بُک شیلف

بیرون بلوچستان کے قاری کو بلوچستان کا ادبی تناظر مہیا کرنے والی اس کتاب کے مصنف فیصل احمد ہیں:فوٹو: فائل

بیرون بلوچستان کے قاری کو بلوچستان کا ادبی تناظر مہیا کرنے والی اس کتاب کے مصنف فیصل احمد ہیں:فوٹو: فائل

میں نے اسم محمدﷺ کو لکھا بہت
(نعتوں کا مجموعہ)
شاعر: سلیم کوثر، صفحات: 136، قیمت: 300 روپے، ناشر: امیرہ پبلی کیشنز، کراچی

کوئی ہنر ہمارا نہ شہرت ہماری ہے
اس در سے جو ملی، وہی عزت ہماری ہے

زیر تبصرہ کتاب ممتاز شاعر، سلیم کوثر کی نعتوں کا مجموعہ ہے۔ اُن کا شمار عہد حاضر کے نمایاں غزل گو شعرا میں ہوتا ہے۔ وہ خطاطی کی صورت بھی رسول اللہ ﷺ سے اپنی عقیدت کا اظہار کر چکے ہیں۔ کتاب کی ابتدا میں شامل مضمون ’’مرے سارے ہجروصال ہوئے‘‘ اُسی بیش قیمت محبت کا نثری اظہار ہے۔ ساتھ ہی اس پراثر مجموعے کی اشاعت کے اسباب بیان کیے ہیں۔

مجھ کو وہ علم سکھا، جس سے اجالے پھیلیں
مجھ کو وہ اسم پڑھا، جو مجھے زندہ کر دے

نعت گوئی ایک قدیم فن۔ اس صنف میں کتنے ہی تجربات ہوچکے ہیں، تاہم جب سلیم کوثر جیسا کوئی شاعر اپنی واردات قلبی بیان کرتا ہے، تو قاری خود کو عقیدت سے سرشار پاتا ہے۔ سلیم صاحب عرصے سے بیمار تھے، اﷲاس عاشق رسولﷺ کو صحت اور زندگی دے۔

دیوار پر لکھا تھا کہیں نام محمدﷺ
اب تک ہے اجالوں کا بسیرا مرے گھر میں

گھومتا پہیہ (سفر و ادب)
مصنف: ش۔فرخ، صفحات: 267، قیمت: 495روپے، ناشر، مکتبہ دانیال، لاہور
’’گرے ہاؤنڈ بس اسٹیشن نیوورک۔

رات کے 8 بجے ہیں۔ نیویارک سے شکاگو جانے والی بس کا انتظار کرنے والوں میں میرے علاوہ وہ بڑھیا بھی ہے، جو تھوڑی دیر پہلے ایک لمبی سفید گاڑی میں آئی تھی۔ بس کے آنے میں دیر ہو رہی ہے۔‘‘

زیر تبصرہ کتاب ہے تو سفر نامہ، مگر فکشن کا عنصر اُس میں گتھا ہے، جن شہروں سے سیاح گزرا، ان کی تاریخ اور تمدن کا تذکرہ اختصار کے باوجود اس عمدگی سے کیا گیا ہے کہ مطالعے کا مزہ دو بالا ہوجاتا ہے۔ پختہ نثر، رواں زبان، متاثر کن مشاہدہ، کہیں نثری نظم میں اظہار؛ یوں یہ کتاب تشکیل پاتی ہے، جسے ’’ناول نما‘‘ بھی کہا جاسکتا ہے۔ اور ذیلی عنوان بھی تو یہی ہے: سفر و ادب!

ایسا سفرنامہ، جو ادبی چاشنی کا حامل ہو، وقت کا بہترین مصرف ہے۔ یہ کتاب ش۔ فرخ کے قلم سے نکلی ہے، جن کا شمار سنیئر قلم کاروں میں ہوتا ہے۔ ماضی میں بھی ’’زرخیز پتھر‘‘ کے عنوان سے ان کا سفرنامہ منظر عام پر آیا تھا، جس کا خاصا چرچا ہوا۔ آپ بیتی بھی شایع ہوچکی ہے۔

نشر و اشاعت کے معیار پر پوری اترنے والی اس کتاب پر کسی کی رائے درج نہیں۔ ہاں، مختصر سا فلیپ موجود ہے، جو اسے مشاہدے اور تحقیق کا امتزاج، سفر اور کہانی کا کولاژ قرار دیتا ہے۔ ’’کولاژ‘‘، ہاں اس کتاب کو بیان کرنے کے لیے یہی لفظ مناسب ہے۔

کہانی کے قاری کو اپنی اور کھینچتی اس کتاب کے ایک ٹکڑے کے ساتھ یہ اطلاعاتی تبصرہ تمام کرتے ہیں:

’’کیفے میں ایک لڑکی داخل ہوئی اور کھڑکی کے قریب بیٹھ گئی۔ وہ بہت خوب صورت تھی، جیسے ٹکسال سے نکلا ہوا نیا سکہ۔ اس کا چہرہ اسی طرح ترو تازہ تھا۔ اس کے بال کوے کے پروں جیسے سیاہ تھے، اور اس کے رخسار پر ترچھے گرے ہوئے تھے۔ میں نے اس کی طرف دیکھا، تو بہت مضطرب ہوگیا تھا۔ اس نے مجھے مشتعل کر دیا تھا۔ کاش میں اسے اپنی کہانی میں شامل کرسکتا۔۔۔‘‘
لیاری کی ادھوری کہانی (یادداشتیں)
مصنف: رمضان بلوچ، صفحات: 209، قیمت: درج نہیں، ناشر: ARM Child and Youth Welfare

آرٹ پیپر پر، خوب صورت سرورق، نفیس جلد اور پرانی تصاویر کے ساتھ شایع ہونے والی یہ کتاب رمضان بلوچ کے قلم سے نکلی ہے، جن کا شمار لیاری کے دانش وَر طبقے میں ہوتا ہے۔ مختلف سرکاری اداروں میں فرائض انجام دینے والے یہ صاحب اس علاقے کی تاریخ اور مسائل پر تواتر سے لکھتے رہے ہیں۔ آج کل ’’صدائے لیاری‘‘ نامی پرچے کے چیف ایڈیٹر ہیں۔ یہ کتاب اسی رسالے میں ’’ماضی کے لیاری کے شب و روز‘‘ کے زیرعنوان، قسط وار شایع ہونے والے مضامین کا مجموعہ ہے۔

کتاب کا آغاز 4 اگست 1944 سے ہوتا ہے، جب مصنف کی پیدایش ہوئی۔ آگے ’’مارشل لا کے خوف سے بے نیاز‘‘، ’’بس ڈرائیور بننے کی خواہش‘‘ اور ’’من بھر کا سر اور چھٹانک بھر کی زبان‘‘ جیسے دل چسپ عنوانات ملتے ہیں۔ پرانوں محلے کی تصاویر، صاف ستھری زبان میں ان کا بیان، مزے دار یادیں، دل چسپ لوگ؛ یہ عوامل کتاب پڑھنے پر اکساتے ہیں۔ ماضی ویسے بھی انسان کو حسین لگتا ہے، اور کراچی کے معاملے میں حال، کچھ بدحال ہے، سو بیتے ہوئے دنوں کا تذکرہ ہی بہتر۔

مصنف اپنے پیش لفظ میں لکھتے ہیں: ’’ماضی میں میرے اور لیاری کے وہ پرسکون اور آسودہ حالات، ناقابل فراموش۔۔۔ اور ذہنوں میں ابھی تک نقش ہیں۔ ان تمام یادوں کو سمیٹ کر تحریری شکل دینے کی ایک کوشش ہے۔‘‘ یہ کوشش کام یاب ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس زرخیز علاقے سے متعلق مزید لکھا جائے۔

نزول (ادبی جریدہ)
مدیر: سید اذلان شاہ، صفحات: 352، قیمت: 500 روپے، ملنے کا پتا: پی او بکس 18 جی پی او، گوجرہ، ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ

یہ نزول کا نواں شمارہ ہے، جس میں معروف فکشن نگار اور نقاد، محمد حمید شاہد کا گوشہ شایع کیا گیا ہے۔ اس سلسلے کے تحت گذشتہ بار نزول نے ظفر اقبال کا گوشہ شایع کیا تھا۔ ہاکی کے لیے مشہور گوجرہ سے نکلنے والے اس جریدے کا یہ اقدام قابل تعریف ہے۔

اس سلسلے کا پس منظر پرچے کے مدیر ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: ’’ہم اکثر رونا روتے ہیں کہ فلاں ادیب کو فلاں دور میں نظر انداز کیا گیا۔ اسے جائز مقام نہیں ملا۔ تو پھر یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔ آئیے، اس دور کے ادیبوں شاعروں کو ان کا جائز مقام دے کر گزرے وقتوں کی غطلیوں کا ازالہ کیجیے۔ انصاف کیجیے، اور انصاف کی امید رکھیے، رواج دیجیے محبتوں کو۔ سوچیے دوسروں کا بھلا۔ اور مانگیے خیر کی دعا۔‘‘

سید اذالان شاہ کی سوچ مثبت اور رویہ صحت مندانہ ہے۔ امید ہے، نزول کی اشاعت کا عمل جاری رہے گا، جس میں ایک معیاری پرچے کی تمام خصوصیات موجود ہیں۔ شعری اور نثری حصہ متوازن ہے۔ معروف، غیرمعروف ناموں کا اچھا امتزاج ہے۔ البتہ اصل حوالہ محمد حمید شاہد کا گوشہ ہی ہے۔ ان کی تخلیقات کے ساتھ سینئر قلم کاروں کی آرا اور مضامین بھی موجود۔ اِس صاحب اسلوب قلم کار کو سمجھنے میں یہ پرچا معاون ہوسکتا ہے۔

دیوان غالب
مرتبہ: مالک رام، صفحات: 216، قیمت، 300 روپے، ناشر: فرید پبلشرز، کراچی
دیوان غالب کی صحت کا انحصار ان صاحبان پر رہا، جنھوں نے اسے مرتب کیا۔ مالک رام کے مرتب کردہ دیوان کا شمار مستند نسخوں میں ہوتا ہے۔ شاید اسی اہمیت کے پیش نظر فرید پبلشر نے اسے دوبارہ شایع کیا ہے۔ دیوان غالب سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتب میں سے ایک، اس لحاظ سے کھرا سودا۔ غالباً اغلاط سے بچنے کے لیے مالک رام کے پرانے نسخہ کو کمپوزنگ کے مراحل سے نہیں گزارا گیا۔

ژند (غزلیات)
شاعر: اذلان شاہ، صفحات: 144، قیمت: 300، ناشر: نزول، گوجرہ

قیس تیار تھا خیرات میں دینے کو مجھے
دشت لیکن مرے کاسے میں نہیں آتا تھا

یہ کتاب صحافت کو ترک کر خود کو ادب کے وقف کرنے والے، گوجرہ کے اذلان شاہ کا شعری مجموعہ ہے، جو 133 غزلوں پر مشتمل ہے۔ شاعری پر جامع تنقید تو ناقدین کا کام، ان صفحات پر اطلاعاتی جائزے ہی کا امکان ہے۔ مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ بامعنی شاعری ہے۔ اچھی ردیف، شستہ زبان، خیالات میں نیا پن۔ شاعری میں روانی بھی اور ابلاغ بھی۔

دیکھ لو آہی گئی ہم کو بھی دنیا داری
پھول ہی پھول در یار پہ رکھ آیا ہوں

غالباً یہ ان کا پہلا مجموعہ ہے، جسے مثبت کوشش قرار دیا جاسکتا ہے۔ امید ہے، بے قیمتی کے اِن زمانوں سے شکست کھانے کے بجائے وہ جرات کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھیں گے۔

اسلام ریاست اور معاشرہ (کالمز)
کالم نگار: عاکف غنی، صفحات: 143، قیمت 120 روپے، ناشر: فیکٹ پبلی کیشنز، لاہور

سرورق اس کتاب کو تیز اور نوکیلے کالموں کا مجموعہ قرار دیتا ہے۔ یہ دیارغیر میں مقیم عاکف غنی کے قلم سے نکلے ہیں، جو اپنے ملک سے دُور ہونے کے باوجود یہاں کے حالات سے باخبر رہے، اپنے خیالات کو کالموں میں سموتے رہے، جو مختلف ویب سائٹس، اخبارات و جراید میں شایع ہوئے، اور پھر کتابی صورت میں منظر عام پر آئے۔ بہ قول کالم نویس، 43 کالموں پر مشتمل اس کتاب میں انھوں نے پاکستان، یہاں کی سیاست، معاشرے اور حکم راں طبقے کی پالیسیوں کے تضادات اور امت مسلمہ کے مسائل پر لگی لپٹی رکھے بغیر، متعلقہ موضوع پر حق اور سچ تحریر کیا ہے۔ ان کے نقطۂ نظر سے اختلاف تو کیا جاسکتا ہے، مگر یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ یہ ایک درد دل رکھنے والے شخص کی سنجیدہ کاوش ہے۔

سرمئی دستخط
شاعر: خالد ملک ساحل، صفحات: 128، قیمت: 300 روپے، ناشر: ملٹی میڈیا افئیرز، لاہور

سرمئی دستخط خالد ملک ساحل کا پہلا شعری مجموعہ ہے، لیکن یہ مجموعہ بھی ایک طویل شعری ریاضت کے بعد سامنے آیا ہے۔ ان کے بارے میں جمیل الرحمٰن لکھتے ہیں کہ سرمئی دست خط قاری کے لیے ایک حیرت آمیز خوش گوار شعری تجربہ ثابت ہوتا ہے۔ وہ جتنا سادہ اور ہمیشہ مسکراتے رہنے والا سماجی انسان ہے، اپنی شاعری کے تناظر میں اتنے ہی پیچیدہ باطنی عوامل کا حامل اور کھردرے و بے نیاز لہجے کا خوش فکر شاعر ہے اور ان تینوں عناصر نے ان کی شاعری کو وہ جاذبیت بخشی ہے، جو انھیں ایک منفرد لہجے کا شاعر ثابت کرتی ہے۔

یہ شاعری قاری سے توجہ اور ارتکاز چاہتی ہے۔ وہ عصری حسیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے مضامین کے نئے پہلو تراش کر لاتے ہیں تو ان کا شعری لب و لہجہ ایک الگ تاثر چھوڑتا جاتا ہے۔ اس شعری مجموعے میں قاری کے ذوق کی تسکین کے لیے ایسے بہت سے اشعار تابدار بکھرے پڑے ہیں جو پڑھے جانے کے بعد یاد رکھے جانے کے لائق ہیں۔ وارث میر کی کہانی

مرتب: عامر میر
ناشر: ساگر پبلیشرز، الحمد مارکیٹ، 40اردو بازار، لاہور
قیمت: 1200سو روپے

پروفیسر وارث میر پاکستانی صحافت کا ایک اہم کردار ہیں۔ وہ ایک دانشور صحافی تھے۔ پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ صحافت کے استاد اور صدارت کی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ وہ اخباری مضامین کی صورت میں ملک کے سیاسی حالات کا تجزیہ بھی کرتے رہے۔ ضیاء الحق کے آمرانہ عہد میں ان کی جرأت مندانہ تحریروں نے کافی ہلچل مچائی۔ وارث میر نے 25برس صحافت پڑھائی اور محض 48برس کی عمر میں جولائی 1987ء میں اس جہانِ فانی سے گزر گئے۔ زیرنظر کتاب ان کے صحافی فرزند عامرمیر نے مرتب کی ہے۔

اس سے قبل ’’وارث میر کا فکری اثاثہ ‘‘ نامی مبسوط کتاب شائع ہوئی جس میں مرحوم کی تمام دست یاب تحریروں کو محفوظ کیا گیا۔ یہ کتاب مختلف مکاتب فکر سے وابستہ افراد کے وارث میر کی حیات و خدمات پر مبنی 51مضامین پر مشتمل ہے۔ منو بھائی، عطاء الحق قاسمی، مجیب الرحمان شامی، راجہ انور نے مرحوم سے وابستہ یادوں اور ملاقاتوں کو خوبی سے رقم کیا ہے۔ حیدر فاروق مودودی نے مرحوم کے چند اہم خطوط جب کہ صحافی مقصود بٹ نے دل چسپ اقتباسات ذکر کیے ہیں۔ قاضی جاوید نے بھی ان کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کا خوب صورتی سے ذکر کیا ہے۔ خواتین میں عاصمہ جہانگیر، بشریٰ رحمنٰ کے علاوہ شازیہ ظفر کا فکر انگیز مضمون بھی شامل ہے۔

عباس اطہر مرحوم نے بھی اپنی تحریر میں مرحوم کی حیات وخدمات اور چند تلخ واقعات کا ذکر کیا ہے۔ کتاب کے آخر میں وارث میر کے تین مضامین ’’میں نے پاکستان دولخت ہوتے دیکھا‘‘،’’کیا ترقی پسندانہ فکر سیم وتھور ہے؟‘‘ اور ’’ایک خواب جو حقیقت بن گیا‘‘ شامل کیے گئے ہیں۔

یہ کتاب بجا طور پر مرحوم وارث میر کی زندگی کے کئی پوشیدہ گوشوں کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ اس عہد کی طلبا ء سیاست کے رجحانات اور میلانات کو سمجھنے میں بھی معاون ثابت ہو گی۔ کتاب میں وارث میر کی یادگار تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں۔ مختصر یہ کہ ’’وارث میر کی کہانی‘‘ کارزار صحافت میں سرگرم افراد کو دیانت، صداقت اور اصولوں کی خاطر کسی بھی حد سے گزر جانے کا درس دیتی ہے ۔279صفحات کی یہ کتاب ساگر پبلشرز لاہور نے خوب صورت سرورق ا ور عمدہ کاغذ کے ساتھ شائع کی ہے۔ البتہ ہمارے باذوق قاری کی قوت خرید کتاب پر درج قیمت سے بہت کم ہے۔

’’تعارف‘‘

ڈاکٹر محمد حمید اللہ (عالم اسلام کے نام ور سپوت)


اس کتاب کے مؤلف معروف معلم و محقق، پروفیسر خواجہ قطب الدین ہیں۔ ممتاز اسکالر، ڈاکٹر حمید اللہ اِس کتاب کا موضوع۔ یہ ڈاکٹر صاحب پر ایک جامع کتاب ہے۔ 348 صفحات پر مشتمل کتاب کی قیمت 400 روپے ہے۔ اسے فرید پبلشر نے شایع کیا ہے۔ چھپائی کے معیار میں بہتری کا امکان ہے۔

ابراہیم جلیس: فن و شخصیت


پروفیسر مہ جبیں شہریار، طیبہ جلیس اور شاہ نواز جلیس کی مرتب کردہ یہ کتاب ممتاز ادیب، صحافی اور مزاح نگار، ابراہیم جلیس کی زندگی کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالتی ہے۔ ان کے ہم عصروں کے مضامین اور آرا سے سجی یہ کتاب ان کی بابت خاصا مواد فراہم کرتی ہے۔ زین پبلی کیشنز، کراچی سے چھپی اس کتاب کے صفحات 224 اور قیمت 200 روپے ہے۔

ڈاکٹر جمال نقوی کی ادبی خدمات
(ترقی پسند تحریک کے تناظر میں)


یہ جی سی یونیورسٹی، فیصل آباد کے شعبۂ اردو میں ماسٹرز کے لیے صائمہ یعقوب کا مقالہ ہے، جس کا موضوع معروف ترقی پسند ادیب اور شاعر، ڈاکٹر جمال نقوی ہیں۔ یہ چار ابواب پر مشتمل ہے، جس میں ان کی زندگی کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ 112 صفحات کی اس کتاب کو ادارہ تزئین دانش، کراچی نے شایع کیا ہے۔ قیمت 300 روپے ہے۔

قلم قبیلہ (ادبی جریدہ)

یہ کوئٹہ سے نکلنے والے ادبی جریدے کی 22 ویں جلد ہے۔ سرپرست اعلیٰ، بیگم ثاقبہ رحیم الدین، سرپرست، سرور جاوید، مدیر، ڈاکٹر فردوس انور قاضی۔ عمدہ کاغذ پر شایع ہونے والے اس پرچے کا متن معیاری اور قابل مطالعہ ہے۔ قلم قبیلہ ادبی ٹرسٹ کے تحت نکلنے والے پرچے کی قیمت 300 روپے، صفحات 186 ہیں۔

بلوچستان کا ادبی تناظر (مقالات)


بیرون بلوچستان کے قاری کو بلوچستان کا ادبی تناظر مہیا کرنے والی اس کتاب کے مصنف فیصل احمد ہیں، جن کی کاوش کو اپنے پیش لفظ میں عابد میر نے بھرپور اور پرمغز ٹھہراتے ہوئے ان کے عاجزانہ اسلوب کو سراہا ہے کہ وہ فتوے بازی نہیں کرتے، قاری پر اپنے علم کی دھاک نہیں بٹھاتے۔ دس مضامین پر مشتمل اس کتاب میں بلوچستان میں تخلیق ہونے والے ادب کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ مصنف نے امید ظاہر کی ہے کہ بلوچستانی ادب کے طلبا و محققین کے لیے کارآمد ثابت ہوگی۔ مہردر، کوئٹہ سے شایع ہونے والی کتاب کے صفحات 144 اور قیمت 300 روپے ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔