وہ جس کی زباں اُردو کی طرح

وجاہت علی عباسی  منگل 21 جولائی 2015
wabbasi@yahoo.com

[email protected]

پاکستان بننے کے اڑسٹھ سال بعد تک ہم انگریزی کلچر اور زبان کے غلام ہیں، آدھے ہی سہی لیکن ہیں تو۔ شاید بہت سے لوگ یہ بات نہیں جانتے کہ ہماری آفیشل زبان صرف اُردو نہیں ہے بلکہ پاکستان کی دو زبانیں ہیں، اُردو اور انگریزی، اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی جگہ چاہے وہ یونیورسٹی میں داخلہ ہو یا پھر سرکاری نوکری، اگر اس جگہ صرف اُردو زبان استعمال ہوگی تو آپ کو انگریزی نہ آنے پر مسترد کیا جاسکتا ہے، انگریزی نہیں تو نہ یونیورسٹی میں داخلہ نہ سرکاری دفتر میں نوکری۔

آفیشل زبان اُردو اور انگریزی ہونے کی وجہ سے جو شخص بھی تعلیم حاصل کرتا ہے اُسے دونوں زبانیں پڑھنا لازمی ہوتا ہے، بورڈ کے امتحان ہوں یا کالج یونیورسٹی کے پرچے کئی مضامین کے امتحان صرف انگریزی ہی میں دینا ہوتے ہیں کہ جن کو پاس کرنے کے لیے آپ کو انگریزی بولنا نہیں تو لکھنا تو ضرور آنی چاہیے۔

اس وقت پاکستان میں انگریزی کا بخار چڑھا ہوا ہے، بخار سے مراد یہ کہ اگر آپ کو انگریزی آتی ہے تو سوسائٹی میں آپ کے لیے پسندیدگی اور مقبولیت زیادہ ہے، وہ انسان جو اعتماد کے ساتھ انگریزی بولتا ہے تو اسے نوکری بھی بہتر ملتی ہے اور حلقہ احباب میں عزت بھی زیادہ۔

کالج کی کلاس میں اُردو میڈیم اسکول سے آیا لڑکا ٹاپ کرکے بھی نوکری کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے اور ایک انگریزی میڈیم سے پڑھا فرفر انگریزی بولنے والا لڑکا امتحان میں ’’سی گریڈ‘‘ لاکر بھی ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب حاصل کرلیتا ہے۔

انگریزی بولنا اسٹیٹس سمبل ہے جیسے لوگ کسی کے پاس بہتر گاڑی گھر اور موبائل دیکھ کر اسے بہتر انسان سمجھنے لگتے ہیں اسے زیادہ عزت دینے لگتے ہیں ویسے ہی انگریزی زبان بولنے والوں اور انگریزی کلچر کی تقلید کرنے والوں کو بہتر مقام حاصل ہوجاتا ہے۔

انٹرنیٹ پر 1839 کے ایک برٹش پارلیمنٹیرین Lord Macaulay کا ایک خط سرچ کرنے پر آپ کو آرام سے مل جائے گا جو انھوں نے ملکہ برطانیہ کو بھیجا تھا جس میں اپنے انڈیا کے ٹرپ کا حال اور اپنے مشاہدات بتائے تھے، اس لیٹر میں بتایا گیا تھا کہ ’’میں نے انڈیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سفر کیا اور مجھے کوئی بھکاری یا چور پورے ہندوستان میں نہیں ملا۔‘‘

اس خط کے مطابق انڈیا کی کامیابی کا راز ان کا ہزاروں سال پرانا کلچر ہے اور وہ لوگ اپنے بچوں کو بھی نسل در نسل یہی سب روایات سکھا رہے ہیں، اگر ہمیں ان کی روایات کو ختم کرنا، کلچر کو توڑنا ہے تو ہندوستان میں رہنے والوں کو یہ احساس دلانا ہوگا کہ برٹش کا یعنی ہمارا کلچر بہتر اور اعلیٰ ہے اور ان کا کمتر ہے اور یہ ہم اسی وقت کرسکتے ہیں اگر انگریزی زبان کو ان کی زبان سے بہتر دکھا سکیں۔‘‘

یہ خط اصلی ہے کہ نہیں اس پر کئی تجزیہ نگار بحث کرتے آرہے ہیں، کسی کو لگتا ہے کہ جس تاریخ کو خط بھیجا گیا ہے اس تاریخ پر لارڈ میکالے ہندوستان میں تھے ہی نہیں یا پھر یہ کہ خط کی زبان ان کے انداز سے میل نہیں کھاتی، اسی لیے ہوسکتا ہے کہ یہ من گھڑت ہو اور انھوں نے ایسا کوئی خط کبھی بھیجا ہی نہ ہو۔

خط اصلی ہے یا نہیں لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اس میں لکھی بات آج ہم پر صحیح ثابت ہو رہی ہے، ہم نے پاکستان تو بنالیا لیکن انگریزی کی غلامی ہندوستان سے ساتھ لے آئے، انگریزی نے ہم کو بانٹ دیا ہے، آج بہتر انگریزی بولنے والوں کو سوسائٹی میں Superior سمجھا جاتا ہے، ویسٹرن میوزک، کپڑے، کھانے سب سے ہماری سوسائٹی متاثر نظر آتی ہے۔

ٹی وی ہو یا ریڈیو پاکستان کے بیشتر انٹرٹینمنٹ پروگراموں میں میزبان سلام اور اللہ حافظ کے بجائے ’’ہائے بائے‘‘ کرتے نظر آتے ہیں، چاہے غلط سلط ہی سہی ہر میزبان کی کوشش ہوتی ہے کہ جتنا ہوسکتا ہے لوگوں کو انگریزی میں بور کیا جائے۔

جیسے جیسے دنیا میں ٹیکنالوجی کی وجہ سے گلوبلائزیشن ہوتی جا رہی ہے ویسے ویسے ہمارے یہاں انگریزی سے متاثر ہونے کا بخار بڑھتا جا رہا ہے۔

انگریزی گلوبل زبان ہے جس کی اہمیت اپنی جگہ ہے چاہے بزنس ہو یا پالیٹکس، اگر آپ اپنے ملک کو دنیا میں آگے بڑھانا چاہتے ہیں تو یقیناً انگریزی زبان اس میں آپ کو بہت مدد دے گی، کئی ملک جہاں انگریزی اتنی عام نہیں وہ انگریزی سیکھنے پر زور دے رہے ہیں۔

چین تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اور اس وقت وہ اپنے لوگوں کو انگریزی کی تعلیم کی اہمیت سے روشناس کروا رہے ہیں، چاہے کوئی پڑھا لکھا ہو یا نہیں اسے انگریزی کی کلاسیں ضرور فری میں مل سکتی ہیں لیکن ہمارا مسئلہ انگریزی آنا نہیں بلکہ اپنی زبان کو انگریزی سے کمتر سمجھنا ہے، یہی جڑ ہے اپنے کلچر اور زبان کو ویسٹرن کلچر اور زبان سے کم سمجھنے کی۔

کچھ دن پہلے ایک نیا بل پاکستان کی اسمبلی میں پیش کیا گیا جس میں یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ پاکستان کی آفیشل زبانوں میں سے انگریزی کو نکال دینا چاہیے اور صرف اُردو کو آفیشل زبان بنادیا جائے، پرائم منسٹر میاں نواز شریف بھی اس بل کو سپورٹ کر رہے ہیں، بل پاس ہوجانے کی صورت میں گورنمنٹ کے کاغذات کو صرف اُردو زبان میں منتقل کردیا جائے گا جس میں پاسپورٹ، یوٹیلیٹی بلز اور گورنمنٹ ویب سائٹس شامل ہوں گی ساتھ ہی اسٹیٹ لیول سے لے کر صدارتی تقاریر تک، چاہے وہ پاکستان میں ہوں یا باہر کسی ملک میں صرف اُردو میں کی جائیں گی۔

اطلاعات کے مطابق یہ تجویز اس لیے آئی ہے کیوں کہ حکومت کو لگتا ہے کہ پاکستان کی نوجوان نسل اپنی زبان، اپنے لباس اور کلچر کو ویسٹرن کلچر کے مقابلے میں ترجیح نہیں دے رہی۔

یہ بدلاؤ پوری طرح آنے میں دس بارہ سال لگ جائیں گے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ بل پاس ہوگیا کہ پاکستان کی آفیشل زبان صرف اُردو ہوگی تو اس سے پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر کیا فرق پڑے گا؟ اور کیا ہم اپنی زبان کو انگریزی زبان سے کمتر سمجھنا چھوڑ دیں گے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔