آرٹ اور اقبال

عمر قاضی  پير 13 جولائی 2015
umerkazi555@yahoo.com

[email protected]

میں ایک ہوٹل میں تھا۔ اس کی دیواروں کو صادقین کے برش اور اقبال کے قلم سے سجایا گیا تھا۔

ان تصاویر کو دیکھتے ہوئے یادوں کی فائل کھلتی گئی اور میں سوچتا رہا کہ ہم نے وقت کے ساتھ پایا بہت کم اور کھویا بہت زیادہ ہے۔ کیا یہ المیہ نہیں کہ ہم نے صادقین جیسے مصور کو کھو دیا۔ تصویر تو سب بناتے ہیں مگر ہر تصویر میں تصور نہیں ہوتا۔ صادقین کے رنگوں میں ایک روح ہوا کرتی تھی۔ وہ جو تصویر بناتا تھا اس کے رنگ باتیں کرتے تھے اور ان باتوں سے خوشبو آتی تھی۔ درد کو پھولوں کی مانند مہکانے کا فن ہر فنکار میں کہاں ہوتا ہے؟ یہ صادقین ہی تھا جس نے درد کو خوشبو عطا کی اور خوشبو کو رنگوں میں قید کیا۔ ورنہ خوشبو تو مٹھی میں بھی قید نہیں ہوسکتی۔ یہ صادقین کا کمال تھا۔ وہ جانتا تھا کہ تصور کو تصویر کا روپ کیسے دیا جائے؟

آرٹ کی دنیا آج کل کٹ پیسٹ کی دنیا بن گئی ہے۔ اب آرٹسٹ نہیں رہے تو لوگ ’’سیلفی‘‘ کے دیوانے بن گئے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو ہر منظر پر مسلط کرتے ہیں۔ ابھی چند دن ہوئے سوشل میڈیا پر ایک ماڈرن سنگر کی سیلفی بحث کا موضوع بن گئی۔ اس سیلفی میں وہ سنگر مسرت کے ساتھ مسکرا رہی ہے اور اس کے قریب کراچی کا مسیحا عبدالستار ایدھی شدید علالت میں غم کی تصویر بنا ہوا ہے۔ ہم اپنی شہرت کی خاطر اپنے محسنوں کو معاف نہیں کرتے۔ ہمیں جہاں بھی کوئی مشہور منظر نظر آتا ہے اس کے ساتھ اپنے آپ کو پیسٹ کردیتے ہیں۔ پھر اس منظر میں بھلے جتنا بھی غم ہو، ہم اس غم سے لاتعلق ہوکر صرف اپنی مسرت کو محفوظ کرنے لگتے ہیں۔ اس قسم کا رویہ معاشرے میں بے حسی کو ظاہر کرتا ہے۔ ہم احساس سے کٹ چکے ہیں اور بے حسی میں پیسٹ ہونے کا ہنر سیکھ چکے ہیں۔

ہم میں یہ احساس کبھی نہ مرتا اگر ہم اس آرٹ سے نہ کٹتے جس آرٹ کی ایک خوبصورت اور بہت بڑی جھلک صادقین کے برش میں ہوا کرتی تھی۔ صادقین کس طرح سوچتا تھا؟ وہ ایک تصور کو کس طرح تصویر میں ڈھالتا تھا؟ وہ رنگوں میں کس طرح روح بیدار کرتا تھا؟ اس کے فن پر ہمارے اہل قلم حضرات کو سوچنے کی فرصت تک نہیں۔ کیوں کہ ملک میں سیاست کا سفر تیز ہوگیا ہے۔ عمران خان کی پریس کانفرنس! وزیر اعظم کا اعلان! زرداری کا شکوہ! الطاف حسین کا احتجاج!! ہمارے لکھنے والوں کے قلم صرف اقتداری سومنات میں ان بے حس بتوں کی پوجا میں مصروف ہیں۔ اس لیے کون یاد کرتا ہے صادقین جیسے اس آرٹسٹ کو جو فن کی تاریخ کا ایک عالم تھا مگر اس نے مائیکل اینجلو سے لے کر وان گوگ تک کسی عظیم آرٹسٹ کے انداز فن کو اظہار کا ذریعہ بنانے کے بجائے آرٹ کی بہت بڑی دنیا میں اپنا راستہ خود تراشا۔ وہ لکیر صادقین کی شناخت بن گئی۔ وہ انداز تحریر اور وہ کیلی گرافی صرف اس کا پتہ دیتی ہے جو اس نے آرٹ کے آفاقی تصور میں مقامی خیالات کی آمیزش سے پیدا کی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ صادقین نے جو تصویر بنائی وہ آرٹ کا ایک شاہکار بن گئی اور اس نے نہ صرف مقدس آیات کی خوبصورت خطاطی کی بلکہ اس نے غالب اور فیض احمد فیض کے اشعار کو بھی رنگوں کا روپ دیا مگر کلام اقبال کو اس نے جس انداز سے پینٹ کیا ہے اسے دیکھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ صادقین کو اقبال سے خاص رغبت تھی۔ صادقین نے اقبال کے الفاظ کو نہیں بلکہ ان الفاظ کے پیچھے موجود تصورات کو دکھانے کی کوشش کی ہے۔ صادقین کو اقبال کے کلام کی گہرائی میں اترنے کا فن آتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس سمندر کی گہرائی میں کس طرح غوطہ زن ہونا ہے؟ اس لیے وہ جب بھی اوپر آتا تب اقبال کا تصور ایک حسین تصویر کے روپ میں ظاہر ہوجاتا۔ یہ صادقین کے فن کا نہیں بلکہ اس کے من کا کمال ہے جس نے اقبال جیسے مفکر شاعر کو رنگوں میں سجانے کا انداز پالیا۔ اگر صادقین کے پاس صرف فن ہوتا تو اقبال کو اس طرح پیش نہ کرپاتا۔

فن کے ساتھ ساتھ اس کے پاس ایک ایسا من بھی تھا جس میں اقبال سما چکا تھا۔ اس لیے صادقین کے لیے اقبال کو پینٹ کرنا مشکل نہ تھا۔ صادقین کی اس بات سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس نے کلام اقبال کے حوالے سے جو بھی تصویر بنائی اس سے کہیں نہیں لگتا کہ وہ تصویر فرمائش پر بنی ہوئی ہے۔ ہر تصویر کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ اس نے یہ تصویر اپنے دل کے کہنے پر پینٹ کی ہے۔ اس طرح صادقین اور اقبال میں ایک ایسا رشتہ ہے جو دل کا دل کے ساتھ ہوا کرتا ہے۔ یہ محبت کی معراج ہے۔ جب کوئی آرٹسٹ اس بلندی کو پا لیتا ہے تب اس کے لیے تصویر بنانے کا عمل بہت آسان ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ محبت کی اس کیفیت میں آرٹسٹ تصویر بناتا نہیں بلکہ وہ صرف ہاتھ ہلاتا ہے اور تصویر خودبخود بنتی جاتی ہے۔ کیوں کہ اس تصویر کا خاکہ تو آرٹسٹ کے دل میں موجود ہوا کرتا ہے۔ وہ صرف اپنے کینوس کو اپنے دل کا آئینہ بناتا ہے۔ وہ محبت کی حاصلات ہوا کرتی ہے۔ یہ عشق کا وہ مقام ہے جس پر انسان جب پہنچ جاتا ہے تب وہ اس چیز کو پالیتا ہے جو چیز اس کے دل میں سفر کا جنون پیدا کرتی تھی۔

اور صرف صادقین ہی کیوں؟ کیا روح اقبال میں یہ تمنا نہ ہوگی کہ اس کے الفاظ کو کوئی رنگوں کا روپ دے! اس حوالے سے مجھے یہ خیال بھی آیا کہ بذات خود صادقین علامہ اقبال کی تمنا کی تخلیق تھا۔ کیوں کہ علامہ اقبال نے بھی تو چاہا ہے کہ اس کا کلام ہر رنگ اور روپ میں لوگوں کے دلوں تک پہنچے۔ وہ روشنی جو بانگ درا اور بال جبریل میں ہے وہ اگر انسانوں کی آنکھوں میں منتقل ہوجائے تو ایک انقلاب آجائے۔ اس انقلاب کی تمنا اقبال نے کیسے نہیں کی ہوگی جس اقبال نے لکھا تھا کہ:

لاؤں وہ تنکے کہاں سے آشیانے کے لیے
بجلیاں بے تاب ہوں جن کو جلانے کے لیے

وہ تنکے جن کی اقبال کو تلاش تھی ان تنکوں میں ایک تنکہ صادقین کا برش بھی تھا۔

اس لیے صادقین کے برش سے وجود میں آنے والے تصورات اقبال کو دیکھتے ہوئے یہ احساس ہو رہا تھا کہ ہر تصویر میں وہ خوبی کہاں کہ وہ تصویر ایک کھڑکی بن جائے اور انسان اس کھڑکی سے تصور کی دنیا میں داخل ہوجائے اور اس حقیقت کو دیکھ پائے جس حقیقت کے حوالے سے ایک مفکر نے منتشر خیالات کو موسیقی کے معرفت منظم کیا تھا۔ اس لیے میں نے ابتدا ہی اس بات سے کی تھی کہ اہم چیز تصویر نہیں بلکہ اہم ہے تصور! کیوں جس تصویر میں تصور نہیں وہ تصویر ہی نہیں اور جو تصور تصویر نہ بن پائے وہ تصور ہی نہیں! اس حوالے سے جب صادقین کا برش اور اقبال کا قلم ملتے ہیں تو ان کا یہ سنگم ایسا ہوتا ہے جیسے فن اور فکر آپس میں مل کر ایک ہوجائیں۔

مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اس دور میں ہم نے فن کو بھی کھو دیا ہے اور فکر کو بھی۔ اب فن صرف سیلفی بن گیا ہے اور فکر اپنی ذات تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ اس دور میں کون یاد کرتا ہے صادقین کے فن اور اقبال کی فکر کو! مگر ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ ان دونوں کو کھوکر ہم بھلے جدید سائنس کے کھلونوں سے اپنا جی بہلائیں مگر ہم کبھی بھی نہ پا سکیں گے اس منزل کو جس کا مسافر فن اور فکر کے معرفت سفر بھی کرتا ہے اور اس منزل کا سراغ بھی پاتا ہے جو منزل ہم سے ہر آنے والا پل دور کرنے لگا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔