جنوبی ایشیاء میں مودی کا گھناؤنا کھیل

اسلم خان  جمعرات 16 جولائی 2015
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

ہم سفارتی کاری کے پیچیدہ گورکھ دھندے میں اُلجھے ہوئے ہیں یا پھر ٹریک 2 کے خوابوں اور سرابوں کے پیچھے ہلکان ہو رہے ہیں جب کہ  نریندرمودی ٹھوس بنیادوں پر ہر شعبے میں پاکستان کی راہ روکنے کے لیے منظم منصوبہ بندی کے تحت پیش قدمی کررہا ہے، چین کے علاقائی اور عالمی رابطہ کاری کے راہداری منصوبوں کے مقابل نریندر مودی نئی جہتیں تلاش کررہے ہیں نئی سمتوں میں شاہراہیں تشکیل دے رہے ہیںکامل خاموشی کے ساتھ،دوسری طرف ہم ہیں کہ ادنی سیاسی اورمعاشی مفادات کے لیے اقتصادی راہداری کے ان عظیم الشان منصوبوں کو متنازعہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔

نریندر مودی کاتازہ ترین منصوبہ عالمی ،شمال، جنوبی ٹرانسپورٹ راہداری (International North South Transport Corridor)کی تشکیل و تعمیر ہے جو ریل،سڑک اور بحری راستے سے بھارت کو روس، ایران،آذربائیجان ،وسطی ایشیائی ریاستوں کے ذریعے براہ راست یورپ سے منسلک کردے گا، اس بین الاقوامی تجارتی راہداری کا بنیادی مقصد ممبئی ،ماسکو، تہران، باکو،آسترخان کو ایرانی بندرگاہ بندرعباس اور آذربائیجان کی بندرگاہ بندر عنزالی سے منسلک اور مربوط کرکے نئی تجارتی شاہراہوں کی نقش گری کرنا ہے تاکہ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کو ختم کیا جاسکے۔ اس تجارتی شاہراہ کو دوحصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ،پہلے حصے میں ممبئی کو ایرانی بندرگاہ، بندرعباس کے ذریعے باکو سے جوڑا جائے گا۔ دوسرے حصے میں ممبئی کو آذربائیجان کے شہر آستر خان سے بندرعباس، بندر غزالی اور تہران سے منسلک کیا گیا ہے۔

عملی مشکلات کا جائزہ لینے کے لیے گذشتہ مارچ 2014میں سامان تجارت کے آزمائشی قافلے تجرباتی مراحل سے کامیابی کے ساتھ گذر چکے ہیں جس کا بنیادی مقصد اس راہداری کی مشکلات (Bottle Necks)کاتجربہ کرکے انھیں ختم کرنا تھا آزمائشی تجارتی قافلے کے نتائج بڑے حوصلہ افزا تھے 15ٹن کارگو کی ترسیل پر لاگت 25سو ڈالر کم آئی ہے۔مودی ایک طرف بھوٹان ،نیپال اور بنگلا دیش کی مدد سے چین کی راہ روکنے کی منصوبہ بندی بھی کررہے ہیںتو دوسری طرف سارک میں پاکستان کو تنہا کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔

چین نے تیز رفتاری سے سامان تجارت کی عالمی منڈیوں تک ترسیل اور رسائی کے لیے ایک شاہراہ ۔ایک خطہ (One Belt-One Road) کی فلاسفی کا نیا تصورپیش کرکے چین کے صدیوں پرانے زمینی راستے شاہراہ ریشم کے احیاء کا انقلابی منصوبہ بنایا ہے جس میں پاکستان کی نو تعمیر شدہ بندر گاہ ،گوادر کو مرکزی مقام حاصل ہے جو کہ بحرِہند اور بحیرہ عرب کے سنگم پرجواہرات کا تاج بن کر جگمگا رہی ہے جس کو ناکام بنانے کے لیے اپنے پرائے، سبھی میدان میں نکلے ہیں وہ برادر خلیجی ریاستیں ہوں یا پھر ازلی دشمن بھارت کسی کو بھی استثناء نہیں ہے۔سب اپنے اپنے ادنی مفادات کے لیے پاکستان کے اقتصادی خوشحالی اور معاشی آزادی کے خوابوں کو سراب بنانے پر تلے ہوئے ہیں بھارت نے بلاجواز اور بلا وجہ اس عظیم الشان اقتصادی منصوبے کی مخالفت شروع کردی تھی کہ خوشحال پاکستان اسے کسی صورت گوارا نہیں لیکن چین سمیت ہمسایہ ممالک خاص طور پر ایران کی سردمہری نے بھارت کو خاموش ہونے پر مجبور کردیا ۔

بھارتی حکمت کار علاقائی اور عالمی شاہراؤں کی چین سے روس کے ذریعے یورپ تک رسائی اور قدیم شاہراہ ریشم کے احیاء سے گوادر بندرگاہ تک پہنچ کو اپنا اقتصادی محاصرہ تصور کرتے ہیں خاص طور پر بحری راستوں اور چہار اطراف سے نیپال، برما اور بنگلا دیش کے زمینی راستوں سے دہلی کی طرف چینی یلغار بھارتی نیتاؤں کے لیے ڈراؤنا خواب بن چکی ہے جس کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارتی منصوبہ سازوں نے بندر عباس کو مرکز بنا کر ممبئی کو وسط ایشیائی ریاستوں ، روس کے ذریعے مشرقی یورپ سے باہم منسلک کرنے کے منصوبے پر تیزی سے کام شروع کردیا ہے خود بھارتی سرمایہ کار بھی نئے تجارتی راستوں کی تلاش میں بے تاب رہے ہیں تاکہ عالمی تجارت میں اپنا حصہ بڑھا کر مثبت سیاسی اہمیت حاصل کرسکیں جس کا سب سے بڑا اظہار ڈھاکا یونیورسٹی میں مودی جی کی تقریر سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔

سارک میں پاکستان کو تنہا کرنے کے لیے منظم حکمت عملی کے تحت نریندر مودی نے رکن ممالک کا دورہ شروع کیا ان کی پہلی منزل بھوٹان تھی خالص ہندوریاست جس کی تمام معاشیات کاانحصار بھارت کو فروخت کی جانے والی بجلی پر ہے۔ مودی نے دربارمیں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج ہمارے گھر آپ کی بجلی سے روشن ہیں جب کہ آپ کے چولہے ہمارے ایندھن سے جل رہے ہیں پھر انھوں نے کھٹمنڈو ،کولمبو اور ڈھاکا کے ہنگامی اور طوفانی دورے کیے اور تمام ممالک کو ایک ارب ڈالر قرض کی سہولت دینے کا اعلان کیا لیکن مالدیپ اور پاکستان کو دانستہ نظر انداز کیا کہ مالدیپ کی حکومت تو برسوں سے بحری قزاقوں سے بچاؤکے لیے بھارت کی دست نگر ہے اور مالدیپ میں بھارتی بحریہ کے مستقل اڈے کے لیے درخواست گزار ہے جب کہ پاکستان کے لیے بھارتی بغض ،کینہ اور عناد کی بڑی پرانی کہانی ہے ۔

جناب نریندر مودی تو اس گروہ کے سرخیل ہیں جواکھنڈبھارت کے نعروں کے ساتھ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے ہیں، بھارت ماتا کے وجود کو کاٹ کر بننے والے پاکستان کو دوبارہ اکھنڈ بھارت کا حصہ بنانا انتہا پسند مودی کا مقصدحیات ہے۔پاکستان میں بھارت سے دوستی کے دن میں خواب دیکھنے والے حقائق سے نظریں چرا رہے ہیں ۔

بنگلا دیش کی تشکیل میں بھارت کے سازشی کردار کا اعتراف کرتے ہوئے مودی نے کہا کہ مکتی باہنی کے ساتھ ساتھ بھارتی فوجی جوانوں نے بھی بنگلا دیش کی آزادی کے لیے اپنا خون بہایا تھا۔ پہلے ہم پاس پاس تھے لیکن اب عالمی برادری دیکھ رہی ہے کہ بھارت بنگلا دیش ساتھ ساتھ ہیں ۔

میں نے اپنی جوانی میں بنگلا دیش کی آزادی کے لیے ستیہ گری کرکے سیاسی سفر کا آغاز کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ قدرتی آفات کا شکار رہنے کے باوجود بنگلادیش نے بہت سے میدانوں میں اپنا سکہ منوایا ہے خاص طور پر ٹیکسٹائل کے شعبے میں چینی قیادت بھی بنگلا دیش کی کامیابیوں کا اعتراف کررہی ہے ۔خوش حال بنگلا دیش بھارت سمیت سارے خطے کے مفاد میں ہے بیگم حسینہ واجد کا معاشی ترقی کا ایجنڈہ نشان منزل بن چکا ہے بھارت اور بنگلا دیش نوجوان اقوام ہیں ہمارے خواب بھی جوان ہیں معاشی ترقی کی ترنگ دونوں اطراف پائی جاتی ہے ۔عالمی سیاست میں جارحانہ توسیع پسندی کا دورلد چکا ہے اب معاشی ترقی کا دور دورہ ہے ۔

مودی نے سرحد ی تنازعات کے حل کے لیے ہونے والے دوطرفہ معاہدے کا ذکر کرتے ہوئے کہا یہ دیوار برلن کے ٹوٹنے جیسا اہم اور تاریخی واقعہ ہے انھوں نے کہا کہ بھارت اور بنگلا دیش عظیم بدھاکی(مہاتما بدھ)روایات سے جڑے ہوئے ہیںجہاں بدھا ہوگا وہاں یُدھا(لڑائی) نہیں ہوسکتی۔ بھارت، بنگلا دیش ،بھوٹان اور نیپال نے تجارتی ہم آہنگی اور تجارتی شاہراؤں کے قیام کی سمت تیزی سے آگے بڑھنے کافیصلہ کیا ہے ۔بھارت اور بنگلا دیش نے 36گھنٹوں میں 22معاہدے کیے ہیں جس کے لیے میں بنگلا دیش کی بالغ نظر قیادت اور وزیراعظم حسینہ واجد کو سلام پیش کرتا ہوں۔

برصغیر میں بجلی کی کمی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ خلاسے جنوبی ایشیاء کی لے جانے والی تصاویر میں یہ سارا علاقہ اندھیروں اورتاریکی میں ڈوبا ہوا ہے ہم چاروںاقوام مل کر ان اندھیروں کو روشن اُجالوں میں بدل دیں گے، مودی نے شاعرانہ ردھم کے ساتھ اعلان کیا کہ پنچھی(پرندے) پیّون(ہوا) اور پانی کو سیاسی سرحدوں میں قید نہیں کیا جا سکتا۔

خوبصورت شاعرانہ طرز تکلم سب کے دل کوبھاتاہے لیکن عملی حقائق بڑے تلخ ہوتے ہیںمودی صاحب بھول گئے کہ وہ سرسبزوشاداب چناب پر غیر قانونی ڈیم بنا کر پانی کو سیاسی سرحدوں میں قید کر رہے ہیں۔وہ شکوہ کناں ہیں کہ آج ہر چھٹا شخص بھارتی ہے لیکن ہمیں اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت نہیں دی جا رہی اس کی سب سے بڑی وجہ بھارتی حکمرانوں کا اپنا رویہ ہے، مسئلہ کشمیر کے مستقل حل تک بھارت سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کا دعویدار نہیں ہو سکتاجس کے لیے مودی سمیت تمام بھارتی نیتاؤں کو اپنا دل بڑا کرنا ہوگا۔

تنگ دلی اور تنگ نظری سے جان چھڑانا ہوگی وہ بنگلادیشی کرکٹر سلمی خاتون کے دیو ہیکل بورڈز کا خصوصی طور پر ذکر کرتے ہوئے یہ بھول گئے کہ خواتین کے بے حرمتی کے سب سے زیادہ واقعات آج بھی بھارت کے شہری علاقوں میں ہورہے ہیں۔نئی دہلی کو تو عالمی سطح پر ’ریپ کیپٹل‘(Rape Capital)کی شہرت حاصل ہے ۔

مودی بھارت کے عالمی کردار کا ذکر کرتے ہوئے پہلی جنگ عظیم میں متحدہ ہندوستان کے 75ہزار جوانوں کی قربانیوں کا ذکرکرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم میںہمارے 90ہزار جوان راہ وفا میں مارے گئے تھے لیکن وہ آسانی سے یہ فراموش کردیتے ہیں کہ ان قربانیوں میں پاکستان کے پختونوں ،پنجابی پوٹھوہاریوںکابھی بہت بڑا حصہ تھا،وہ سیاسی مصلحتوں کی بناء پر تاریخ کو مسخ کررہے ہیںجب کہ تاریخ کاجبراور پکڑبڑی شدید ہوتی ہے اسے وہ بھول رہے ہیں۔تاریخ اپنے مسخ کرنیو الوں کو بے نام و نشان بنا دیا کرتی ہے۔یہی تاریخ کا سب سے بڑا سبق ہے اے کاش!مودی یہ نوشتہ دیوار پڑھ سکتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔