راجہ پرویز اشرف کی کامیابی کا راز

نصرت جاوید  منگل 16 اکتوبر 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

نام کیا لینا،آپ مجھ سے کہیں زیادہ سمجھ دار ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اپنے ذہن پر تھوڑا سا زور ڈال کر جان لیں گے کہ میرا اشارہ کس طرف ہے۔

فی الحال ’’بریکنگ نیوز‘‘ یہ ہے کہ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف صاحب نے بڑی تگ و دو کے بعد بالآخر ایک ایسے مبصر اور لکھاری سے ملاقات کی سعادت حاصل کر لی ہے جو گزشتہ چند مہینوں سے دھانسو خبریں دینے پر زیادہ توجہ نہیں دے رہے۔ ان کی دل میں سلگتی ایمان کی حرارت اب بھڑکتا شعلہ بن چکی ہے۔ انھوں نے تہیہ کر رکھا ہے کہ اس ملک کے اخباروں اور ٹیلی ویژن اسکرینوں کو عریانی اور فحاشی سے پاک کر دیں گے۔ ساتھ ہی ساتھ اس بات کا عزم بھی کہ آئین میں موجود شقوں کو بھرپور طریقے سے بروئے کار لاتے ہوئے پاکستان کے منتخب ایوانوں میں ’’خائن اور بددیانت‘‘ سیاستدانوں کے در آنے کے امکانات کا خاتمہ کر دیا جائے۔

میری اطلاع کے مطابق پارسائی کے اس پیامبر سے ملاقات کے دوران راجہ پرویز اشرف کی آنکھیں بھر آئیں اور آواز روہانسی ہو گئی۔ انھوں نے وعدہ کر لیا کہ ان کی جماعت قومی اسمبلی سے عریانی اور فحاشی کے خلاف متفقہ قرار داد پاس کرانے پر اکتفا ہی نہیں کرے گی، ٹھوس قانون سازی کے ذریعے اس امر کا اہتمام بھی کیا جائے گا کہ عریانی پر نگہبانی کا ایک موثر نظام قائم ہو۔ اسلام اور نظریہ پاکستان کے سچے پیروکار اس نظام کا حصہ بنیں اور ہماری اسلامی، مشرقی اور خاندانی روایات کی روشنی میں ٹی وی اسکرینوں پر چلائے جانے والے اشتہارات اور پروگراموں پر کڑی نگاہ رکھیں۔

قومی اسمبلی سے211 ووٹ لے کر وزیر اعظم منتخب ہونے سے پہلے گوجر خان کے راجہ پرویز اشرف صاحب پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل ہوا کرتے تھے۔ مگر یہ وہ پارٹی نہیں تھی جسے ذوالفقار علی بھٹو نے بنایا اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے سنبھالا تھا۔ جنرل مشرف کے دِنوں میں یہ خدشات پیدا ہوئے کہ اس جماعت کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نا اہل بنایا جا سکتا ہے۔ اسی لیے بھٹو کی بنائی جماعت کے ساتھ پارلیمنٹرین کا لاحقہ لگایا گیا اور مخدوم امین فہیم کو اس کا سربراہ بنا دیا گیا۔ 2002ء کے انتخابات میں تیر کے نشان کے ساتھ اسی جماعت کے لوگوں نے حصہ لیا۔

ہمارے ہاں کے ترقی پسند اور لبرل لوگوں کی اکثریت اس گمان میں مبتلا رہتی ہے کہ تیر کے نشان پر انتخاب لڑنے والے سیاستدان ان جیسے ہوا کرتے ہیں۔ مگر 1975ء سے یہ لوگ مسلسل اصرار کرتے آرہے ہیں کہ وہ اچھے اور کھرے مسلمان ہیں۔ ان کی صفوں میں کبھی مولانا کوثر نیازی جیسے شارع اسلام بھی نمایاں ہوا کرتے تھے۔ ان کی موت سے پیدا ہونے والے خلاء کو بڑی محنت کے ساتھ ڈاکٹر ظہیر بابر اعوان صاحب نے پُر کیا۔ اعوان صاحب بڑے پائے کے وکیل ہیں۔ چند مہینے پہلے تک صدر پاکستان کی ناک کا بال تھے۔ بڑے بڑے قد آور وزراء تو رہے ایک طرف وزیر اعظم گیلانی کو بھی منہ نہیں لگاتے تھے۔ اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود وہ مسلسل ٹی وی پروگراموں کے ذریعے ہمارے بھٹکی ہوئی قوم کو راہِ راست پر رکھنے کی لگن میں مصروف رہتے ہیں۔

پنجاب کے لوگوں کو شاید اتنا علم نہیں ہے۔ مگر تیر کے نشان پر گھوٹکی سے پیر عبدالحق میاں مٹھا دوسری بار قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے ہیں۔ مولانا عبید اﷲ سندھی نے ان کے بزرگوں کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا۔ وہ بزرگ ایک درخت کے نیچے بوریا بچھائے یاد الٰہی میں مشغول رہا کرتے تھے۔ لوگ اپنی مشکلات لے کر ان کے ہاں حاضر ہوتے تو وہ بوریے کا ایک کونا اُٹھا کر اپنی چٹکی میں خاک بھر کر فریادی کے منہ میں ڈال دیتے۔ فریادی کے دل کو فوری قرار مل جاتا۔ اسی لیے تو ان کے سجادہ نشینوں کو ’’پیر بھرچونڈی شریف‘‘ کہا جاتا ہے۔

آج کل پیر میاں مٹھا کے روبرو ہر جمعۃ المبارک کو سندھ میں مقیم ہندوئوں کی ایک بڑی تعداد بسوں میں لاد کر لائی جاتی ہے اور وہ اسلام قبول کر لیتے ہیں۔ چند ماہ پہلے رینکل کماری نام کی ایک ہندو لڑکی نے بھی ایسا ہی کیا۔ مگر’’غیر ملکی امداد سے چلنے والی غیر سرکاری تنظیموں‘‘ میں موجود عورتوں کے حقوق کے نام پر دکانیں چمکانے والے چراغ پا ہو گئے۔ غیروں کی بات تو رہی ایک طرف، پیر مٹھا کے سندھ سے قومی اسمبلی میں ان کے ساتھ بیٹھنے والی کچھ خواتین اراکین نے بھی بڑا واویلا مچایا۔ رینکل کماری کے واقعہ پر صدر زرداری کی عام طور پر خاموش اور مسکین صفت بہن ڈاکٹر عذرا نے بھی ایک پرسوز تقریر کر ڈالی۔ مگر بالآخر پیر عبدالحق مٹھا ہی کامیاب و کامران ٹھہرے۔

پتہ نہیں کیوں مجھے شک پڑ رہا ہے کہ وزیر قانون فاروق نائیک کی دانش اور معاملہ فہمی سے کہیں زیادہ راجہ پرویز اشرف کی سپریم کورٹ کے ہاتھوں بچت کا اصل بندوبست وزیر ا عظم کے اس عہد نے کیا کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اخباروں اور ٹیلی وژن اسکرینوں کو عریانی اور فحاشی سے پاک کر دیں گے۔ اﷲ کرے ان کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو والی کہانی نہ دہرائی جائے۔ انھوں نے بھی ’’90 سالہ مسئلہ‘‘ حل کر دیا تھا اور پاکستان کو عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت بنانے کی ٹھانی۔ جمعہ کو سرکاری چھٹی کا اعلان کیا۔ شراب اور جوئے پر پابندی لگائی۔ یہ سب کرنے سے پہلے جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی سے ملاقات کا شرف بھی حاصل کیا۔ مگر تارا مسیح کے ہاتھوں پھانسی پھر بھی ان کا مقدر بنی۔ شاید پارلیمنٹرین کے لاحقے کے سبب راجہ پرویز اشرف کے نصیب میں بہتری آ گئی ہو۔

وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کی جانب سے سماج سدھار اور قوم کو پارسا بنانے کے عزم کے اظہار کے بعد مجھے ان خواتین و حضرات پر بڑا رحم آ رہا ہے جو ان کی حکومت پر مسلسل دبائو ڈال رہے ہیں کہ ملالہ پر حملہ کرنے والوں کو گرفتار کر کے عبرتناک سزائیں دی جائیں۔ نہ صرف یہ بلکہ ان حملہ آوروں کے حقیقی سرپرستوں کے ساتھ بھی مارو یا مرجائو والا قطعی معرکہ برپا کیا جائے۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ایسے مطالبات کرنے والے خواتین و حضرات کو انٹرنیٹ استعمال کرنے والے انقلابی چن چن کر بے نقاب کر رہے ہیں۔ میں گنہگار بھی بے قصور رگڑا جا رہا ہوں۔

اگرچہ ملالہ پر کالم لکھنے کے بجائے میں نے اپنی توجہ فاروق نائیک صاحب کی معاملہ فہمی اور راجہ پرویز اشرف کی بچت تک محدود رکھی تھی۔ چند تصاویر کو اِدھر اُدھر سے جمع کرنے کے بعد انھیں میرے ’’سِفلانہ طرز حیات‘‘ کو بے نقاب کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ میں تو کسی طرح گزارہ کر لوں گا مگر ملالہ کے دل و جان سے حامی اب اپنی ذات اور ناموس کے تحفظ کے بحران میں مبتلا ہو جائیں گے۔ ان کی خاموشی پاکستانیوں کو یکسوئی کے ساتھ یہ سمجھ لینے پر مجبور کر دے گی کہ امریکا جب تک افغانستان سے نہیں بھاگتا اور ڈرون حملے نہیں روکتا ملالہ جیسی علامتیں عبرت کا نشان بنتی رہیں گی۔

سرد جنگ کے دنوں میں امریکی سینیٹر میکارتھی کے حامیوں نے کچھ ایسی فضاء بنا کر ہی اپنی قوم کو سوویت یونین کے خاتمے کے لیے تیار کیا تھا۔ میکارتھی کے ایجاد کردہ حربے اب امریکی استعمار کے اصل دشمنوں کے کام آ رہے ہیں۔ وہ تصویر بھی ڈھونڈ کر پھیلا دی گئی جس میں رچرڈ ہالبروک ملالہ اور اس کے والد سے ملاقات کرتے دکھائے گئے ہیں۔ اس تصویر کی دیوانہ وار اشاعت کے ذریعے ثابت یہ کیا جا رہا ہے کہ ملالہ کوئی مثبت علامت نہیں ’’سامراج کی آلہ کار‘‘ تھی۔ اسے مجاہد اسلام کا نشانہ تو بننا ہی تھا۔ ملالہ جیسے انجام سے بچنا چاہتے ہو تو ڈرون حملوں کے خلاف آواز بلند کرو۔ اگر یہ نہیں کر سکتے تو کم از کم خاموش ہو جائو۔ قوم کو گمراہ نہ کرو۔

شیر کی طرح ایک دن کے بجائے میں گیدڑ کی طرح سو سال زندہ رہنے کی خواہش رکھتا ہوں۔ اخبار کے لیے کالم لکھوں گا یا ٹیلی وژن پر بولوں گا تو اول فول بک ہی دوں گا۔ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف صاحب سے دست بستہ التجا ہے کہ میرے لیے اس نظام میں پکی نوکری کا بندوبست کر دیں جو ٹی وی اسکرینوں پر فحاشی پھیلانے والے اشتہاروں اور پروگراموں پر نگاہ رکھے گا۔ مجھے پیٹ بھی پالنا ہے۔ بچے اسکول جاتے ہیں۔ پارسائی کے دعوے اسکول کی فیس کے طور پر قبول نہیں کیے جاتے۔ میرے زندہ رہنے کا بندوبست کر دیں۔ میں خاموش ہو جائوں گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔