او خدایا! عید پھر آگئی

شاہ فیصل نعیم  جمعرات 16 جولائی 2015
وقت لوگوں کو خستہ حالی میں جینے اور حالات سے سمجھوتا کرنے کے ہنر سے آگاہ کر دیتا ہے۔ فوٹو:فائل

وقت لوگوں کو خستہ حالی میں جینے اور حالات سے سمجھوتا کرنے کے ہنر سے آگاہ کر دیتا ہے۔ فوٹو:فائل

’’امی! ابھی پچھلے سال ہی تو آپ نے مجھے نئے کپڑے لے کر دیئے تھے۔ وہ ابھی بالکل نئے ہیں میں نے اس عید پر اور کپڑے نہیں لینے‘‘۔

یہ ایک 11 سال کی بچی کے الفاظ تھے جو اپنی بیوہ ماں کی تنگدستی کو دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ میں جب بھی کہیں سے ایسے الفاظ سنتا ہوں تو میں سوچتا ہوں کہ حالات و ضروریات کچھ اس انداز سے غریبوں کی پرورش کرتے ہیں کہ اُن کے بچے وقت سے پہلے سیانے ہوجاتے ہیں۔ وقت لوگوں کو خستہ حالی میں جینے اور حالات سے سمجھوتا کرنے کے ہنر سے آگاہ کر دیتا ہے۔

جب بھی کوئی تہوار آتا ہے تو غریب والدین کی پریشانیوں میں اور اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہ سوچ اندر ہی اندر اُن کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے کہ اس تہوار پر بچوں کے کپڑے اور جوتے لینے ہیں تو پیسے کہاں سے آئیں گے؟ وہ سوچتے ہیں کہ کیا کوئی قرض دے کر ہماری  ضرورت پوری کرے گا؟

لوگو! کیا تم جانتے ہو؟ ایسے لوگ کبھی اپنے بچوں کو بازار لے کر نہیں جاتے اور جائیں بھی کس منہ سے کہ بچے تو بچے ہوتے ہیں اور جب باپ ساتھ ہو تو وہ پھر کچھ بھی مانگ لیتے ہیں۔ ایسے میں اگر باپ وہ ضرورت پوری نہ کرسکے تو تن من میں جو آگ لگتی ہے اس کی حدت ایک باپ ہی محسوس کرسکتا ہے۔

لوگو! کیا تم نے عید کے موقع پر ایسے بچوں کو دیکھا ہے جو دکانوں کے شیشوں سے چمٹے چیزوں کو دیکھتے رہتے ہیں اور جب دیکھ دیکھ کر تھک جاتے ہیں تو نہ جانے کیا سوچ کر گھروں کو لوٹ جاتے ہیں؟

لوگو! کیا تم نے اُس ماں کا حال کبھی جانا ہے، کیا اُس کے دل میں جھانک کر دیکھا ہے کہ اُس کی کیا کیفیت ہوتی ہے جب وہ بچوں کو کہتی ہے

’’عید کا کیا ہے عید تو ہر سال آتی ہے۔ میں اگلے سال اپنے لعل کو نئے کپڑے لے کر دوں گی۔ میں اپنی گڑیا کے لیے سوہنا سوٹ سلواؤں گی‘‘۔

لوگو! کیا تم نے گلی کی نکڑ پر موجود دروازے کی اوٹ سے جھانکتے اُس بچے کو دیکھا ہے جو عید والے دن بھی گھر سے باہر نہیں نکلتا؟

کیا تم ایسے لوگوں کو جانتے ہو جو چاند رات کو بازار جاتے تو ہیں مگر چیزوں کی قیمتیں پوچھ کر واپس لوٹ آتے ہیں؟

وہ چھوٹے چھوٹے معصوم بچے جو نئے کپڑے نہ ملنے کے باعث گھروالوں سے ناراض گندے کپڑوں میں ملبوس، برہنہ پا حسرت و یاس کی تصویر بنے گھر کی دہلیز پر بیٹھے رہتے ہیں۔ اگر اس بار ہوسکے تو کچھ پل اُن کے پاس ضرور ٹھہرنا اُن کے سر پر ہاتھ رکھنا اور ہوسکے تو اُن کی کہانی جاننے کی کوشش کرنا۔

عید پر کسی اسٹال پر کھڑے  ہوجانا جہاں اعلیٰ ملبوسات میں لپٹے ہوئے بچوں کا رش ہو جو عید کی خوشیاں دوبالا کرنے کے مختلف چیزیں خرید رہے ہوں وہاں تمہیں کچھ خستہ حال بچے زمیں پر گری استعمال شدہ اور کچھ بچی ہوئی چیزیں اُٹھاتے نظر آئیں گے اگر تم میں انسانیت زندہ ہے تو آنکھوں سے گرتے آنسو اُس کی تصدیق ضرور کریں گے۔

میں آج پھر اسلام کی بات کروں گا یہ کلمہ، نماز، روزہ، حج ، زکوۃ، عیدیں اور دیگر تہوار یہ سب کوئی کھیل نہیں ہے۔ اسلام ایک مکمل دین ہے اس کے ہر پہلو میں کوئی نا کوئی حکمت پنہاں ہے جس کا مقصد صرف اور صرف انسانیت کی بہتری ہے۔ تہواروں کا مقصد خوشیاں بانٹنا، امیر اور غریب کے درمیان موجود فرق کو مٹانا، انسانوں میں احساس زندہ رکھنا اور اپنے اردگرد موجود انسانوں کو انسان تسلیم کر نا ہے۔

اگر آپ کے کچھ پل کسی کو دینے سے اُسے خوشی مل سکتی ہے تو اپنی مصروفیات میں سے چند لمحے نکال لینا، اگر تمہاری دولت کسی کی خوشی کا باعث بن سکتی ہے تو یہ موقع ہاتھ سے جانے مت دینا اور ہاں! اگر تمہارا مسکرانا کسی کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر سکتا ہے تو اس نیکی کو ضرور سمیٹ لینا۔

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہماری ذرا سی نیکی لوگوں کی عید کو بہتر بناسکتی ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔