عجائبات ِ فرنگ

شیخ جابر  منگل 21 جولائی 2015
shaikhjabir@gmail.com

[email protected]

’’اِس اطراف و جوار میں لکھنؤ بھی غنیمت ہے کہ یہاں کچھ ایجاد صنعت ہے۔ لیکن جو قدرتِ اختراعی اور صنعت و کاری گری فقیر نے ملک انگلستان میں دیکھی یہاں عشر عشیر بھی اُس کے نہ پائی۔ شمہ یہ کہ وہاں کلین آہنی توپ اور بندوق اورتلوار اور کاغذ اور کپڑا وغیرہ کہ کھڑی کی ہیں۔ کہ گھڑی بھر میں اُس سے ایک رقم کی ہزاروں چیزیں بنتی ہیں۔

یہاں کوئی اِس کی خبر نہیں رکھتا ہے۔ بلکہ نام و نشان بھی نہیں جانتا ہے۔ رئیس ہندوستان  خوابِ خرگوش میں پڑے رہتے ہیں۔ بٹیر یا مرغ یا کبوتر یا پتنگ بازی وغیرہ میں عمر برباد کرتے ہیں۔ کوئی تحصیل علم و ہنر کا شوق نہیں رکھتا ہے۔ اُمورات کار آمدنی اور فنون سپہ گری یا شکار شیر وغیرہ سے کاہلی کرتا ہے۔ صد آفریں امیران انگلستان پر کہ اُن میں سے کوئی تمام دن میں ایک گھڑی اپنی برباد نہیں کرتا۔ ہر کوئی اپنے کام میں شام تلک مصروف رہتا ہے۔

رات کو عیش و عشرت کرتے ہیں۔ خیال سیر ملکوں کا سر میں رکھتے ہیں۔ عورتیں اُن کی بھی تضیع اوقات نہیں کرتی ہیں۔ علم و ہنر میں مشغول رہتی ہیں۔ بہ خلاف ہندوستان کے کہ مرد یہاں کے اُمور بے جا میں صرف اوقات کرتے ہیں، اور اپنی عورتوں کو ایک مکان میں قید کرکے دنیا و مافیہا سے غافل کردیتے ہیں۔ سوائے دیوارِ خانہ یا چھت آسمان کہ اُن کو نظر نہیں آتا‘‘۔یہ سطور اردو کے سب سے پہلے سفرنامے ’’عجائبات فرنگ‘‘ سے لی گئی ہیں۔

میرے سامنے جو نسخہ ہے اُس کے صفحہ اوّل پر لکھا ہے۔ ’’عجائباتِ فرنگ۔ یعنی کیفیت سفر یوسف خان کمل پوش ملک انگلستان میں۔ یہ کتاب 1847 میں بمقام دہلی طبع ہوئی تھی اور چوں کہ مصنف اُس کا باشندہ لکھنؤ کا تھا اور مالک مطبع سے بھی اُس کی ملاقات تھی تو یہ تحفہ یادگار باشندہ اس صوبے کا سمجھ کر حسب تحریک مسٹر جوزف جوہانس صاحب جو اخلاق و مروت میں بے عدیل اورفن فوٹو گرافک وغیرہ صناعات میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ماہ جنوری 1898 مطبع منشی نول کشور میں بہ طبع مزین مطبوع ہوئی‘‘۔

یوسف خان کمبل پوش نے یہ سفر 1837 میں کیا تھا۔ آپ کا مندرجہ بالا سفرنامہ 1847 یا 1898 میں طبع ہوا تھا۔ آپ 1898 میں شایع ہونے والے اردو کے اِس پہلے سفرنامے سے لے کر آج تک کے شایع ہونے والے سفرناموں کو دیکھیں۔ آپ کو اِن میں چند چیزیں مشترک نظر آئیں گی۔ ہر سفرنامہ نویس مغرب کی مدح سرائی میں مشغول نظر آتا ہے۔

وہاں کی ترقی آنکھوں کو خیرہ کیے دیتی ہے۔ وہاں کے لوگ انھیں بہت اچھے لگتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اپنا ملک اور اپنے لوگ انھیں بہت بُرے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو اور اپنے لوگوں کو شدید برا بھلا کہتے ہیں۔ آئیے دیکھیں یوسف کمبل پوش نے کیا کہا۔ ’’گاڑی پر سوار سیر دیکھتا جاتا تھا۔

ہر گاؤں کو آباد، آدمیوں کو خوش سلیقہ پایا۔ کنواریاں خوب صورت اپنے اپنے کھیتوں میں بیٹھیں اناج کاٹتیں۔ باوجود بے مقدوری کے بڑے بناؤ سنگھار سے تھیں۔ بلکہ بول چال و حسن و جمال میں امیر زادیوں ہندوستان سے بہتر معلوم ہوتیں۔

لڑکے پری زاد جا بہ جا جمع ہو کر عقل مندوں کی طرح بیٹھے باتیں کرتے۔ لڑکپن میں وہ دانائی حاصل کی کہ ہندوستان کے بڈھوں میں بھی نہیں ہوتی‘‘ (ص 16)۔ سفرنامہ مغرب کوئی سا بھی کیوں نہ ہو جگہ جگہ ہمیں پتا چلتا ہے کہ ہم بہت نکمے، بہت برے، بے وقوف اور گھامڑ ہیں اور مغرب کے پری زاد لڑکے بالکے بھی ہمارے پیران بزرگ سے زیادہ عقل مند ہیں کہ بزرگی بہ عقل است نہ بہ سال وغیرہ۔ آخر ایسا کیا ہے جو ہمارے سیاحوں کی سٹی گم کردیتا ہے۔ وہ مبہوت اور مسحور ہوجاتے ہیں؟ ایک خیال یہ بھی ہے کہ وہ ہے مادی ترقی، ایجادات، جدید سائنس۔

مسلمانوں کے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ ’’خلافت‘‘ کے خاتمے کے بعد گویا وہ ایک مضبوط ترین روحانی اور سیاسی مرکز سے جدا ہوئی منتشر بھیڑوں کی مانند تھے۔ اور خلافت ظاہر ہے کہ کوئی چھوٹی موٹی بادشاہت تو تھی نہیں۔ انسانی تاریخ کی طویل ترین اور وسیع ترین حکومت۔ ایسا رعب و دبدبہ، ایسا عوامی نفوذ و محبت چشمِ فلک نے نہیں دیکھی تھی۔ تو ایسی خلافت کے خاتمے کے اپنے اثرات تھے، سیاسی، سماجی، معاشی، نفسیاتی غرض ہر سطح پر۔ پھر اُس سے قریباً متصل صنعتی انفجار۔ نو آبادیاتی لوٹ مار کے بطن سے جنم لیتی جدید سائنس، نت نئی ایجادات۔ مادے کی نئی نئی شکلیں۔

انھوں نے  انسانی زندگی کے ہر گوشے کو متاثر کیا۔ تو ہمارے سیاح، سفرنامہ نویس کیوں نہ ہوتے؟ انیسویں صدی سے پہلے دنیا کی اکیس تہذیبیں کبھی اس قسم کے تجربات سے دوچار نہیں ہوئیں۔ کسی علم اور ذریعے نے ان کی زندگیوں، معاشرت، تہذیب، حالات، ذہن اور قلب کو اس شدید طور پر متاثر نہیں کیا تھا جتنا کہ جدید ایجادات نے کیا۔ عہد حاضر میں سائنسی قوت علمیت سماجی تبدیلی کا ذریعہ بنی۔

سوال یہ ہے کہ کیا ایجادات اور مادی ترقی اتنی قوت کی حامل ہیں کہ زندگی کے ہر گوشے پر اثر انداز ہوسکیں؟ یہ خیال کلی طور پر درست نہیں۔ تبدیلی کا اصل سبب سائنسی ایجادات نہیں بلکہ اس جدید سائنس و ٹیکنالوجی بلکہ ٹیکنوسائنس کے قلب اور باطن میں پیوست جدیدیت کی مابعدالطبیعیات پر مشتمل سائنسی نظریات ہیں، ایجادات ان نظریات کا مادی پیکر ہیں۔ تاریخی طور پر فکر اور نظریہ دنیا کو تبدیل کرتا رہا ہے صرف اشیا ایجادات، وسائل، دنیا کو تبدیل کرنے سے قاصر رہتی ہیں۔

نظریہ ایک خاص علمیت، تاریخ، تہذیب، زمان اور مکان ایک خاص تصور نفس، تصور علم، تصور انسان، تصور معاشرت و معیشت و اقدارمیں محدود و مقید ہوتا ہے۔ اس سے ماورا نہیں ہوتا لہٰذا وہ ایک خاص تعقل، خاص ہدف کی طرف تجربات کو اور زندگی کے رخ کو موڑ دیتا ہے۔ ایجاد کے پیچھے جو نظریہ ہوتا ہے وہ خاص ما بعدالطبیعیات کا حامل ہوتا ہے اور ایجاد اسی مابعد الطبیعیات کے فروغ، نفوذ، ارتقا اور تسلط کو ممکن بناتی ہے۔

جدید مغربی فلسفے کے زیر اثر جدید سائنس کی ہر ایجاد ٹرائے کی جنگ میں استعمال ہونے والا ’’ٹروجن ہارس‘‘ ہوتی ہے جس کے بطن سے خاص اقدار، روایات، تہذیب اور تصورات کا لشکر نکلتا ہے۔ جدید سائنس معاشروں، اذہان، قلوب، افکار کو براہ راست نہیں ٹیکنالوجی کے اندر حلول کرکے ایجادات کے ذریعے تبدیل کرتی ہے۔ نتیجے میں کچھ افراد کو اپنا معیار زندگی یقیناً بہتر محسوس ہونے لگتا ہے۔ لیکن کس قیمت پر؟ یہ وہ سوال ہے جو کوئی نہیں پوچھتا۔

ہمارے سفرنامہ نویس سرسری گزرتے ہیں ورنہ ہر جا جہاں دیگر تھا۔ مثال کے طور پر ہمارے اردو کے سب سے پہلے سفرنامہ نویس کو اُس دور کا انگلستان جنت ارضی معلوم ہوا وہ یہ نہ جان سکے کہ 1898 میں 328 قتل ہوئے، 77 اقدام قتل، 271 افراد شدید زخمی اور 1086 زخمی ہوئے، غبن کے 1807 واقعات، چوری، ڈکیتی وغیرہ کے کُل 63,821 واقعات، کمپنی اور دیگر فراڈ فورجری کے 3055 واقعات، 12 مقامات پر کھڑی فصلوں کو آگ لگائی گئی، 20 مویشیوں کو ہلاک کیا گیا، 365 املاک کو آگ لگا کر خاکستر کیا گیا، کُل مجرمانہ نقصان 582، اس جنت ارضی سے خوش ہو کر 2,084 افراد نے خودکشی کی۔

کالم کی ابتدا میں جو اقتباسات نقل کیے ہیں اُن سے اندازہ ہوتا ہے کہ تاریخ یوسفی المعروف عجائبات فرنگ کے مصنف یوسف کمل پوش، حضرت جب تک لکھنؤ میں رہا کیے تب تک تو حضرت کو عورتوں کو گھر سے نکالنے کا خیال نہ ہوا۔ فرنگ میں جو بے پردہ نظر آئیں بیبیاں تو آپ کی عقل پر فوراً ہی پردہ پڑگیا اور آپ عورتوں کی گھر بدری کے وکیل ہوئے۔ یہاں تک کہ آپ نے فرمایا ’’ولایت لندن میں ایک عورت حسینہ ناکدخدا غیر مردوں کے ساتھ ایک بگھی میں بیٹھ کرجس ملک میں چاہے چلی جاوے۔ ہرگز اُس سے کسی طرح کا فساد یا حرکت  بدواقع نہ ہونے پائے۔ اِس لیے کہ مرد نیک کار ہیں‘‘۔

(ص 167) لیکن افسوس کہ حضرت کو یہ علم نہ تھا کہ 1898 میں 236 کیس تو صرف آبروریزی کے ریکارڈ ہوئے ہیں۔ عورتوں پر دست درازی کے 798 واقعات، 13 برس سے کم عمر لڑکیوں سے جنسی زیادتی کے 155 ریکارڈڈ واقعات، 16 برس سے کم عمر لڑکیوں سے جنسی زیادتی کے 164 واقعات، عورتوں کی غیر قانونی دلالی کے 5 کیسز، 18 خواتین اغوا ہوئیں، کُل مل ملا کر اس نوعیت کے 1723 کیسز رجسٹر ہیں۔ اور یہ صرف برٹن اور ویلز کے اعداد و شمار ہیں۔ کوئی بھی کبھی بھی کہیں سے بھی برطانوی حکومت کی متعلقہ ویب سائٹ پر دیکھ سکتا ہے۔

لیکن ان میں سے کوئی ایک کیس بھی ہمارے سیاح کے علم میں نہیں آتا کیوں؟ اور یہ ہی حال 2015 تک شایع ہونیوالے ہر مغربی سفرنامے کا ہے۔کہتے ہیں زبان کھاتی ہے آنکھ شرماتی ہے۔ جب ہم ’’ایڈ‘‘ کے عادی ہوجائیں، جب ہمارا کھانا پینا، رہنا سہنا، ہماری فکر ہماری سیاست، ہماری تجارت سب ہی کچھ مستعار کا ہو تو عقل و نظر پر غلامی کے ایسے نظر نہ آنے والے غلاف پڑجاتے ہیں کہ سیاح تو سیاح دانشور بھی دھوکا کھانے لگتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔