حکمران نیب کی کارروائی سے اتنے سیخ پا کیوں؟

رحمت علی رازی  اتوار 12 جولائی 2015

پاکستان کو چلانے کے لیے آئین بنایا گیاتھا اور آئین بنانے والے آئین پر ایمان نہیں رکھتے۔ وطن عزیز میں ایک بھی سیاسی راہنما ایسا نہیں جو صادق اور امین ہونے کی بنا پر آرٹیکل 62/63 پر پورا اترتا ہو۔ ہمارے حکمران کرپشن کے کیچڑ میںبال بال دھنسے ہوئے ہیں اور مجال ہے جو کوئی ایک بھی اپنی کارگزاریوں کا اعتراف کرے۔ سب کے سب خود کو فرشتہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ جس ملک کا وزیراعظم، صدر اور صوبوں کے وزرائے اعلیٰ پر سنگین بدعنوانیوں کے الزامات ہوں، اس ملک کے عوام کا کیا حال ہوگا۔

قومی احتساب بیورو(نیب) کی جانب سے سپریم کورٹ میں پیش کی جانے والے 150 میگا کرپشن کیسز کی فہرست نے پاکستان کی تقدیر اور مستقبل پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ اراضی کے لین دین میں خوردبرد، اختیارات کے ناجائز استعمال اور مالی بے ضابطگیوں کے علاوہ دیگر کئی انواع کی بدعنوانیوں کے مقدمات میں حکمران، بیوروکریٹ، صنعتکار اور کاروباری حضرات شامل ہیں جن میں وزیراعظم نواز شریف، وزیراعلیٰ شہباز شریف، سابق صدر آصف زرداری، سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، چوہدری شجاعت اور وزیر خزانہ اسحق ڈار کے علاوہ آفتاب شیرپاؤ جیسے رازداروں کے نام بھی آئے ہیں۔

150میگا کرپشن کیسز کا سکینڈل تو محض عدالت عظمیٰ کی رپورٹ پر سامنے آگیا وگرنہ تو فائلوں پر مٹی کی تہہ جمی رہتی۔ حقیقت یہ ہے کہ 1999ء سے لے کر 2015ء تک کے اور بھی سیکڑوں میگا کرپشن کے کیسز ہیں جو سالہاسال کے بعد بھی انکوائری کی مراحل میں ہیں جو کبھی تفتیش اور ریفرنسز کی اسٹیج پر لائے ہی نہیں گئے۔ نیب میں لاتعداد مقدمات ایسے بھی ہیں جن میں پلی بارگین کی اسٹیج پر ملزمان سے مک مکا کر کے مقدمات فارغ کر دیے گئے اور کئی کیسز میں شواہد اور حقائق کو کمزور کر کے عدالتوں میں پیش کیا گیا جس سے وہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے جو ہونے چاہئیںتھے‘ اس وجہ سے ملکی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا۔ قومی مناصب پر فائز شخصیات پر الزامات اور مقدمات ایک انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے جس پر پیشرفت اب ہر حال میں ہونی چاہیے۔

وزیر اطلاعات نے اپنی پارٹی کے ملزمان کا دامن یہ کہہ کر صاف کرنے کی بھرپور سعی کی کہ ’’سرکاری اداروں سے کرپشن ختم کرنے کے لیے نیب قائم کیا گیا تھا تاہم دورِ آمریت میں اسے سیاسی مخالفین کا شکار کرنے کے لیے استعمال کیا گیا، یہ 15 برسوں میں ایک بھی مقدمہ شروع نہیں کرسکا۔ ٹریک ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ نیب معاشرہ سے بدعنوانی ختم کرنے میں ناکام رہا ہے‘‘۔ ان مہاکلاکاروں کے طوطے کیوں اُڑ گئے جو نیب کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھتے تھے۔ بیچارے حکمران اور اپوزیشن والے تو سانپ کے منہ میں اس وقت آ گئے جب سپریم کورٹ نے ایک نیب مقدمہ کی سماعت کے دوران میگاکرپشن کیسز کی فائل مانگ لی۔ حکمران اب اتنے ہی پاک دامن بننے کی کوشش کر رہے ہیں تو ضروری ہوگیا ہے کہ چوہدری شجاعت کا تجویز کردہ فارمولا آزما لیا جائے کہ 150 کیسز کے فوری اور سمری ٹرائل کے لیے سپریم کورٹ کمیشن تشکیل دے جو کھلی سماعت کرے۔

کمیشن کی کارروائی کی لائیو کوریج ہو اور عوام کو تمام تر کارروائی دیکھنے کی اجازت ہو، پھر 150 کیسز کو فلٹر کر کے سنجیدہ ترین کیسز کی سماعت شروع کر دی جائے تویہ معاملہ احسن طریقے سے حل ہو جائے گا۔ چوہدری شجاعت کی یہ تجویز انتہائی قابل عمل ہے اور ہم ان کی تجویز سے 100 فیصد اتفاق کرتے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کی مشترکہ سفارش پر لگنے والے نیب چیئرمین اب اچانک حکمرانوں اور اپوزیشن کی نظر میں راندۂ درگاہ کیوں ہو گئے، انھوں نے تو سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل ہی کی ہے، کیس تو کئی سالوں سے التواء میں پڑے ہیں۔ حکمرانوں کے شدید ردعمل سے تو یہی لگتا ہے کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔

چاہیے تو یہ تھا کہ تمام سیاسی جماعتیں نیب کی کارروائی پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتیں اور انہیںہر ممکن تعاون کا یقین دلاتیں۔ ان سب سے تو عمران خان ہی نمبر لے گئے جنھوں نے اپنے وزیر معدنیات کی گرفتاری پر نیب کی کارکردگی کو نہ صرف سراہا بلکہ خیبرپختونخوا کے نیب سربراہ شہزاد سلیم کو شاباش بھی دی۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ بدعنوان‘ ٹارگٹ کلر، بھتہ خور اور اغواء برائے تاوان کے موجدوں کے اب دن گنے جاچکے ہیں۔ عوام اگر خلوصِ نیت سے شفاف احتساب پر بھرپور تعاون کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک امن کا گہوارہ نہ بن جائے۔ ان سیاستدانوں نے تو لوٹ مار کی باریاں لگارکھی ہیں لیکن اب جب ان پربھی ہاتھ پڑا ہے تو ان کی چیخیں نکل گئی ہیں۔ اب کوئی دھرنے کی دھمکی دے رہا ہے، کوئی فوج کو للکار کر باہرچلا گیا ہے تو بعض اپنے ہی منتخب کردہ چیئرمین نیب پر برس پڑے ہیں، انھیں تو اندازہ ہی نہیں تھا کہ ان پر بھی کوئی ہاتھ ڈال سکتاہے۔

سوال یہ ہے کہ حکمرانوں کا دامن اگر صاف ہے تو انہیں صفائیاں یا وضاحتیں دینے کی کیا ضرورت ہے، انہیں بھی خود کو اوپن ٹرائل کے لیے پیش کر دینا چاہیے، مگر وہ کبھی بھی ایسا نہیں کرینگے کیونکہ انھیں معلوم ہے اگر احتساب غیرجانبدار ہوا تو وہ اس میں سے کبھی بھی نہیں نکل سکیں گے۔ ان کے سیکڑوں ترقیاتی منصوبے ہیں جن میں ان کے ہمالیہ سے بڑے مفادات انویسٹ ہوئے پڑے ہیں۔ ان کے شروع کیے گئے پاور پراجیکٹس پر اربوں روپے خرچ ہوچکے ہیں مگر ابھی تک کسی بھی منصوبے کی بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی۔

پاکستان کی یہ بدقسمتی ہے کہ اس کی باگ ڈور سرمایہ داروں کے ہاتھ میں آچکی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہ تصور کیا جاتا تھا کہ جاگیرداری نظام پاکستان کی بربادی کا ذمے دار ہے مگر اب بات بربادی سے بھی آگے جا چکی ہے،اور سرمایہ داری نظام نے پاکستان کی موت کا چارٹر لکھنا شروع کردیا ہے۔ کارل مارکس نے کہا تھا ’’ سرمایہ داری نظام دُ نیا کی تمام خباثتوں کی جڑ ہے‘‘۔ یہ وہ نظام ہے جس میں افراد کو انسان نہیں، اجناس شمار کیا جاتا ہے۔ اس میں اخلاقیات، روایات اور جذبات کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ یہ وطن عزیز کی بدنصیبی ہے کہ قدرت نے اس کے عوام پر ایسے تاجر حکمران مسلط کردیے ہیں۔

جنھوں نے اقتدار میں آنے سے قبل عوام کو بیشمار سبز باغ دکھائے مگر اب یہاں اندھیروں کے سوا کوئی دوسرا رنگ دکھائی نہیں دیتا۔ حکومت سنبھالتے ہی اپنا کوئی وعدہ بھی ایفاء نہیں کیا اور آتے ہی انھوںنے لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا جو نعرہ لگاکر سادہ لوح عوام سے ووٹ ہتھیائے تھے، وہ اب فقط نعرۂ مستانہ بن کر رہ گیا ہے۔ حکومت سنبھالتے ہی انہیں چاہیے تھا کہ توانائی بحران کے خاتمے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرتے، مگر افسوس کہ ان کی ترجیحات صرف وہ بے مقصد ترقیاتی منصوبے تھے جنکے فوائد عوام کے بجائے صرف انہیں مل رہے ہیں۔ ترقیاتی منصوبے بھی اگر نیک نیتی سے عوامی اُمنگوں کے مطابق شروع کیے جاتے تو ان کے کچھ مثبت نتائج ضرور سامنے آتے لیکن بدقسمتی سے انھوں نے جتنے بھی منصوبے داغے ‘ وہ سب مبہم اور غیریقینی ہیں۔

حکمرانوں کے کریڈٹ پر سوائے میٹروبس کے اور کچھ بھی نہیں۔ آج کل پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ توانائی کا بحران ہے جس سے ہر پاکستانی متاثر ہے خاص طور پر وہ طبقہ جو روزمرہ کی بنیادوں پر مزدوری کرنیوالا ہے، اسے اپنی ایک وقت کی روٹی حاصل کرنا بھی مشکل ہوچکا ہے۔ توانائی کے اس مسئلے پر ہر پاکستانی حکومت پر تنقید کرتا نظر آتا ہے، حکومت اس بحران پر قابوپانے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ بے مقصد کاموں میں اُلجھے حکمرانوں نے اسے سنجیدگی سے نہ لیا تو توانائی بحران حکومت کی تباہی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ ایک مضبوط فوج کی موجودگی میں حکمرانوں کے لیے پالیسی سازی کی جگہ سکڑتی جا رہی ہے۔

عام انتخابات سے قبل عوامی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے حکمرانوں نے ملک میں جاری لوڈشیڈنگ کو جس کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا، ذرا ان کے چند ارشادات ملاحظہ فرمائیں۔ نوازشریف نے فرمایا تھا کہ ’’میں بھی لوڈ شیڈنگ کے خلاف عوامی مظاہروں میں شریک ہونا چاہتا ہوں، حکومت نے لوڈشیڈنگ کا تدارک نہ کیا تو اس کے خلاف فیصلہ کن مرحلہ شروع کرسکتے ہیں، عوام جس عذاب میں مبتلا ہیں، ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کو اس کا احساس تک نہیں، دو سال میں حکومت نے عوام کے لیے کچھ نہیں کیا‘‘۔ نواز شریف نے ایک بار پھر فرمایا کہ ’’حکومت ملی تو خدا کی قسم ملک کی تقدیر بدل دینگے اور قرضوں کی لعنت سے اس ملک کی ہمیشہ کے لیے جان چھوٹ جائے گی‘‘۔

شہباز شریف نے ایک جلسہ عام میں جذبات سے بے قابو ہوکر فرمایا تھا کہ ’’لوڈشیڈنگ پنجاب کے خلاف سازش ہے، اس کے لیے عوام احتجاج کریں، ملک بچانا ہے تو لانگ مارچ کرنا ہو گا، سب سے آگے میں ہونگا اور لانگ مارچ کے دوران زرداری کی گولی اپنے سینے پر کھاؤں گا۔ آپ میرے ساتھ اسلام آباد چلیں، جب تک لوڈشیڈنگ کا مسئلہ حل نہیں ہوتا، ہم واپس نہیں آئینگے‘ لوڈ شیڈنگ سے اربوں کا نقصان ہوا‘ بجلی اور گیس کے مسئلہ پر پنجاب کے خلاف سازش ہو رہی ہے‘ آج پورا پنجاب بلبلا رہا ہے‘ مشرف کے چیلے زرداری نے قوم کو پتھر کے زمانے میں دھکیل دیا ہے‘‘۔ وہ مینارِ پاکستان پر احتجاج کے دوران دَستی پنکھے بھی عوام کو دکھاتے رہے۔

اسی طرح مسلم لیگ (ن) نے پنجاب کے مختلف شہروں میں لوڈشیڈنگ کے خلاف شدید احتجاج کیا اور ریلیاں نکالیں۔ اس موقع پر حمزہ شہباز نے بھی فرمایا تھا کہ ’’لوڈشیڈنگ سے صنعت کا پہیہ بندہوچکا‘ زرداری حکومت کے دن گنے جاچکے اور اب اس کی  رخصتی کا وقت آ گیا ہے، ہم اقتدار میں آ کر لٹیروں سے لوٹی گئی رقوم واپس لے کر بجلی کے منصوبوں پرلگائیں گے‘‘۔ اسی طرح چوہدری نثار نے بھی اعلان کیا تھاکہ ’’اگر ہم ایک سال کے اندر قوم کی عزتِ نفس اور اعتماد بحال نہ کرسکے، لوڈشیڈنگ، مہنگائی، بیروزگاری ختم نہ کرسکے، آزادی اور خودمختاری عوام کو نہ دلاسکے، ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا نہ کر سکے تو اگر میں حکومت میں ہوا تو اس سے علیحدہ ہو جاؤنگا‘‘۔ اب قارئین ایسے سیاستدانوں کی شعبدہ بازیوں، وعدہ خلافیوں کا خود ہی اندازہ لگا لیں کہ یہ کہتے کیا ہیں اور کرتے کیا ہیں۔

زرداری کو مداری کہنے والوں کے سیاسی بیانات، بڑھکوں، وعدوں اور عمل میں کتنا تضاد ہے‘ یہ آپ کے سامنے ہے۔ یہ وہی حکمران ہیں جولوڈشیڈنگ کے درد میں اس قدر مرے جارہے تھے کہ عوام نے انہیں اپنا ہمدردسمجھنا شروع کر دیا اور اب یہ وہی حکمران ہیں جوحکومت میں ہیں اور عوام سابقہ دور سے کئی گنازیادہ لوڈشیڈنگ کے عذاب میں مبتلا ہیں اور یہ مہاکلاکار کمال فنکاری سے بیوقوف عوام کو تاریخوں پہ تاریخیں دیے جا رہے ہیں اوریہ قوم کو تو سناتے ہیں کہ ’’کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے‘‘ لیکن یہ الفاظ ان پر لاگو نہیں ہوتے۔

مشرف، زرداری اور نواز ادوارِ حکومت میں اربوں روپے توانائی بحران کے خاتمے کے نام پر لوٹے گئے مگر کسی نے بھی کوئی منصوبہ مکمل کر کے عوام کو نہیں دیا۔موجودہ حکومت میں بھی دیکھنے کو تو سیکڑوں پاور پراجیکٹس شروع کیے گئے جن میں ہائیڈل، سولر، کول اور تھرمل منصوبوں کے ساتھ ساتھ منی ڈیمز بھی شامل ہیں، مگر کوئی ایک منصوبہ بھی پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا اور ان پر اربوں روپے خرچ ہونے کے باوجود زیادہ تر منصوبے بند ہونے کی نہج پر ہیں جس کی حالیہ مثال 525 میگاواٹ کا چیچو کی ملیاں پاور پراجیکٹ ہے جو اب بند کر دیا گیا ہے جس پر تکمیل سے پہلے ہی تین ارب روپے خرچ ہو چکے تھے۔

چینی کمپنی کو ایل سی کے ذریعے 90 فیصد رقم بھی ادا کر دی گئی ہے، اس کے لیے لائی گئی مشینری بھی ناکارہ ہو چکی ہے لیکن اس پر جو خطیر رقم خرچ ہوئی، اسکا حساب کون دیگا، عوام اس جواب کے منتظر ہیں۔ اب تک لگ بھگ 22 سولر پراجیکٹ (772.99 میگاواٹ) کے شروع کیے جا چکے ہیں۔ پرائیویٹ پاور اینڈ انفراسٹرکچر بورڈ کے 31 خودمختار پرائیویٹ پراجیکٹس سے بھی 9071 میگا واٹ کی خوشخبری سنائی گئی۔ 15 جولائی 2013ء کو ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے اشتراک 84میگا واٹ کے نیوبونگ اسکیپ ہائیڈرو پراجیکٹ منگلا (آزاد کشمیر) منصوبے کا افتتاح ہوا۔ یہ پہلا منصوبہ تھا جو پاور پالیسی کے تحت شروع ہوا، یہ بھی ابھی تک کاغذی جہاز ہے۔

سندھ میں ونڈ پاور منصوبے جمپیر، گھارو، کیٹی بندر اور بن قاسم (برائے 50 میگا واٹ) میں لوکل سرمایہ کاری اور ترکی کی مدد شامل ہے‘ ان تمام کی صورتحال تقریباً غیریقینی ہے۔ 20میگا واٹ کے لیے مرالہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ (سیالکوٹ) بھی زیر تعمیر ہے۔ بائیو گیس کے چھوٹے چھوٹے منصوبے بھی مختلف انڈسٹریل زون میں محض اُمید کی کرن ہیں۔ داسو، الائی خوار، خان خوار، دوبر، جناح اور جیان ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کی کامیابی کی نوید سنائی جا رہی ہے۔ گومل زیم، میرانی، منگلا ریزنگ، سباکزئی اور سٹ پارا ڈیموں سے بھی توقعات ہیں بشرطیکہ حکومت چشم بینا سے کام لے مگر ماہرین کی رائے ان منصوبوں پر بھی منفی سامنے آرہی ہے۔

کوہالہ پاور پراجیکٹ کے لیے بھی صرف دل کی گہرائیوں سے دعائیں کی جارہی ہیں جب کہ  اسے دواؤں کی زیادہ ضرورت ہے۔ اسی سال حکومت نے گڈانی میں پلان کردہ 6600 میگاواٹ کے کوئلے سے چلنے والے پاور پراجیکٹس بھی ختم کیے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق6 پلانٹس انفراسٹرکچر کی عدم موجودگی کی وجہ سے ناقابل عمل ہیں۔ یہ پراجیکٹ پاک چین اکنامک کوریڈور نامی انفراسٹرکچر اور توانائی کے 45.6 ارب ڈالر کے منصوبوں کا حصہ تھے۔ چینی حکومت گڈانی پراجیکٹ میں دلچسپی نہیں رکھتی تھی بلکہ صرف بلوچستان میں گوادر پورٹ کی تعمیر و ترقی چاہتی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ پراجیکٹ فیزیبل نہیں ہوگا، لیکن اس کے باوجود وہ پاکستان کے دباؤ کے سامنے مجبور ہوگئے۔ انھیں معلوم تھا کہ یہ پراجیکٹ ٹیکنیکل ورکنگ کمیٹی سے آگے نہیں بڑھیں گے۔

اور یہی ہوا۔ فروری کے اوائل میں پنجاب میں چین کی مدد سے 6600 میگاواٹ کے کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس کا ایک اور منصوبہ بھی تعطل کا شکار ہوا۔ توانائی بحران کا قصہ یہیں ختم نہیں ہوتا، پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں زیرتعمیر 963 میگاواٹ کا نیلم جہلم ہائیڈرو الیکٹرک پاور پراجیکٹ جسے 2016 میں مکمل ہونا تھا، اب 50 ارب روپے کی کمی کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوتا نظر آتا ہے۔

گلگت بلتستان میں شروع کیے گئے ہیزل اور بتھریت پاور پراجیکٹس اور تھوئی بجلی گھر جن پر اربوں روپے لاگت آچکی ہے، بھی مقرر وقت گزرنے کے باوجود مکمل نہیں ہوسکے۔ آزاد کشمیر میں شروع کیا گیا نالہ سرگن کا منصوبہ جسے کئی سال پہلے مکمل ہونا تھا، بھی التواء کا شکار ہے۔ کالام میں 2100 میگاواٹ کے مٹلتان پاور پراجیکٹ جسکا سنگ بنیاد وزیراعلیٰ نے رکھا تھا، کو وفاق نے صوبوں کا معاملہ قرار دیکر نظرانداز کر دیا۔ اسی طرح کے پی کے کا ایک اور ہائیڈل پاور پراجیکٹ ’’ شرماہی داروڑہ‘‘ جو 2013ء میں شروع کیا گیا اور اس کے لیے 33 ارب روپے بھی وفاق سے منظور ہوئے تھے، بھی فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے بند ہو گیا۔

علاوہ ازیں جو توانائی کے منصوبے معلق اور متنازعہ یا تاخیر کا شکار ہیں، ان میں لاکھڑا پاور پراجیکٹ سرفہرست ہے، جس کی لیز کو سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیدیا ہے اور کوئلے سے چلنے والا یہ منصوبہ حکومت کی نجکاری فہرست میں آچکا ہے۔ بلوچستان میں زیرتعمیر گڈانی پاور پراجیکٹ کو بھی ترجیحی فہرست سے خارج کر دیا گیا ہے۔ کہوٹہ میں زیرتجویز کروٹ ہائیڈر وپاور پراجیکٹ کو بھی فائلوں کے جہنم میں دھکیل دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بھاشا ڈیم معطل ہوچکا ہے، تھرکول پراجیکٹ بھی ہواؤں میں اُڑ گیا۔ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ امریکی دباؤ پر ختم کر دیا گیا۔ قائداعظم سولر پارک پاکستان کی تاریخ کا انوکھا اور مہنگا ترین منصوبہ ہے۔

جس کے بارے میں بھی کہا جا رہا ہے کہ یہاں بے ضابطگیاں ہوئی ہیں۔ ساہیوال میں لگایا گیا کول پاور پراجیکٹ بھی غیر یقینی کا شکار ہے ۔یہ پنجاب کا پہلا کول فائر پاور پلانٹ ہے جو ایک ہزار ایکٹر (40 مربع) زرعی اراضی پر لگایا جارہا ہے جس کے لیے 12 سے 18 ہزار ٹن کوئلہ روزانہ کی بنیاد پر درکار ہوگا۔ اس پراجیکٹ سے ایک تو زرعی اراضی کو نقصان پہنچایا گیا، دوسرا ماحولیات کو بھی اس سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ عام طور پر ایسے بجلی گھر سمندر یا دریاؤں کے کنارے لگائے جاتے ہیں تاکہ کوئلہ جیٹی پر اُتارا جاسکے اور شہری آبادی بھی آلودگی کا شکار نہ ہو۔

اس طرح کے کول پاور پلانٹ سندھ یا بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں لگائے جاتے تو زیادہ بہتر ہوتا مگر ایسا نجانے کس کے کہنے پر نہیں کیا گیا۔ 1320 میگاواٹ کے لیے لگائے گئے اس ساہیوال ٹوئن کول پاور پراجیکٹ میں بھی بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں اور خوردبرد کی اطلاعات ہیں، بدیں وجہ نہ تو 660 میگاواٹ کے 2ساہیوال کول پاور پراجیکٹس کے پایۂ تکمیل تک پہنچنے کی آس ہے، نہ ہی بہاولپور کے شمسی توانائی کے منصوبے کی2016ء تک قابل عمل ہونے کی اُمید ہے۔ہمارے حکمران ٹھیکیداروں کو نوازنے اوراپنے مفادات کے لیے عجیب وغریب طرح کے منصوبے شروع کرتے ہیں۔

اسی طرح کا ایک مضحکہ خیز منصوبہ’’ چنیوٹ گولڈ ریزروار‘‘ کا بھی ہے۔1988ء میں نوازشریف نے بطور وزیراعلیٰ چنیوٹ میں ذخائر کے حوالے سے تحقیق کرنے کو کہا‘ اس کے بعد نوازشریف2 اور شہبازشریف 3بار وزیراعلیٰ بنے لیکن انھوں نے اس پر کام نہیں کیا، پھر پرویزالٰہی نے اپنی حکومت میں اس فائل کو نکلوایا اور 4 کروڑ روپے کی لاگت سے نمونے نکلوا کر پاکستان اسٹیل مل لیب میں بھیجے تو رپورٹ ملی کہ یہاں کا لوہا مطلوبہ معیار کے مطابق نہیں اور یہ ذخائر بیکار ہیں۔

اس رپورٹ میں سونے کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ جب جسٹس اعجاز نثار نگران وزیراعلیٰ بنے تو امریکا میں مقیم پاکستانیوں نے اس منصوبہ پر 24 کروڑ روپے لگانے کی پیشکش کی اور یہ سمری چیف منسٹر اعجاز نثار کے ہوتے ہوئے منظور ہوئی، اس کے ایک مہینے بعد شہبازشریف آ گئے جنھوں نے آتے ہی پرویزالٰہی حکومت پر الزام لگا دیا کہ انھوں نے خفیہ طریقے سے کنگ آف گولڈ بن کر چنیوٹ گولڈ مائن کاسونا لوٹا ہے حالانکہ ابھی تک کمپنی کو زمین بھی ٹرانسفر نہیں ہوئی تھی اور انھوں نے عدالت میں کیس کر دیا۔ عوام پوچھتے ہیں کہ 2008ء سے 2015ء تک 7 سال پنجاب کے حکمرانوں نے کیا کیا؟ اب تک وہ ڈیڑھ ارب روپیہ چنیوٹ میں لگا چکے ہیںاور اب یہ ثمر مبارک مند کو لے آئے ہیں جنھوں نے کہہ دیا ہے کہ سوناتو سونا یہاں تولوہا بھی نہیں ہے۔

انھوں نے پورا زور لگایا کہ جرمن ماہرین یہ کہہ دیں کہ یہاں پر سونا، تانبا اور اسٹیل کے ذخائر موجود ہیں لیکن جرمن کمپنی نے رپورٹ آنے تک انکار کر دیا، جس طرح نندی پور پاور پراجیکٹ قوم کو اربوں روپے میں پڑا ہے لیکن عوام کو ابھی تک اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا، چنیوٹ گولڈ مائن کا بھی ویسا ہی حال ہے۔ معیشت حکمرانوں کی ترجیحات میں کبھی رہی ہی نہیں۔ بیروزگاری، مہنگائی، دہشت گردی او ر عدم تحفظ کے شدید احساس کے ساتھ ساتھ بدترین معاشی اور توانائی کے اذیت ناک بحران نے عوام کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔

حالیہ برسوں میں امن و امان کی خراب صورتحال، توانائی بحران اور معاہدوں پر عملدرآمد میں کوتاہیوں نے غیرملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ غیرجانبدار مبصرین بھی معیشت کی سست رفتاری کی بڑی وجہ توانائی بحران کو قرار دیتے ہیں جب کہ  مقامی سرمایہ کار بھی بجلی اور قدرتی گیس کی فراہمی میں عدم استحکام کی وجہ سے پریشان ہیں، اس کی  واضح مثال اپٹما ہے جس نے حکومتی پالیسیوں، مہنگی ترین بجلی وگیس اور نت نئے ٹیکسوں سے تنگ آکر ٹیکسٹائل ملز بند کردی ہیں جس سے لاکھوں ورکرز بیروزگار ہو گئے ہیں۔

عالمی سطح پر برآمدات کے لیے ملوں کے پاس کچھ نہیں ہے، کیا یہ ہے حکمرانوں کا معاشی دھماکا؟ حکمرانوں کا ویژن تو یہ ہے کہ وہ مکمل طور پر قرضوں پر انحصار کیے ہوئے ہیں۔ قوم پہلے ہی قرضوں میں ناک ناک ڈوبی ہوئی ہے اور اس وقت پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر بچہ ایک لاکھ روپے سے زائد کا مقروض ہے۔ بجلی، گیس اور تیل کی غیرمتوقع قلت نے صنعتی ماحول کو اس قدر بیزارکردیا ہے کہ بڑے تو درکنار چھوٹے صنعتکار بھی بنگلہ دیش جیسے غیر اہم ملک کی طرف کوچ کر رہے ہیں۔

زرداری دور میں اس کام میں مزید تیزی آئی اور آج یہ صورتحال ہے کہ صنعتوں، فیکٹریوں اور کارخانوں کو تالے لگ چکے ہیں اور سرمایہ دار ملک سے ایسے رفوچکر ہورہے ہیں جیسے پرندے کسی جنگل یا بستی سے ناموافق ماحول اور عدم تحفظ کی بناء پر کسی اطمینان پرور علاقے کی طرف ہجرت کر جاتے ہیں۔ انرجی سیکٹر کا بحران ملکی سکیورٹی کے لیے سنگین خطرہ ہے،خصوصی طور پر ایک ایسے وقت میںجب کہ  ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ توانائی بحران نے پاکستان کو مزید عدم استحکام کے خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔

صنعتی ڈھانچہ وسیع ہونے کے بجائے سکڑ رہا ہے۔ توانائی بحران صنعت و تجارت کو تو تباہ کرہی چکا ہے، بجلی نہ ہونے سے پانی کی فراہمی کا نظام بھی بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ حکمرانوں نے لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے لیے کئی ڈیڈلائنز دیں لیکن لوڈشیڈنگ کا جن بوتل میں بند نہیں ہو سکا، وزیراعلیٰ شہباز شریف نے بھی چھ ماہ میں بجلی بحران ختم کرنے کی بات کی، پھراسکو دوسال تک بڑھا دیا جب کہ  وزیر اعظم کی جانب سے عوام کوصبر کی تلقین کی جا رہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ توانائی کی بحرانی کیفیت سے بچنے کے لیے کسی فوری جامع اور ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت تھی۔

حکومت نے ماہرین کو اسی وقت سر جوڑ کر بٹھانا چاہیے تھا تاکہ وہ توانائی کے لیے متبادل ذرائع تلاش کریں اور ایسی منصوبہ بندی تیار کریں کہ توانائی کے لیے تیل اور گیس پر انحصار کم سے کم ہوجائے۔ تھرکول اور ایٹمی بجلی گھر کے متبادل منصوبے اب تک مکمل ہو جانے چاہیے تھے، لیکن ایسا نہیں ہوا حالانکہ مایہ ناز سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ اگر حکمران انھیں فری ہینڈ دیں تو بجلی کا بحران دنوں میں حل کیا جا سکتا ہے اور آئندہ کبھی ملک میں بجلی کا بحران پیدا نہیں ہو گا لیکن حکمرانوں کی اَنا کا علاج کون کرے؟ دوسری طرف تیل اور گیس کا کوئی بڑا ذخیرہ باوجود کئی کوششوں کے، دریافت نہیں کیا جا سکا۔

زرداری حکومت نے بھی سوائے جھوٹے وعدوں اور نعروں کے کچھ نہیں کیا۔ پاکستان نے 2006 میں بجلی بحران کا حل تلاش کرنے کے زیرمقصد چین، ایران، تاجکستان اور ترکمانستان سے بعض معاہدے طے کیے تھے، جن پر کسی حکومت نے عملدرآمد نہیں کیا۔ توانائی بحران کو دُور کرنا حکمرانوں کے بس کی بات نہیں لگتی اور وہ بھی شاید پانچ سال پورے کر کے اپنی کاہلیوں اور کوتاہیوں کا ملبہ آنیوالی حکومت کی جھولی میں ڈال کر خود کو سرخرو کر لینے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔