمضان کا ذکر پچھلے تذکروں میں کم کم آیا ہے۔ مگر دلی کے تذکرہ نگاروں میں سے کسی کسی نے یہ تذکرہ بھی رقم کیا ہے۔ ایک دہلوی بزرگ سید وزیر حسن نے دلی کا آخری دیدار کراتے کراتے رمضان المبارک کا بھی دیدار کرا دیا ہے۔ آخری دیدار اس اعتبار سے کہ ابھی مغلیہ دربار جیسا کیسا بھی رہ گیا تھا برقرار تھا۔ اس کے ہوتے ہوئے دلی میں رمضان کا کیا نقشہ تھا۔ ملاحظہ کیجیے۔

’’رمضان شریف‘‘ آیا۔ اس کا پوچھنا ہی کیا۔ یہ تو ایک مہینے کچھ دن کا تیوہار تھا۔ سارا مہینہ ایک ایک گھنٹہ کر کے گزرتا۔ گیارہ مہینے کی کمائی ہر شخص اس مہینے بیٹھ کر کھاتا۔

’’پچھلے پہر تو پیں چلیں۔ ڈنکے بجے۔ سب نے سحری کی۔ روزے کی نیت کی۔ کوئی کلام اللہ لے بیٹھا۔ کوئی وظیفہ پڑھنے لگا۔ فجر کی نماز کے بعد کسی نے آرام کیا۔ گرمی ہوئی تو کوئی دریا کی سیر کو نکل گیا۔ کسی نے تیتر بٹیر اگن کے لال سفید پنجرے لیے اور جنگل کی طرف نکل گیا۔ کوئی پھولوں کا دونا لیے مزاروں پر چلا جاتا ہے۔

’’سورج نکلا۔ شہر سنہری دھوپ کے نور میں ڈوب گیا۔ اب نو دس بجے اِدھر اور دن ڈھلے اُدھر بازاروں میں گہما گہمی ہوئی۔ قلعہ سے لگا سارے شہر میں نت نئے پکوان پک رہے ہیں۔ پتیلیاں ٹھنٹھنا رہی ہیں۔ من بھاون چیزیں پک رہی ہیں۔ گھڑی بھر دن رہے روزہ کشائی لگنی شروع ہوئی قسم قسم کے شربت‘ تخم ریحان‘ فالودہ‘ لیمو کا آب شورہ‘ قلمی بڑے‘ دہی بڑے‘ لونگ چڑے‘ مچھلی کے کباب‘ پھلکیاں‘ سیوا دال‘ پالک کے پتے‘ طرح طرح کی ترکاریاں رکابیوں سینیوں میں لگائی گئیں۔

’’اے لو‘ وہ سورج غروب ہوا۔ مشرق سے سیاہی پھیلی۔ بادشاہ نے اشارہ فرمایا‘ ہرکارے نے جھنڈی ہلائی‘ وہ روزے کی توپ دغی۔ دھائیں۔ چو طرف اذانیں ہونے لگیں۔ سب نے جلدی جلدی آب زم زم‘ مکے کی کھجور یا چھوارے سے روزہ کھولا۔ کٹورے پہ کٹورا غٹ غٹ شربت پیا ذرا ذرا سی دال ترکاری‘ میوہ چکھا۔ نماز کے لیے کھڑے ہو گئے۔ رات میں ترابیوں (تراویح) کی چہل پہل رہی۔ محلہ کی کوئی مسجد نہیں جہاں سے کلام اللہ کی آواز نہ آتی ہو۔ اس سے نچنت ہوئے۔ گیارہ بارہ بجے ذرا کمر سیدھی کی۔ ایک ڈیڑھ بجے چوکی دار آن پہنچے۔ کوئی بیداری سے کہتا ہے‘ روزہ دارو‘ اللہ کے پیارو‘ سب ہی دین دارو اٹھو۔ کوئی کہتا‘ جاگیو بابا‘ بھلا ہو گا اور جاگنے میں خدا ملا ہے گا‘۔

’’بس یہ سمجھئے‘ سارا مہینہ یوں ہی چہل پہل سے گزرتا۔ آخری جمعہ کو الوداع کے ٹھاٹھ رہتے۔ انتیسویں تاریخ ہوئی۔ اور سب کی آنکھیں آسمان پر لگ گئیں۔ سانڈنی سوار چاند کی خبر کو روانہ ہوئے۔ کہیں چاند دیکھ لیا ہے تو گواہی آ گئی۔ خوشی خوشی سب نے جوان عید کی تیاریاں کیں۔ نہیں تو بوڑھی عید تو کہیں گئی نہیں‘‘۔

جوان عید ہو یا بوڑھی عید ہو۔ عید بہر حال عید ہے۔ کیسے چڑھی‘ یہ اس مبارک صبح کو دیکھیں گے۔

یہ تو سارا بیان رمضان کلچر کا بیان تھا۔ آگے چل کر اس میں کیا کلی پھندنے لگے وہ آگے زمانے والے جانیں۔ مثلاً افطاری کے سارے پکوان نظر آ رہے ہیں مگر افطار پارٹی کا کہیں ذکر نہیں۔ ارے افطار پارٹی تو ہمارے زمانے کی ایجاد ہے۔ افطاری کے ذیل میں شربتوں کا ذکر ہے۔ یہ جو شربت کا نعم البدل آیا ہے۔ یعنی کوک۔ اور کوک کے بطن سے برآمد ہونے والے نئے ڈرنکس یا نئے مشروبات جو افطار پارٹیوں میں بہت چلتے ہیں ان کا کوئی ذکر نہیں مگر مت سمجھو کہ شربت رخصت ہو گئے۔ کیسے رخصت ہو جائیں گے۔ شربت تو مہکتے مشروب ہیں۔ گلاب کیوڑے کی مہک شربت کو کیا سے کیا بنا دیتی ہے۔ روزہ دار ایک گھونٹ ہی لیتا ہے تو اس کے چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں اور اب جو بڑے دوا خانوں نے اپنی عطاری کے زور پر ان میں نئے ذائقے نئی خوشبوئیں سمو لی ہیں ان سے یہ شربت کیا سے کیا بن گئے ہیں۔ گرمیوں کے باقی ایام میں بیشک ہم ان کی طرف دھیان نہ دیں۔ مگر روزہ دار کو جیسے کھجور سے مفر نہیں ہے‘ ایسے ہی ان شربتوں سے بھی مفر نہیں ہے۔

اور ہاں جب بڑے ہوٹلوں کے ہاتھ افطار پارٹی کا نسخہ آ گیا تو پھر انھوں نے سحری کو بھی گھروں میں بند نہیں رہنے دیا۔ سحری بھی گھروں کی چہار دیواری سے نکل کر ہوٹلوں میں پہنچ چکی ہے۔ نئے زمانے کی روزہ دار بیبیاں اب گھروں میں یہ کھڑاک نہیں پالتیں۔ پورا خاندان اب سحری کے اعلان ہونے کے ساتھ ہوٹلوں کی طرف لپکتا ہے۔ کوئی لازم نہیں کہ خاندان کے سب ہی روزہ رکھتے ہوں۔ مگر افطار اور سحری کے کلچر میں شامل ہو کر اس کلچر کی رنگا رنگی سے تو لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ شاید اس حساب سے تھوڑا ثواب بھی کما لیتے ہوں کہ روزہ نہیں رکھا تو کیا ہوا‘ روزے کی روایت میں تو شریک ہو گئے۔

ہاں توپ تو اب نہیں دغتی۔ نہ افطار کے وقت نہ سحری کے وقت۔ وہ شاہی زمانے کے چوچلے تھے۔ لال قلعہ میں توپ دغے گی تو پورے دلی شہر میں اس کی گونج پہنچے گی۔ باقی شہروں میں نقارے سے توپ کا کام لیا جاتا تھا۔ نئے زمانے کے شور میں نقارے کی آواز بھی گم ہو گئی۔ مگر سحر خیزئیے اس زمانے میں بھی تھے۔ اب بھی ہیں جو محلہ محلہ سحری کی منادی سناتے ہیں۔

افطاری اور سحری میں کیا کشش ہے کہ روزہ خور بھی اس کے رنگا رنگ ذائقوں سے محسور ہو کر روزہ خوری سے کنارہ کر کے روزہ دار بن جاتے ہیں۔ ان کی باتوں پر مت جاؤ جو اسے بدعت کہہ کر ہمیں رمضان المبارک سے بدظن کرتے ہیں۔ اس دینی فریضہ میں آخر کوئی تو ایسی کشش ہے کہ اس کی بھوک پیاس میں انھیں کیا کیا امکانات نظر آئے کہ رمضان ان کے لیے کتنا با رونق مہینہ بن گیا اور روزے میں بچوں بڑوں کے لیے کتنی کشش پیدا ہو گئی اور رمضان کا مہینہ کتنا گہما گہمی کا مہینہ بن گیا۔ یعنی پورا الگ کلچر۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔