سو چو صرف سو چو

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 15 جولائی 2015

سقراط کہا کرتا تھا میں کسی کو نہ کچھ سکھاتا ہوں اور نہ ہی مجھے کچھ معلوم ہے میرا صرف یہ کہنا ہے کہ آپ سوچو صرف سوچو۔ آئیں! ہم جلدی سے اپنی تاریخ کے صفحات الٹ کر پڑھتے ہیں ۔ مس جناح لکھتی ہیں کہ ’’اگست کے آخر میں قائد اعظم بالکل دل چھوڑ گئے تھے۔ انھوں نے میری آنکھوں میں گھورتے ہوئے مجھے کہا ’’فطی۔ میں اب زندہ رہنے کی کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ میں جتنا جلد چلا جاؤں بہتر ہے‘‘ مس جناح نے تسلی دینے کی کوشش کی تو وہ مردہ مسکراہٹ کے ساتھ مسکرائے اور بولے ’’نہیں۔ میں اب زندہ رہنا نہیں چاہتا۔

ستمبر کے دوسرے ہفتے میں ان پر ہذیان کی کیفیت طاری ہو گئی اور ’’ایک مرتبہ وہ ایسی ہی حالت میں یہ کہتے سنے گئے کہ کشمیر کمیشن کو آج مجھ سے ملنا تھا وہ اب تک کیوں نہیں آئے؟ کہاں چلے گئے‘‘ اور وہ یہ کہتے بھی سنے گئے ’’کشمیر۔ انھیں حق۔ دے دو۔ فیصلے کا۔ آئین۔ میں مکمل کروں گا۔ جلد۔ مہاجرین۔ ان کو دو۔ ہر قسم کی امداد۔‘‘ جب ڈاکٹر کرنل الہی بخش نے یہ حالت دیکھی تو انھوں نے مس جناح کو یہ مشورہ دیا کہ قائداعظم کو فوراً کراچی لے جایا جائے کیونکہ بجز اس کے کہ کوئی معجزہ رونما ہو، قائد اعظم کے چند دن سے زیادہ زندہ رہنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔

چنانچہ 11 ستمبر کو گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح کا خاص ہوائی جہاز چار بج کر پندرہ منٹ پر ماڑی پور کے ہوائی اڈہ پر پہنچا۔ وہاں گورنر جنرل کے ملٹری سیکریٹری کے سوا کوئی اور سرکاری عہدیدار موجود نہیں تھا، البتہ ایک ایمبو لینس تھی۔ مس جناح اور کوئٹہ والی نرس ایمبولینس میں بیٹھ گئیں۔ راستے میں ایمبولینس کے ساتھ جو افتاد بیتی اس کا احوال کرنل الہی بخش لکھتے ہیں کہ ’’ بمشکل چار میل گئے ہوں گے کہ ایمبولینس یکایک رک گئی۔ ہم حیران تھے کہ آخر یہ کیا ہوا۔ میں نے باہر نکل کر دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ گا ڑی کا انجن خراب ہوگیا ہے ۔ ڈرائیور نے کہا کہ ابھی ٹھیک کیے دیتا ہوں ۔

وہ کوئی بیس منٹ تک مصروف رہا لیکن گاڑی پھر نہ چلی۔ مس جناح نے ملٹری سیکریٹری کو ایک اور ایمبو لینس لانے کے لیے بھیجا ۔ ڈاکٹر مستری بھی اس کے ساتھ ہولیے ۔ ایمبو لینس میں ہوا بالکل بند تھی ۔ نرس اور نوکر انھیں پنکھا جھل رہے تھے ۔ پھر بھی قائداعظم کو پسینہ آرہا تھا ۔ ہمیں خیال آیا کہ انھیں بڑی کار میں منتقل کردیں لیکن اسٹریچر اس کے دروازے سے بڑا تھا۔ وہ خود بھی اتنے کمزور تھے کہ پچھلی سیٹ پر نہیں لیٹ سکتے تھے۔

اس کے علاوہ ان کے کپڑے پسینہ سے شرابور تھے اور باہر انھیں ہوا لگ جانے کا خطرہ تھا ۔ میں ان کی نبض دیکھ کر کچھ سہم سا گیا، کیونکہ وہ بڑی کمزور معلوم ہورہی تھی ۔ مجھے خیال آیا کہ خدانخواستہ قائداعظم نے ہوائی سفر بخیر و خوبی طے کرنے کے بعد سٹرک کے کنارے جان دے دی تو یہ کتنا بڑا سانحہ ہوگا۔ میں گھڑی گھڑی شہر کی طرف نظریں دوڑاتا تھا لیکن ایمبولینس کے کوئی آثار نہ تھے ۔

ٹرک اور بسیں ادھر ادھر سے گزر رہی تھیں لیکن کوئی بس اس قابل نہ تھی کہ وہ استعمال میں لائی جاسکے ۔ میں بہت ہراساں اور پریشان بیٹھا تھا ۔ بڑے صبر آزما انتظار کے بعد خدا خدا کرکے ایمبو لینس نمودار ہوئی ہم نے فوراً قائداعظم کو اس میں منتقل کیا پھر روانہ ہوئے ایمبولینس پر گورنر جنرل کا نشان نہ تھا ۔ اس لیے کسی کو پتہ بھی نہ چلا کہ قائداعظم اس نازک حالت میں کراچی کے بازاروں سے گزر رہے ہیں ۔‘‘

اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی تاریخ اپنے رویوں کا بے رحم تجزیہ روز اول سے شروع کر یں اس کے بغیر ہم ہر گز نہ منزل پر پہنچ سکتے ہیں اور نہ خوشحالی ترقی و استحکام کا سفر طے ہو سکتا ہے ۔ یہ بھی بہت ضروری ہے کہ ناکامی کے مفہوم کو سمجھا جائے پاکستان کے حوالے سے اس اصطلاح کے بے دریغ استعمال کیا گیا۔ یہ اصطلاح حالیہ دور کی ان ریاستوں کے لیے استعمال کی گئی جو اپنے شہریوں کی بنیادی ضروریات کا پورا نہ کر سکیں۔ جیسے صومالیہ اور افغا نستان، ناکامی کی کم از کم اقسام کی نشاندہی کی جاسکتی ہے ۔

(1) اپنی یا دوسروں کی ماضی کی توقعات پر پورا نہ اترنا (2) بصیرت کی ناکامی (3) معاشی ناکامی (4) قیادت کی ناکامی (5)ناگہانی ناکامی ۔ بدقسمتی سے ہم تمام اقسام کی ناکامی سے دوچار رہے ہیں۔ یا ہمیں دوچار کیا جاتا رہا ہے، پاکستان ہمیشہ جمہوریت کے کنارے پر رہا` اس کے مشرقی ایشیا ، ہم منصب اس سے آگے نکل گئے اور معاشی ترقی سے چھلانگ لگا کر جمہوری ترقی تک جا پہنچے ۔ پاکستان کی حد تک جمہوریت کی مکمل بحالی اور ریاست کی تعمیر نو ایک ایسا مستقبل ہے جو متوقع کی بجائے غیر امکانی محسوس ہوتا ہے ۔

بطور جمہوریت پاکستان کا مقدر ان چند یونانی شہری ریاستوں کے مماثل ہوگا جو ارسطو کے زیر مطالعہ رہیں۔ ارسطو نے ان شہری ریاستوں کی تفصیل اپنی تصنیف سیاست میں بیان کی ہیں۔ بقول ارسطو ان میں سے اکثر ناقص امرا شاہی حکومتیں تھیں، جو ارتقاء کے مراحل طے کرنے کے بعد ناقص جمہوریتوں میں بدل گئیں اور ایک مرتبہ پھر امرا شاہی طرز حکومت کی حامل ریاستیں بن گئیں ان میں سے ایک آدھ کبھی کبھار جابر ریاست میں تبدیل ہوتی رہی شاید ہی کوئی ایسی ہو جس نے خالص نظا م کو اپنا یا بقول ارسطو صحت مند اصولوں کو اپنی بنیاد بنایا۔ پاکستان کا امرا شاہی سے مکمل جمہوریت کی سمت سفر انتہائی دشوار لگتا ہے، ہمارا ماضی اور حال یونانی شہر ی ریاستوں سے مختلف نہیں ہے ۔

دنیا کے غیور قومیں اپنے قومی مجرموں کو قبروں سے نکال کر سزا دے چکی ہیں جب کہ ہمارے سامنے روشنی ہوتے ہوئے بھی ہم اندھیروں میں اپنا سر ٹکرا رہے ہیں۔ ہمیں اندھیرے اتنے پیارے ہوچکے ہیں کہ ہم ان سے نکل کر روشنی کی سمت جانا ہی نہیں چاہتے ہم بہت بکواس سن چکے ہیں ۔ بہت کہانیاں سن چکے ہیں ، جھوٹی سچی کہانیاں سن سن کر قوم بہری ہوچکی ہے بحیثیت قوم ہمارے صدموں کی طویل داستان ہے اب ہمیں اپنا بے رحم تجزیہ کرتے ہوئے تمام خرابیوں اور برائیوں کو ہمیشہ کے لیے مٹانا ہو گا۔ اپنے شہریوں کی بنیادی ترین ضرورتوں کو پورا کرنا ہو گا۔ مکمل جمہوریت کی طرف تیزی سے سفر طے کرنا ہو گا اگر ہم ایسا نہ کر سکے تو انجام سب کو معلوم ہے۔ لہذا سوچو صرف سوچو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔