عجب منافقانہ رویہ ہے

آفتاب احمد خانزادہ  جمعـء 17 جولائی 2015

ہمارے ہاں امریکا کے بارے میں ایک عجیب رویہ ہے بعض لوگ مختلف حوالوں سے امریکا پر الزامات عائد کرتے ہیں خصوصاً ہمارے مذہبی انتہاپسند لیکن جانا بھی امریکا ہی چاہتے ہیں۔

یہ عجب منفقانہ رویہ ہے بجائے اس کے کہ ہم ترقی یافتہ ممالک کی اچھائیوں کو سمجھنے کی کوشش کریں ان اسباب کو جاننے کی کوشش کریں کہ وہ کس طرح اس ترقی تک پہنچے ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ ہم ان کی اچھائیوں کو جاننے کے بجائے برائی کا پہلو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا، امریکا نے کیا کیا ہے میں امریکی معاشرے کے طرز زندگی کے بارے میں بتانا چاہتاہو ں کہ پچھلے دنوں میں نے چند ایام امریکا کے مختلف شہروں جس میں نیو یارک، شکاگو، لاس اینجلس، لاس ویگاس ، سین فرانسسکو ، ایٹلانٹک سٹی ، مشی گن شامل ہیں کو دیکھنے میں گذارے ہیں اور بھرپورکو شش کی کہ میں آزادانہ مشاہدہ کر سکوں، اسی لیے کسی بھی بااثر شخصیت سے ملاقات سے گریز کیاتاکہ جو خیالات ہوں وہ میرے اپنے ہوں اور چند دنوں میں جو عکس میرے ذہن میں بنا ہے وہ میں بیان کر سکوں۔

ایئر پورٹ پر اترتے ہی سب سے اہم تبدیلی جو نظر آتی ہے وہ ان کے رویے کی ہے ہر شخص ہنستا ہوا آپ کو خوش آمدید کہتا نظر آئیگا اور دعا دے کر رخصت کر یگا یہ جملہ زبان زد عام ہے کہ آپ کا دن بخیریت اور اچھا گذرے، دوسرا عکس جو فوری نظر آتا ہے وہ امریکی معاشرے کا نظم و ضبط ہے ہر جگہ آپ اپنی باری پر اپنی چیز حاصل کرتے ہیں اور قطار میں کھڑے رہتے ہیں نہ کوئی کسی سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے اور نہ کوئی کسی کو پیچھے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے وہاں سب لوگ برابر ہیں ۔

اسی طرح ٹریفک بھی چلتاہے ان کی زندگی میں ٹریفک میں نظم و ضبط کا اثر بہت زیادہ ہے یاد رہے یہ ہی نظم وضبط قانو ن کی حکمرانی کی بنیادی ابتدا ہوتی ہے تمام گاڑیاں کھینچی گئی لکیروں کے درمیان چلتی ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان ہی لکیروں سے پورے امریکا کو کنٹرول کیاجارہا ہے غلطی کرنے والوں کو اس طرح پکڑا جاتا ہے کہ انھیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ پولیس کس طرح آگئی ۔ پولیس والا روکنے کا اشارہ نہیں کرتا بلکہ پولیس کی گاڑی کی بتیاں چلنا شروع ہو جاتی ہیں جسے دیکھ کر گاڑی کا ڈرائیور خود بخود اپنی گاڑی سڑک کنارے روک لیتا ہے اور پولیس والا غلطی کرنیوالے کو ٹکٹ دے کر رخصت ہوجاتا ہے۔

تیسر ی اہم ترین بات ہے ان کی صفائی ہر شہر ہر علاقہ ہرگلی صفائی کا نمونہ پیش کررہی ہوتی ہیں، گھر سے لے کر باہر تک مثالی نمونہ ۔ جگہ جگہ آپ کو بڑے بڑے ڈسٹ بن دیکھنے کو ملتے ہیں ہر شخص ٹشو پیپر سے لے کر خالی بوتل تک سٹرک پر پھینکنے کے بجائے ڈسٹ بن میں ڈالنا اپنا فرض سمجھتا ہے، اگر کوئی اجنبی غلطی سے سڑک پر کوئی شے پھینک دیتا ہے تو گذرنے والے اشخاص اسے ناگواری کی اس نظر سے دیکھتے ہیں کہ پھینکنے والا شخص شرمندہ ہو جاتا ہے۔ سڑک ہو یا گلی جگہ جگہ آپ کو اپنا شہر یا گلی صاف رکھنے کی ہدایات دیکھنے کو ملتی ہیں جگہ جگہ سٹرکوں پر پبلک ٹوائلٹس بنے ہوئے ہیں۔ ان میں صفائی ایسی ہوتی ہے کہ آدمی حیران ہوجائے۔ ہرگھرکے اندر اور باہر بڑے بڑے ڈسٹ بن موجود ہوتے ہیں، ہفتے کے آخر میں رات کے کسی پہر ان ڈسٹ بن کوخالی کرکے بڑی بڑی تھیلیوں کو اپنے گھر کے باہر رکھ دیاجاتاہے۔

صبح ہونے سے پہلے پہلے میونسپلٹی کی گاڑیاں اسے اٹھا کر لے جاتی ہیں لوگ جب صبح اٹھ کر اپنے گھر سے باہر نکلتے ہیں تو کچر ے کے تھیلے غائب ہوتے ہیں۔ یاد رہے کہ سٹرکوں اور گلیوں میں بنے ڈسٹ بن کی صفائی کا کام سارا دن ہر گھنٹے بعد مسلسل جاری رہتا ہے ۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام حیران کن ہے آپ اپنی منزل پر پہنچنے کے لیے ہر پانچ منٹ بعد ٹرین یا بس پکڑسکتے ہیں آپ اپنے موبائل پر ٹرین یا بس کے آنے کا وقت معلوم کرسکتے ہیں اور جو وقت ان کے آنے کا لکھا ہوا ہوتا ہے عین اسی وقت آپ اپنے سامنے اس ٹرین یا بس کو موجود پاتے ہیں۔

آپ کی معلومات اور مدد کے لیے ٹرین اور بس میں نہ صرف یہ کہ اسٹاپ کی Annoucement مسلسل جاری رہتی ہے لہذا آپ کے بھٹکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اگر آپ کو کوئی معلومات درکار ہوں تو آپ ٹرین یا بس میں موجود اپنے ہمسفر سے پوچھ سکتے ہیں ۔لوگ ناقابل یقین حد تک ہر وقت آپ کی آپ کی زبان نسل اور مذہب سے بے نیاز مدد کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ خواتین کو گھورنا جرم ہے اور اس کی باقاعدہ سز ا بھی ہے زبردستی جسم سے جسم کو Touch کرنا جرم ہے ، شکایت پر سزا یقینی ہے ۔ لوگ اپنے کام اپنے علاقے اپنی گلی اپنے ملک کی نہ صرف عزت کرتے ہیں بلکہ اس سے محبت بھی کرتے ہیں وہاں سب برابر ہیں سب کو یکساں حقوق حاصل ہیں وہی مالک ہیں وہی نوکر بھی ہیں۔

سب لوگ اپنا اپنا کام خود کرتے ہیں سب ایک دوسرے کو عزت دیتے ہیں اورعزت کرتے ہیں ان کے معاشرے میں اس قدر انسانیت پائی جاتی ہے کہ آدمی حیران و پر یشان ہوجائے ۔ایک رات میں نہ سوسکا اور پوری رات یہ سوچتا رہا کہ آخر ہمارے بعض عناصر پاکستان میں بیٹھ کرکیوں دن رات امریکا کے بارے میں غلط پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں جب کہ میں نے تو امریکی معاشرے میں کوئی خرابی یا برائی نہیں دیکھی یہاں تو انسان کو دیوتا کا درجہ دیا جاتا ہے اور انسان کی دیوتا کی طرح پوجا اورخیال کیا جاتا ہے اور میں جتنے پاکستانیوں سے ملا جو امریکا میں آکر بس گئے ہیں، وہ سب کے سب انتہائی خوش وخرم وخوشحال زندگی گذار رہے ہیں۔

اپنے مذہبی فرائض بھی آزادی کے ساتھ ادا کررہے ہیں، تو میں بڑی سوچ و بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ ہمارے بعض عناصر اس لیے امریکا کی برائیاں کرتے رہتے ہیں کہ ان کا ذاتی مفاد اسی میں ہے اور یہ کہ ان کی ساری خرابیاں اور برائیاں چھپی رہیں تاکہ لوگ اپنی اس بدحالی، بدنظمی اورغلامی میں خوش ہوتے رہیں اوران کا کاروبار اسی طرح چلتا رہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔