نواز ، مودی ملاقات

مقتدا منصور  جمعرات 16 جولائی 2015
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

جمعہ10جولائی کو پاکستان کے وقت کے مطابق ساڑھے نوبجے نواز شریف بھارتی وزیر اعظم نرنیدر مودی سے ملنے پہنچے۔ ملاقات کا وقت نصف گھنٹہ طے تھا، لیکن جب معاملات ومسائل زیر بحث آئے اورگلے شکوے شروع ہوئے تووقت کا اندازہ نہیں رہا اور ملاقات کا دورانیہ ایک گھنٹے سے بھی کچھ منٹ تجاوزکرگیا۔

ملاقات کے بعد جو اعلامیہ جاری ہوا۔اس پرکچھ سیاسی جماعتوں اور تجزیہ نگاروں کے علاوہ کشمیری رہنماؤںنے اپنے تحفظات کا اظہارکیا ،لیکن حقیقت یہ ہے کہ68برسوںپر محیط بے اعتمادی اور تناؤ اورگزشتہ چند ماہ کے دوران انتہاؤں کو پہنچنے والی کشیدگی کے باوجود اس ملاقات کا ہوجانا،ایک بہت بڑا واقعہ ہے۔

اس ملاقات پرگفتگو کرتے ہوئے خطے کی تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتی صورتحال اور عالمی سیاسی منظرنامہ میں رونماء ہونے والی تبدیلیوںکو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔یہ سمجھنا ہوگا کہ معاشی سرگرمیوں کا مرکز یورپ سے ایشیاء کی جانب منتقل ہوچکا ہے۔اس وقت کئی ایشیائی ممالک معاشی ترقی کے لیے سرگرداں ہیں، لیکن اس وقت اصل مسابقت چین اور بھارت کے درمیان جاری ہے۔ عالمی بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق بھارت معاشی نموکی شرح میں چین سے آگے نکل گیا ہے۔

امریکا سمیت یورپی ممالک کی ہمدردیاں بھی بھارت کے ساتھ ہیں۔ حالانکہ چین میں امریکی سرمایہ کاری سب سے زیادہ ہے ،لیکن بھارت کے ساتھ امریکا کے بڑھتے ہوئے تعلقات کے کئی اسباب ہیں۔اول،بھارت کی تقریباً 55 کروڑ پر مشتمل مڈل کلاس جو امریکی مصنوعات کے لیے بہت بڑی عالمی منڈی ہے۔

دوئم، بھارت میں دنیا کی سب سے بڑی ہنر مند افرادی قوت،جو جدید سائنس وٹیکنالوجی کا علم اور مہارت رکھتی ہے اور سستی اجرت پر دستیاب ہے۔سوئم،جدید صنعتی انفرا اسٹرکچر اورٹیکسیشن کا جدید نظام،جو سرمایہ کاروں کے لیے کشش رکھتا ہے۔ چہارم، صنعتی علاقوں میں امن وامان کی تسلی بخش صورتحال ۔پنجم، بحرہند کے ساحلوں پرنصف درجن سے زائد بندرگاہوں کے ذریعے مصنوعات کی عالمی سطح پر فوری ترسیل کی سہولت ۔

لیکن ہنری کسنجر کے تجزیے کے مطابق درج بالاتمام خصوصیات کے باوجود بھارت صرف علاقائی معاشی قوت تو بن سکتا ہے، لیکن عالمی سپر پاور بننا اس کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس کا سبب اس کے متضاد رویوں کو قرار دیتے ہیں۔ان کے خیال میں بھارت کا بے لچک اور معاندانہ رویہ پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کے قیام میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔

جس کی وجہ سے اس کا اقوام متحدہ کا مستقل رکن بننا دشوار ہوگیا ہے۔اس لیے بھارتی منصوبہ سازوں کی یہ کوشش ہے کہ وہ پڑوسی ممالک بالخصوص پاکستان کے ساتھ نزاعی مسائل کوچھیڑے بغیر تعلقات کو بحال کرنے کی کوشش کریں ،لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسی کوئی صورت پاکستان کے لیے قابل قبول ہوگی؟جس میں کشمیر،سیاچن اورسرکریک کے علاوہ مقبوضہ کشمیر میں ڈیموں کی تعمیر سے پیدا ہونے والی خشک سالی نظر انداز کیا جائے؟شاید نہیں۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ ان نزاعی مسائل پر جامع مذاکرات کا سلسلہ شروع کرکے تجارت سمیت دیگر شعبہ جات میںتعلقات کی بحالی کا عمل شروع کردیا جائے۔یہ دو طرفہ عمل ہے، جو دونوں ممالک کے منصوبہ سازوں سے سیاسی بصیرت، نیک نیتی اور عوامی معاملات میں دلچسپی کا متقاضی ہے۔

سوال یہ ہے کہ آیا دونوں ممالک کے منصوبہ سازوں کو ان مسائل کا ادراک ہے، جس سے پورا خطہ دوچار ہے؟کیونکہ ان مسائل کے فہم وادراک کے بغیر خطے کی ترقی کاتصورناممکن ہے۔خاص طورپر متشدد مذہبیت (Religiosity)کابڑھتا رجحان،  فرقہ واریت،شاونزم اورذات پات کی بنیادپر طبقاتی تقسیم جنوبی ایشیاء میں جمہوریت اور جمہوری طرز حکمرانی کے لیے بہت بڑا خطرہ بنے ہوئے ہیں۔

اسی طرح معاشرے کے محروم طبقات جن میں دلت،نچلی جاتیوں کے قبائل کودرپیش مسائل اورخواتین اور مذہبی اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک بھی جمہوری اقدار کے پروان چڑھنے اور انصاف اور برابری پر مبنی معاشرے کے قیام کی راہ میں رکاوٹ ہے۔جب کہ پاکستان اور بھارت کے حکمرانوں کا جنگجویانہMindset انھیں اسلحے کی دوڑ پر اکساتا رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے دونوں ممالک اپنے وسائل کا بڑا حصہ جوہری اور حساس روایتی اسلحے کے انبار لگانے میں صرف کررہے ہیں۔ نتیجتاً خطے کی آبادی کا ایک بڑا حصہ غربت، افلاس، بھوک اور ننگ کا شکار ہے۔ سماجی ترقی کے لیے وسائل کی کمیابی کے نتیجے میں ہر سال خط افلاس سے نچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔

اس کے علاوہ جنوبی ایشیائی ممالک بالخصوص بھارت اور پاکستان کے منصوبہ سازوں کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ 20ویں صدی کی آخری دہائیوں کے دوران دنیا کے بیشترخطوں کے ممالک نے اپنی علاقائی تنظیموں کے ذریعے قابل ذکر ترقی کی۔خاص طورپر یورپی یونین ،جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم ASEANاور شمالی امریکاکے ممالک کی تنظیمNAFTAوغیرہ۔ اسی طرح افریقی ممالک بھی علاقائی تنظیموں کے ذریعہ ترقی کی نئی تاریخ رقم کررہے ہیں۔

لہٰذا یہ طے ہے کہ جب تک خطے کے ممالک کی علاقائی تنظیمSAARC فعال نہیں ہوتی، خطے کی ترقی کا تصور عبث ہے۔سوال یہ ہے کہ ان مقاصد کے حصول کے لیے ان ممالک کی قیادت کس حد تک سیاسی بصیرت اورعزم کا مظاہرہ کرتی ہیں، یہ ان کی اہلیت کا امتحان ہے۔

یہ پہلو بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک کے درمیان برادرانہ تعلقات اور سیاسی،سماجی، معاشی اور ثقافتی تعاون کا تصور انگریز کے اس خطے سے جانے کے ساتھ ہی پیدا ہوگیا تھا ،لیکن تقسیم ہند کے فوراً بعد ہی پاکستان اور بھارت کے درمیان جو مختلف نوعیت کے تنازعات پیدا ہوئے اور سرد جنگ نے انھیں مہمیز لگائی۔لیکن اب مذاکرات کے ذریعہ ان کا حل کیا جاناوقت کی اہم ترین ضرورت بن چکی ہے۔

1980 کے عشرے سے جب دنیا بھر میں ترجیحات تبدیل ہونا شروع ہوئیں اور یہ سوچ پیدا ہوئی کہ علاقائی اتحادکے ذریعے ترقی کے اہداف حاصل کرنا زیادہ آسان ہے، توعلاقائی تعاون کی تنظیمیں وجود میں آنا شروع ہوئیں۔دنیا کے اس تبدیل ہوتے مزاج کا ادراک کرتے ہوئے اس وقت کے بنگلہ دیشی سربراہ مملکت جنرل ضیاء الرحمان مرحوم نے سارک کا تصور پیش کیا۔ابتدامیں بھارت اس تصور کا مخالف تھا اور وہ تنہا(Solo flight)پرواز کے ذریعے ترقی کے مدارج طے کرنے کی خواہش رکھتا تھا۔

مگر افغانستان میں پیدا شدہ صورتحال نے بھارت کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی بجادی تھی۔اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم مرارجی ڈیسائی نے افغانستان میں شروع ہونے والی لڑائی اور افغان مہاجرین کی پاکستان آمد پر تاریخی بیان دیاتھا۔ ان کا کہنا تھاکہ’’ پانچ ہزار برس کی تاریخ بتاتی ہے کہ جو فوجیں اور قافلے درہ خیبر عبورکرکے برصغیر میں داخل ہوئے، وہ کبھی واپس نہیں گئے‘‘ ۔

اس خوف نے بھارت کو علاقائی تعاون کی تنظیم کا حصہ بننے پر مجبور کیا۔یوں اپریل 1981ء میںجنوبی ایشیاء کے 7ممالک کے وزرائے خارجہ نے کولمبو(سری لنکا)میں بیٹھ کر اس کے خدوخال تیارکیے ۔پھردسمبر1985 میں ڈھاکا کے مقام پر ہونے والی پہلی سربراہی کانفرنس میںجنوبی ایشیائی ممالک کے تعاون کی تنظیمSAARCکا عملی قیام عمل میں آیا۔مگر یہ تنظیم اپنے قیام کے وقت ہی سے دو کلیدی اراکین پاکستان اور بھارت کے درمیان پائے جانے والے تنازعات کے باعث غیر فعال ہے۔

سوال یہ ہے کہ جب چین تائیوان پر اپنے دعوے کے باوجود امریکا اور تائیوان سے تجارت کو بڑھاوا دے سکتا ہے۔ چین اور بھارت کے درمیان تبت کا سرحدی جھگڑا موجود ہونے اور تبتی رہنماء دلائی لامہ کے گزشتہ55برس سے بھارت میں سیاسی پناہ کے باوجود دونوں ممالک عالمی صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے تجارتی تعاون کی نئی تاریخ رقم کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ تو کیا وجہ ہے کہ ہم مختلف حساس تنازعات کے باوجود تجارت اور عوام کے عوام سے روابط کی بحالی کی راہ پر گامزن نہ ہوسکیں؟ اس وقت تمام ماہرین معاشیات اس بات پر متفق ہیں کہ چین کے ساتھ اقتصادی معاہدوں سے صرف چین مستفیض ہوگا ۔جب کہ ہمیںمختلف نوعیت کے فائدے کا بہت کم امکان ہے۔

اس کے برعکس بھارت کے ساتھ تجارتی سرگرمیوں کی بحالی کا ہمیں براہ راست فائدہ پہنچنے کا قوی امکان ہے۔لہٰذا کشمیر ، سرکریک اور سیاچن پرجامع  مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے تجارت اور عوام کے عوام سے روابط کی بحالی کا عمل شروع کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے۔

لیکن معاملہ صرف ہمارے مزاج تک محدود نہیں ہے، بلکہ بھارت بھی اسیmindsetکا اسیر ہے،جس نے حقائق کی جگہ فکری نرگسیت کو اہم بنا رکھا ہے۔لہٰذا صدیوں پر محیط نفسیات اور سرد جنگ کے دوران پروان چڑھنے والی سوچ جرأت مندانہ فیصلوں کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔لیکن جلد یا بدیر اس حقیقت کوتسلیم کرنا پڑے گاکہ سرد جنگ کے بعد دنیاکی ترجیحات تیزی کے ساتھ تبدیل ہوئی ہیں۔ آج کی دنیا نظریات کے بجائے سرمائے کے پھیلاؤ کی دنیا ہے۔

جس میں  فیصلہ نظریات نہیں بلکہ سرمایہ کرتا ہے۔اس لیے پاکستان میںاسلامائزیشن ہو یا بھارت میں ہندوتواکاقیام،خوشنماء نعروں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے ۔حقائق ان نعروں سے کئی کوس آگے جاچکے ہیں اور اگر ہم دونوںنے اپنی غیرضروری ہٹ دھرمی جاری رکھی ،تو دنیا مزید آگے نکل جائے گی اور ہم منہ تکتے رہ جائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔