خوش آمدید ایران

جاوید قاضی  جمعـء 17 جولائی 2015
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

اس ہفتے بہت کچھ لرزاں ہوا ۔ساڑھے نوسال کا طویل سفر یا تین ارب میل پارکرکے بالآخر پلوٹو کو بہت قریب سے دکھانے کے لیے خلائی سائنسدانوں کا بھیجا ہوا مصنوعی سیارہ بہت حساس کیمرا  لے کر پہنچ گیا۔ ہاں مگر اس زمانے کا زیرک اسٹیفن ہاکنگ کہتا ہے کہ بنی نوع انسان قوی ممکن ہے کہ اس دھرتی ختم ہونے سے پہلے یہاں سے ہجرت نہیں کر پائے گا۔

اور دوسری طرف دنیا کے جدید ریاستی نظام کتنا قرضہ لے کر اپنے آپ کو چلاسکتے ہیں اس حقیقت کو فاش کردیا۔ یونان کے مالی بحران نے، اتنا بھیانک کے جیسے کہہ رہا ہو ’’ہم تو ڈوبیں ہیں صنم‘ تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘‘۔ مگر یہ سب باتیں یونان کی دیومالاؤں جتنی طویل قامت ہیں، الگ بحث مانگتی ہیں چھید چاہتی ہیں۔ سو ہم کریں گے مگر آج میرا کالم ایران کے نام۔ میری اردو کی امان فارسی بدلنے والوں کے نام۔ آج سارا ایران خوشی سے جھوم رہا ہے۔

ایک ایسا واقعہ جو 1979 کے انقلاب کے بعد ان کی تاریخ کا دوسرا بڑا واقعہ ہے۔ کوئی چھوٹی تہذیب تھوڑی تھی ایران۔ اس کے ایک طرف ترکی اوردوسری طرف یونان۔ اس کا سلسلہ تہذیبوں کے ساتھ تھا۔ بالآخر ایران نے اپنے فہم سے کام لیا اور اپنے آپ کو دنیا سے جوڑ لیا۔ وہ انتہا پرست سوچ جو احمدی نژاد یا اس سے پہلے پائی جاتی تھی اس کو کم کرتے ہوئے دور اندیش، بردباد اور برداشت کی قومی سوچ اجاگر کرنے میں کامیاب  ہوگیا اور اپنے ایٹمی پروگرام کو دنیا کے لیے کھول دیا کہ ایران دنیا کو باورکراتا ہے کہ وہ ایٹم بم نہیں بنائے گا۔ تو پھر دنیا نے اس کے راستے بین الاقوامی منڈی کے لیے کھول دیے۔

دنیا میں خام تیل کی رسد اب ضرورت سے زیادہ ہوگی۔ تیل کی قیمت اور گرے گی۔ سعودی عرب کی تیل سے سیاست پر اثرورسوخ پیدا کرنے کا داؤ پیچ کم ہوا۔ ایک طرف یونان ہے کہ جسے 55 ارب ڈالر کا پیکیج دوبارہ قرض کی صورت میں ملا ہے تو دوسری طرف ایران ہے جس کی کل معیشت 270 ارب ڈالرکی تو بین الاقوامی بینکوں اور خام تیل کی صورت میں 130 ارب ڈالر کسی بھی وقت داخل ہوں گے تو ایران کی معیشت میں اتنی سکت نہیں کہ اتنی بڑی خوشی برداشت کرسکے۔

لیکن ایران کا دنیا کے ساتھ ہونے والا معاہدہ تب سے اپنی اصلی حیثیت میں آئے گا جب امریکا کے دونوں ایوان یعنی کانگریس اسے Ratify یا دوسرے الفاظوں میں منظور کرتی ہے۔ ادھر بھی بہت کشمکش ہے ری پبلکن پارٹی پر بازو کی طاقت سے معاملات حل کرنے کی ذہنیت ہے جس طرح انھوں نے عراق پر حملہ کرکےMD W یعنی صدر صدام کی حکومت پر خطرناک و مہلک بم و ہتھیار بنانے کا الزام لگا کر حملہ کیا تھا۔ہمارے لیے تین بڑے واقعات جو اس ہفتے اپنی عقل سے بیٹھے اس میں تین بڑے سبق پڑے ہیں۔ ایک تو وہ جسے اقبال کہتے تھے: ’’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں‘ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں‘‘۔

پلوٹو پر انسانی آنکھ پہنچنے سے یہ سبق کہ کائنات میں کتنی وسعتیں ہیں اور بنی نوع انسان کے لیے ابھی نہ جانے کیا دیکھنے کو پڑا ہے، خدا کی بنائی کائنات کتنے بڑے مظہروں سے مالا مال ہے اور دوسری طرف ہم ہیں کہ فرقہ واریت میں بٹے پڑے ہیں۔ جہالت کے یہاں ڈیرے ہیں۔

ہمیں مہذب دنیا کے ساتھ چلنا پڑے گا کہ ہمیں اپنی آیندہ کی نسلوں کو علم کے زیور سے مالا مال کرنا پڑے گا۔اور دوسرا سبق ہمیں یونان کے قرضوں سے پیدا شدہ بحران غیر ضروری اخراجات پر قابو اور غیرملکی قرضوں پر انحصار کم نہیں کیا تو ہم بھی یونان کی طرح ایک گہرے بھنور میں پھنس سکتے ہیں۔اور تیسرا سبق ہمیں ملتا ہے کہ کس طرح ایران اپنے اندر انتہا پرست ملائیت کو خیرباد کہتا ہوا اب ایک فلاحی ریاست بننے کے لیے مفاہمت کی ایک عظیم مثال کو قائم کرنے چلا ہے ۔

اگر ایران کی اس پالیسی کو پاکستان اپنا لے تو کسی انقلاب سے کم نہ ہوگا ۔ ایران سمجھتا ہے کہ وہ اندر سے کھوکھلا ہو رہا ہے۔ یہی سوچ گوربا چوف کی بھی تھی کہ اسے امریکا سب سے بڑا حریف نظر نہیں آرہا تھا۔ اسے سوویت یونین کا سب سے بڑا حریف اس کی اپنی Narrative یا سوچ میں نظر آرہا تھا۔ لیکن اس وقت بہت دیر ہوچکی تھی۔ یہاں چائنا نے ڈنگ ژیاؤ پنگ کی سوچ کو اپنایا اور ماؤزے تنگ کے فلسفے میں ترمیم کی۔ آج چائنا دنیا کی عظیم طاقت بن چکا ہے۔

بلکہ اس طرح پاکستان کے اندر بھی پچھلے دو سالوں میں بڑی تبدیلی نمایاں ہوئی ہے۔ پاکستان ایک مہذب ریاست بننے کی راہ پر اب چل پڑا ہے۔ لیکن اسے ابھی بہت سارے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایران ہمارا پڑوسی ملک ہے۔ صدیوں سے برصغیر پر اس کا اثر رہا ہے۔ دہلی کے مغل بادشاہوں کی سرکاری زبان فارسی رہی ہے اور جب بٹوارا ہوا تو 1947 کو معرض وجود میں آتے ہوئے اس پاکستان کو سب سے پہلے اگر کسی ملک نے تسلیم کیا تھا تو وہ ایران تھا۔اور سب سے پہلے پاکستان میں کوئی باہر سے ملکی سربراہ آیا تھا تو 1950 میں وہ شہنشاہ ایران رضا پہلوی تھے۔ ایران نے 1965 کی جنگ میں پاکستان کی بھرپور حمایت کی۔

نہ صرف حمایت بلکہ جنگی سازو سامان بھی فراہم کیا اور ہزاروں نرسوں و میڈیکل کا عملہ بھی بھیجا۔بالکل اس بات کے بھی ثبوت ملیں گے کہ جو محمد علی جناح کی نظر میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کے اہم ستون تھے اس میں ایران کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔ راجا غنضفرعلی کو ایرانی سفیر بناکر بھیجا۔ سرد جنگ کے زمانوں میں پاک و ہند کے کشمیر کے حوالے سے تضادات میں ایران نے کھل کر پاکستان کے موقف کی حمایت کی اور کشمیر کے لوگوں کے آزاد وطن کے حق کو تسلیم کیا۔

1949 میں لیاقت علی خان نے تہران یاترا کی اور پاک ایران دوستی کے سمجھوتے پر دستخط کیے۔ ایران اور پاکستان آزاد بیوپار کے سمجھوتے پر بھی دستخط کرچکے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان عرب قوم پرست جمال ناصر کی حمایت کر رہا تھا۔ تو اس وقت ایران، ترکی کے ساتھ پاکستان نے Ceuto کے تحت اتحاد بنایا ہوا تھا۔1971 کی جنگ ہوئی تو شہنشاہ ایران نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ہم سو فیصد پاکستان کے ساتھ ہیں۔لیکن 1974 کی اسلامی سربراہی کانفرنس میں شہنشاہ ایران نہیں آئے۔اس کی وجہ کرنل قذافی کا کانفرنس میں آنا تھا یا ایران عرب اتحاد سے ہمیشہ خائف رہا ہے۔

ہاں لیکن جب بھی بلوچستان میں شورش ہوئی ایران پاکستان کے ساتھ رہا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ پاکستان میں بلوچ شورش خود ایران کے اندر موجود بلوچوں کو مضبوط کرتی تھی۔ بلوچ شورش کو کچلنے کے لیے 30 کوبرا ہیلی کاپٹر بھی ایران نے پاکستان کو دیے۔اور پھر 1977 میں یوں جنرل ضیا شب خوں مار بیٹھے تو 1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب برپا ہوا۔ ضیا کا وہ بیان ابھی بھی ریکارڈ پر پڑا ہے کہ خامنائی اسلامی جہد کے امین ہیں۔ آغا شاہی کو فوراً تہران نئے سرے سے تعلقات قائم کرنے کے لیے بھیجا۔ لیکن سرد جنگ کے زمانے میں ایران اور پاکستان دونوں امریکا کے اتحادی تھے اس بار امریکا ایران کو اپنا عظیم دشمن سمجھتا تھا۔ پاکستان کے تعلقات ایران کے ساتھ شہنشاہ ایران والے نہ رہے۔ پھر بھی خامنائی کا یہ بیان کہ ’’پاکستان کے ساتھ تعلقات اسلام کے حوالے سے ہیں۔‘‘

پاکستان سب سے پہلا ملک تھا جس نے ایران کے انقلاب کو تسلیم کیا ایک طرف جب ایران عراق جنگ میں امریکا عراق کی بھرپور حمایت کر رہا تھا لیکن پاکستان کے لیے ایران کے ساتھ تعلقات امریکا سے مخالفت مول لے کر رکھنا ممکن نہ تھا ۔ جہاں تک گیس پائپ لائن کا تعلق ہے تو ایران نے 1100 کلومیٹر اپنے حصے کا کام پورا کرکے پاکستان کو کہا کہ وہ اپنا 1000 کلومیٹر کا کام پورا کرلے لیکن پاکستان اس وقت امریکا کے اور یورپی یونین کے پریشر میں آکے ایسا نہ کرسکا۔ 1000 میگاواٹ بجلی ہم اب بھی ایران سے لیتے ہیں یا اس کے لیے سارا کام مکمل ہے۔

ایران کی خواہش کہ پاکستان اور ایران کے بیچ موٹروے بنایا جائے۔پاکستان کے توانائی کے بحران کے خاتمے کے لیے ایک نئی کھڑکی ایران کی حیثیت میں کھلتی ہے اور یقینا ان تعلقات سے سعودی عرب کو کوئی خوشی نہیں ہوگی لیکن سعودی عرب کو یہ سمجھنا پڑے گا کہ یہ پاکستان کی بقا کا مسئلہ ہے اور اس میں پاکستان اپنے مفادات کے پس منظر میں ایسا کرسکتا ہے۔

یقینا ہندوستان کو بھی بہت دکھ ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس گیس پائپ لائن سے ہندوستان کو بھی مستفید ہونے دیا جائے اور اس طرح ہندوستان کی مجبوری ہوگی کہ وہ پاکستان کے خلاف سازشیں کرنا بند کردے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔