عید کا نوحہ

رئیس فاطمہ  جمعرات 16 جولائی 2015
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

یہ عید جو چند دن بعد آنے والی ہے۔ پرانی عیدوں سے بہت مختلف ہے کہ موجودہ رمضان بھی خاصا الگ تھا۔ اسی رمضان میں پل ٹوٹنے کا وہ الم ناک حادثہ ہوا، جس کی فوٹیج بھی دیکھنی خاصی تکلیف دہ تھیں۔ اسی رمضان کے مہینے میں قیامت خیز گرمی، بجلی کی بندش اور پانی کی کمیابی سے ہزاروں افراد لقمۂ اجل بن گئے۔

ٹریفک کے دیگر بدترین حادثات الگ۔ اور جو غربت و مہنگائی کے سبب زندہ درگور ہو رہے ہیں ان کا تو ذکر ہی کیا۔ اسمٰعیلی کمیونٹی کے ساتھ صفورا گوٹھ کا واقعہ بھی پرانا نہیں ہوا۔ ایسا لگتا ہے جیسے عذابوں اور قہرِ خداوندی نے گھر دیکھ لیا ہے۔ ایسی صورت میں بھلا کون عید منانے کا سوچ بھی سکتا ہے۔ ہمیشہ عید پر ایسے ہی کالم اچھے لگتے ہیں جو ماضی کی خوش کن یادوں کو تازہ کردیں، پتہ نہیں کیوں عید والے دن وہ بہت یاد آتے ہیں۔ جو دل سے تو قریب ہوتے ہیں لیکن نظروں سے اوجھل اپنی دنیا میں مگن! ان کے لیے دعائیں ہر وقت لبوں پہ رہتی ہیں کہ دعائیں کبھی مشروط نہیں ہوتیں۔ دلّی والے ہمیشہ چھوٹوں کے سلام کے جواب میں ’’جیتے رہو‘‘ یا ’’جیتی رہو‘‘ کی دعا دیتے ہیں کہ یہ دعا دل سے نکلتی ہے اور قبولیت کی صفت بھی رکھتی ہے۔

لیکن اس بار دل بہت اداس ہے۔ صرف میرا ہی نہیں بلکہ ہر اس پاکستانی کا جس کا ضمیر ابھی مرا نہیں ہے۔ ان گھرانوں کا سوچیے جو بکھرگئے۔ جن کے پیارے اسی رمضان میں حادثوں کا شکار ہوئے۔ طبعی موت تو قانون فطرت ہے، لیکن دریا میں بوگیوں کا گرنا اور گھروں کو جانے والوں کا دام اجل میں آجانا، بے حد تکلیف دہ ہے۔ کون سی آنکھ ہوگی جو پرنم نہیں ہوگی؟ کبھی عید کی خوشیوں پہ کالم لکھتے تھے لیکن آج ہم عید کا نوحہ لکھنے پہ مجبور ہیں۔

ہمارے ملک میں تین طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو دوسروں کا دکھ بھی اسی شدت اور گہرائی سے محسوس کرتے ہیں، جیسے یہ سانحہ خود ان پر گزرا ہوکہ یہی انسانیت کی دلیل ہے۔ دوسرے وہ جو اپنی کھال میں مست رہتے ہیں، انھیں کسی کے دکھ درد اور تکلیف سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ایسے ہی لوگوں کی تعداد زیادہ بلکہ بہت زیادہ ہے۔

آپ دیکھ رہے ہوں گے کہ چوڑی، مہندی، گوٹا کناری، مبلوسات کی خریداری، جوتے، پرس، تحائف غرض یہ کہ ہر شے کی خریداری ہو رہی ہے۔  ہر طرف شاپنگ کے جلوے ہیں، انٹرویو لیے جا رہے ہیں، شاپنگ پہ تاثرات پوچھے جا رہے ہیں۔ اور دوسری طرف وہ سفید پوش بدنصیب جو سب کچھ بھیگی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور چپ ہیں۔ کہتے ہیں ناکہ چڑھتے چاند کو سب دیکھتے ہیں، ہنسنے والوں کا ساتھ دینے کے لیے بہت سے لوگ ہنسنے لگتے ہیں۔ لیکن رونے والا ہمیشہ اکیلا ہوتا ہے۔

خواہ وہ اولاد کے لیے رو رہا ہو یا والدین کی جدائی پر۔ آنسو تو چھپ کر ہی بہائے جاتے ہیں اور پھر وہ آنسو جو میڈیا کی رونق میلے والی نشریات ہوں یا پرنٹ میڈیا کی شاپنگ اور عید کی تیاریوں کے حوالے سے رپورٹس اور تصاویر۔ عید دراصل انھی بے حسوں کے لیے آتی ہے اور آتی رہے گی۔

لیکن تیسری قسم وہ ہے جو پاکستان میں ہر وقت اور ہمیشہ پائی جاتی ہے۔ اس نسل کو انسانی نسل کہنے کو جی نہیں چاہتا کہ ان کا ظاہری وجود اور پہناوا تو انسانوں والا ہی ہے لیکن یہ بھیڑیوں کی جینز اپنے خون میں رکھتے ہیں۔ اخبارات میں شہ سرخیوں کے ساتھ لگی کرپشن کی خبریں اور اس میگا کرپشن میں ملوث بے چہرہ لوگوں کے نام اور ان کے جرائم کی تفصیلات پڑھ لیجیے تو آپ کو میرا پرانا کالم ’’پاکستان۔۔۔۔ایک چراگاہ‘‘ ضرور یاد آجائے گا۔

افسوس کہ اس چراگاہ کے تمام درخت سبزہ اور پھل سب اس چراگاہ میں چرنے والوں نے ختم کردیے۔اور کسی نے نوٹس نہیں لیا کہ میگا کرپشن میں ملوث وہ ہیں جن کے خون کا ایک قطرہ اس ملک کو بنانے کے لیے نہیں بہا۔ جنھیں یہ ملک طشتری میں رکھا ہوا ملا اور انھوں نے اسے مال غنیمت سمجھ کر ہڑپ کرلیا۔

افسوس کہ جن قوتوں سے امید ہوتی ہے کہ وہ اس کرپشن کو بے نقاب کرسکتے ہیں۔ ملک کی دولت لوٹنے والوں کو سرعام پھانسی چڑھا سکتے ہیں۔ لوٹی ہوئی دولت واپس لاسکتے ہیں۔ لیکن جب وہی نجات دہندہ کسی ذاتی مفاد، مجبوری یا دباؤ کی بنا پر جان بوجھ کر آنکھیں بند کرلیتے ہیں تو ایک شدید مایوسی ہر اس انسان کے اندر اندھیرے گھولنے لگتی ہے جو اس پاک وطن اور اس کی سرزمین سے محبت کرتا ہے۔

کالم لکھتے لکھتے اچانک میری نظر دو خبروں پہ پڑی اور مجھے اندازہ بھی نہ ہوا کہ جس تیسری قسم کا میں ذکر کر رہی ہوں وہی تو ہیں جن کے لیے عید ہمیشہ باد بہاری بن کر آتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو حکمران بنتے ہیں۔ عید اس بار بھی انھی کے لیے آئی ہے۔ ذرا یہ خبر ملاحظہ ہو جس کے مطابق آصف علی زرداری کی صاحبزادی آصفہ کراچی میں واقع چڑیا گھر میں جب تفریح کے لیے پہنچیں تو اس موقعے پر اسپیشل سیکیورٹی یونٹ کے کمانڈوز اور پولیس اہلکاروں کی بھاری نفری ان کی حفاظت کے لیے موجود تھی۔

چڑیا گھر کی انتظامیہ نے سیکیورٹی کے پیش نظر تفریح کے لیے آنے والے لوگوں کو چڑیا گھر سے باہر نکال دیا۔ سابق سلطان معظم کی پرنسز آدھے گھنٹے تک جانوروں میں گھومتی رہیں اور سیکیورٹی والے ان کے ساتھ ساتھ انھیں حفاظتی حصار میں لیے چڑیا گھر میں گھماتے رہے۔ عوامی پارٹی جو اب زندہ بھی نہیں ہے شاید اس کے تن مردہ میں جان ڈالنے کے لیے یہ ایک طریقہ اختیار کیا گیا۔

پاکستان جن آفتوں سے گزر رہا ہے۔ ایسے نازک اور سنگین حالات میں وزیر اعظم کو اپنے ملک میں رہنا چاہیے۔ لیکن وہ دوروں پہ نکل گئے۔ اوسلو میں ملالہ سے ملاقات کرکے اس کی شان میں قصیدہ پڑھا کہ ممکن ہے وہ اسے پاکستان بلا کر (ن) لیگ کے ٹکٹ پہ الیکشن لڑوا سکیں۔ ناروے کی وزیر اعظم ارناسولبرگ کو باؤلنگ کرائی اور خواتین کھلاڑیوں کے ساتھ کرکٹ کھیلی۔ اپنے وطن میں مرنے والوں کو بھول کر خواتین کرکٹ کلبوں کے لیے کٹس (KITS)بھیجنے کا اعلان کیا۔ موجودہ سلطان معظم اور ملکہ عالیہ کراچی میں بجلی اور پانی نہ ہونے سے مرنے والوں کے لواحقین کو امداد دینے کے بجائے سو سالہ قدیم ’’فیوروسٹ اسپورٹس ہال‘‘ کا دورہ بھی کیا۔ پاسبان عقل بادشاہ کے ساتھ ہو تو ہر جگہ عید ہوتی ہے۔

مجھے کہنے دیجیے کہ یہی تیسری قسم انسانوں کی وہ ہے جنھوں نے شرافت، دیانت اور مذہب کے لبادے اوڑھ کر ایک عام آدمی سے دو وقت کی روٹی بھی چھین لی ہے۔ سوائے بددعاؤں کے ان کے لیے کسی کے پاس کچھ نہیں۔ کاش کوئی مسیحا آئے اور خاتون اول قسم کے عجوبوں سے ہمیں نجات دلائے۔ اس ملک اور اس کے لوگوں سے کسی کو ہمدردی نہیں۔ بادشاہ گر +بادشاہ+خاتون اول+ شہزادے+ شہزادیاں= مملکت خداداد پاکستان۔ یہی ہمارا مقدر ہے۔ کوئی ہے جو وردی کے علاوہ عوام اور وطن کی جان بھی بچائے؟ نہیں کوئی نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔