مخلوق خدا پر ظلم

پاکیزہ منیر  جمعـء 17 جولائی 2015

دنیا کی ہر چیز کامیابی ہو یا ناکامی دولت رتبہ سب اس فانی دنیا کے ساتھ ایک دن سب ختم ہو جائے گا۔ انسان یہ تمام باتیں بہت اچھی طرح جانتا ہے پھر بھی چند روز کی زندگی کے پیچھے اپنی دنیا اور آخرت سب برباد کر دیتا ہے ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے جس سے محبت کرنا ہم سب کا فرض ہے ہم سب پر اللہ تعالیٰ کا یہ حق کہ ہم سب ایک دوسرے اللہ کے کنبے سے محبت کریں کہ:

اللہ تعالیٰ نے تو انسان کے لیے اتنے اونچے درجے رکھے تھے، وہ تو انسان کو اپنا دوست اور اپنا ولی بنانا چاہتا تھا لیکن انسان خود غافل رہا۔ اللہ تعالیٰ نے تو انسان کے لیے ہر آسانی مہیا کی لیکن وہ خود غفلت میں رہا۔ کراچی میں اتنی ہلاکتوں کا ذمے دار کون ہے؟ کون ہیں وہ لوگ جو خدا کی مخلوق پر ظلم پر ظلم کر رہے ہیں۔

بلا یہ سوچے سمجھے کہ ایک دن ان لوگوں کو بھی خدا کے حضور حاضر ہونا ہو گا پھر کیا یہ لوگ اپنے پروردگار کو جواب دیں گے۔ روٹی، کپڑا اور مکان کے نام پر ووٹ لینے والی حکومت نے کئی لوگوں کو موت کی نیند سلا دیا کہنے کو تو یہ لوگ گرم موسم کی وجہ سے ہلاک ہوئے اگر وجہ صرف یہی ہوتی تو عرب کے ممالک میں بالکل آبادی نہ ہوتی کراچی میں لوگ گرمی سے نہیں مرے بلکہ ان بے رحم انسانوں کی وجہ سے موت کا شکار ہوئے یہ وہ لوگ ہیں جو بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے ہیں اور دعویدار ہیں عوام کی خدمت کے واقعی ان لوگوں نے عوام کی مدد کی اور ان لوگوں کو ہمیشہ کے لیے اس ملک کی کرپشن، لوٹ مار، قتل و غارت گری، مفلسی، بے بسی، ظلم سے نجات دلوادی اور پرسکون نیند سلا دیا اب ان کے پیارے ہمیشہ ان کی یاد میں تڑپ تڑپ کر مارے گئے۔

میرا سوال اس ملک کے حکمرانوں سے ہے کہ پاکستان میں قدرتی وسائل کی کمی نہیں، اللہ نے اس ملک کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے کسی چیز کی کوئی یہاں کمی نہیں ہے پھر یہ مصنوعی بحران بار بار کیوں عوام کے سامنے لائے جاتے ہیں، چند مفادات کی خاطر قیمتی جانوں سے کھیلا جاتا ہے ان اموات کا ذمے دار گرم موسم نہیں لوڈ شیڈنگ ہے۔

بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے کئی لوگوں کی جان لی ہے عرب امارات میں جتنی گرمی پڑتی ہے اتنی گرمی کراچی میں نہیں پڑتی کراچی میں اموات بجلی نہ ہونے کی وجہ سے ہوئیں۔ عرب امارات میں شدید گرمی ہوتی ہے لیکن وہاں کی حکومت عوام کو بنیادی چیزوں سے محروم نہیں کرتی بجلی کی فراہمی مسلسل جاری رہتی ہے جس کی وجہ سے کبھی ہم نے ایسی خبر نہیں سنی کہ شدید گرمی کی وجہ سے عرب امارات میں ہلاکتیں ہوئی ہیں تو ثابت ہوتا ہے گرم موسم ذمے دار نہیں، ذمے دار صوبائی حکومت اور کے الیکٹرک ہے۔

بجلی کی پیداوار میں اضافے کے دعوؤں کی بنا پر ملک بھر میں لوگ توقع رکھتے تھے کہ کم ازکم رمضان المبارک میں بجلی کی فراہمی کا نظام بہتر ہو گا، بریک ڈاؤن نہیں ہوں گے اور لوڈ شیڈنگ میں نمایاں کمی کی جائے گی۔ پانی و بجلی کے وفاقی وزیر خواجہ آصف نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں یہ یقین دہانی کرائی بھی تھی کہ ماہ مبارک میں سحری اور افطاری کے اوقات کو لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ رکھا جائے گا لیکن یہ توقعات یقین دہانیاں کہیں بھی پوری نہیں ہوئیں اور رمضان کی پہلی ہی رات ملک کے بہت سے علاقوں میں لوگوں نے بجلی نہ ہونے کی وجہ سے سخت تکلیف میں گزاری۔ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی صورت حال اتنی خراب ہوگئی ہے کہ شہر کے کئی علاقوں میں بیس بیس گھنٹے بجلی فراہم نہیں کی جا رہی ہے۔

شدید گرمی کے موسم میں رمضان کی مصروفیات کے دوران بجلی کی یہ عدم فراہمی شہریوں کے لیے انتہائی اذیت ناک ہی نہیں سخت اشتعال انگیز بھی ہے۔

10 سال پہلے 2005 میں KESC کے انتظامی امور نئی انتظامیہ کے حوالے کیے گئے، واضح رہے کہ کے ای ایس سی جو خسارے میں چلنے والا ایک حکومتی ادارہ تھا اور عوام کو بجلی کی مطلوبہ سہولتیں فراہم کرنے سے قاصر تھا اس ادارے کو غیر ملکی سرمایہ کاروں کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا تاکہ کراچی میں لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کو سالانہ اربوں روپے کے خسارے سے بچایا جا سکے نومبر 2005ء میں حکومت نے کے ای ایس سی کے 71 فیصد مالکانہ حقوق سعودی کمپنی الجمایہ گروپ اور کویت کے NIG گروپ کو فروخت کر دیے گئے۔ اس تمام صورتحال میں بھی بدقسمتی سے کراچی والے پھر بھی لوڈ شیڈنگ سے نجات نہیں پا سکے۔

ملک میں سورج سے 29 لاکھ اور ہوا سے 50 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ 2030ء تک ہوا اور سورج سے 9700 میگاواٹ بجلی پیدا ہو سکتی ہے بھارت ہوا سے بجلی پیدا کرنے والا 5 واں ملک ہے ونڈ بجلی کی پیداوار کے اکثر مقامات پاکستانی سرحد سے منسلک ہیں۔ ہائیڈل بجلی کی پیداوار پر بہت زیادہ انحصار کرنے اور اس مقصد کے حصول کے لیے غیر روایتی ذرایع بروئے کار نہ لانے کی وجہ سے گرمیوں میں خالی ڈیم اور سردیوں میں زرعی مقاصد کے لیے پانی کی ضرورت نہ ہونے کے باعث آج ملک توانائی کے جس زبردست بحران کا شکار ہے۔

اس سے ایک طرف ہزارہا صنعتیں بند ہو گئیں کئی ہزار لوگ بے روزگار ہو گئے تو دوسری طرف لوڈ شیڈنگ کے باعث شہر اور دیہات تاریکی میں ڈوبے ہوئے ہیں اور یہ تاریکی کئی روشن زندگی میں اندھیرا کر چکی ہے کئی گھر اب کبھی اس تاریکی سے باہر نکل ہی نہیں پائیں گے۔

کیونکہ جو گھروں کو روشن کرنے کے ذمے دار تھے کسی کا باپ کسی کا بھائی کسی کا بیٹا اس شدید گرم موسم اور ظلم برساتا کے الیکٹرک کی وجہ سے ان کی زندگی تاریک ہو چکی ہے۔ کے الیکٹرک کا ظلم تو سب ہی لوگوں کے سامنے ہیں جہاں کے الیکٹرک نے اپنی ذمے داریاں نہیں نبھائیں وہیں لوگ شکایت اسپتالوں اور قبرستان کے گورکن کی بھی کرتے نظر آئے اسپتالوں میں بدنظمی دیکھی گئی وہاں جہاں زندگی دی جاتی ہے وہاں کا منظر ہی کچھ اور تھا بدنظمی اپنے عروج پر تھی ۔گورکن اپنے منہ مانگے دام زمین دیتے نظر آئے۔

کئی لوگ جو اتنی مہنگی زمین نہیں لے سکتے تھے وہ غریب بے چارے ظلم کے مارے اپنے پیاروں کو کئی دن دفن نہ کر پائے بالآخر ایدھی کے ادارے نے کئی افراد کو کفن دن کا ذمے لیا۔ آخر یہ سب ہمارے ملک میں کیا ہو رہا ہے سبھی لوگ اتنے ظالم کیوں بن گئے ہیں سب ہی کی زندگی کا بس ایک ہی مقصد نظر آتا ہے اور وہ ہے پیسہ، دولت بس انسان کے اندر کی انسانیت اب کہیں نظر ہی نہیں آتی کوئی بھی اپنی ذمے داریوں کو صحیح سے پورا نہیں کر رہا ہے ہم سب ہی لوگوں نے اللہ کے بنائے ہوئے احکامات کو چھوڑا ہوا ہے ہم مخلوق خدا کی خدمت نہیں ان پر ظلم پر ظلم کرنے میں مصروف عمل ہے۔

اس ایمرجنسی میں حکومت کو بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے تھا۔ روٹی، کپڑا، مکان دینے کے جو وعدے کیے گئے تھے وہ حکومت کم ازکم مرنے والوں کو کفن دفن دیتی یہ کام بھی ایدھی والوں نے کیا حکومت بس تماشا دیکھتی رہی ویسے اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگ لوڈ شیڈنگ کی اذیت کیا جانیں جو خود 24 گھنٹے A.C میں رہتے ہوں وہ گرمی کی تپش کیا جانیں۔

عوام کو سستی بجلی فراہم کرنے کے لیے وزارت بجلی و پانی کے الیکٹرک کو سبسڈی دیتی ہے مثال کے طور پر ملک میں بجلی کی فی یونٹ قیمت درحقیقت 13.76 روپے ہے لیکن حکومت 5.10 روپے کی سبسڈی دے کر صارفین سے صرف 8.66 روپے فی یونٹ قیمت وصول کرتی ہے مگر حکومت کی سبسڈی وقت پر نہ ملنے کی وجہ سے کے الیکٹرک مطلوبہ مقدار میں آئل نہیں خرید پاتا ایندھن نہ ہونے کی وجہ سے مطلوبہ بجلی پیدا نہیں ہو پاتی اور کے الیکٹرک لوڈ شیڈنگ کرتی ہے۔

لیکن کے الیکٹرک کو ایسی پالیسی بنانی چاہیے تھی کہ جب حکومت کی طرف سے سبسڈی دینے میں دیر ہو تو کے الیکٹرک کا کام چلتا رہے ادارے کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنی بجلی کی پیداوار میں اضافہ کرے۔

توانائی کے ماہر بدستور اس رائے پر قائم ہیں کہ غیر روایتی ذرایع استعمال میں لا کر روز بہ روز شدید ہوتے اس بحران کو کم اور بالآخر ختم بھی کیا جا سکتا ہے بڑھتی ہوئی آبادی اور نئی صنعتوں کے قیام کے لیے تھرمل اور ہائیڈرل کے علاوہ غیر روایتی ذرایع سے بجلی پیدا کرنے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی ساحلی پٹی میں ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے ٹھوس امکانات روشن ہیں۔ (یو ایس ایڈ کے تعاون سے کیے گئے ایک سروے کے مطابق ملک میں ہوا سے 30 لاکھ 46 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے)

یہ ملک قدرتی وسائل سے مالا مال ہے ہمیں ملک سے وفادار ہونا پڑے گا تبھی تبدیلی آ سکتی ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔