ناسا نے پلوٹو کی نئی اور حیران کن تصاویر جاری کردیں

ویب ڈیسک  جمعرات 16 جولائی 2015
ناسا کے مشن نیو ہوریزنز کی بھیجی گئی معلومات اور تصاویر نے پلوٹو کے بارے میں تحقیق کا نیا راستہ کھول دیا ہے، فوٹو ناسا

ناسا کے مشن نیو ہوریزنز کی بھیجی گئی معلومات اور تصاویر نے پلوٹو کے بارے میں تحقیق کا نیا راستہ کھول دیا ہے، فوٹو ناسا

نیویارک: ناسا نے خلائی جہاز نیو ہورائزنز سے حاصل ہونے والی پلوٹو کی جو پہلی تصاویر جاری کیں جس سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ یہاں پر شمالی امریکا کے پہاڑی سلسلے راکیز جتنے بلند برفانی پہاڑ موجود ہیں اور اس بات نے سائنسدانوں کو بھی حیرت میں مبتلا کررکھا ہے۔

خلائی مشن نیو ہوریزنزنے گزشتہ روز پلوٹو کے انتہائی قریب سے یعنی صرف 12 ہزار 500 کلومیٹر کی دوری سے گزرتے ہوئے جو تصاویر لی  تھیں اس میں ایک تصویر میں دل کی طرح کی جگہ واضح طور پر نظر آرہی تھی جسے سائنسدانوں کی ٹیم نے کلائیڈ ٹومبا کا نام دیا ہے جب کہ کلائیڈ وہ سائنس دان تھا جس نے پہلی بار 1930 میں پلوٹو کو دریافت کیا تھا۔

اس مشن کے اہم سائنس دان جان اسپینسر نے صحافیوں کو بتایا پلوٹو کی سطح پر قریب سے لی گئی پہلی تصاویر میں نظر آرہا ہے کہ  گذشتہ 10 کروڑ سال  کے دوران آتش فشانی جیسے ارضیاتی عمل کے نتیجے میں یہاں زمینی سلسلہ نمودار ہوا ہے جب کہ اس تصویر میں ہمیں ایک بھی گڑھا نظر نہیں آیا جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سلسلہ بہت زیادہ پرانا نہیں ہے۔

مشن کے چیف سائنسدان ایلن اسٹرن کا کہنا تھا کہ اب ان کے پاس ایک الگ دنیا میں چھوٹے سیارے کی معلومات ہیں جو ساڑھے 4 ارب برسوں کے بعد کی سرگرمی کو ظاہر کرتا ہے جب کہ اس نے سیارے کے بارے میں سائنس دانوں کے سابق نظریات کو بدل کر رکھ دیا ہے لہٰذا اس دریافت سے سائنسدان اب پلوٹو کا ازسرِ نو جائزہ لیں گے۔

اہلن اسٹرن کا تصاویر کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس  سے پتا چلتا ہے کہ پلوٹو میں دل کی شکل والے علاقے  کے کنارے پر 11 ہزار فٹ اونچا ایک پہاڑی سلسلہ ہے جس کا موازنہ سائنسدانوں نے شمالی امریکا کے پہاڑی سلسلے راکیز سے کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پلوٹو پر میتھین، کاربن مونو آکسائیڈ اور نائٹروجن والی برف کی ایک دبیز تہہ ہے جو اتنی مضبوط نہیں کہ اس سے پہاڑی سلسلہ بن سکے تاہم پلوٹو کے درجہ حرارت پر برفیلا پانی بڑے پہاڑوں کو سہارا دیتا ہے جب کہ اس پر 4 سے 6 میل لمبا ایک شگاف ہے جو اس بات کا مزید ثبوت ہے کہ وہاں پہاڑی سلسلہ متحرک ہے۔

نیو ہوریزنز منگل 14 جولائی کو گرینچ کے معیاری وقت کے مطابق صبح 11:50 پر اس سیارے کے قریب ترین پہنچا اور اس کا پلوٹو سے فاصلہ صرف 12 ہزار 500 کلومیٹر تھا۔ پلوٹو کے قریب سے 14 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے گزرتے ہوئے نیو ہورائزنز نے سیارے کی تفصیلی تصاویر کھینچیں اور اس کے بارے میں دیگر سائنسی معلومات اکٹھی کیں۔

نیو ہوریزنزکا 2 ہزار 370 کلومیٹر چوڑے پلوٹو کے قریب سے گزرنا خلا کو جاننے کی تاریخ کا انتہائی اہم لمحہ ہے۔ اس مشن نے ساڑھے 9 سال سفر کیا جس دوران 3 ارب کلومیٹر کا سفر طے کیا گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔