عید پاکستانی گھروں میں …

شیریں حیدر  منگل 21 جولائی 2015
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

ماہ رمضان کے عبادات سے بھر پور مہینے کے بعد انعام کے طور پر ہمیں اللہ تبارک و تعالی کی طرف سے عید الفطر کا تحفہ ملتا ہے۔  عید سعید دن ہے خوشی کا،  ماہ رمضان مہینہ ہے نفس اور معدے پر قابو رکھنے کا،  مگر کیا ہم واقعی نفس اور معدے کو قابو میں رکھتے ہیں،  کیا ہم اس ایک مہینے میں اتنا نہیں کھاتے کہ جتنا سال بھر میں بھی نہیں کھایا جاتا؟  کیا ہم عید کی خوشیوں میں دوسروں کو شامل کرتے ہیں جو کہ عید کی اصل روح ہے۔ چلیں عام اور خاص پاکستانی گھروں میں عید کے کچھ مناظر دیکھتے ہیں !!

ایک بڑا سا گھر ہے مگر اندر فقط تین نفوس رہتے ہیں… ماں ، باپ اور ایک بیٹا، ملازمین کی ایک فوج ظفر موج ہے، عید کا دن نئے ڈھب سے طلوع ہوتا ہے، اس سے قبل ماہ رمضان کے لگ بھگ بیس روزوں میں اس گھر میں افطار پارٹیوں کا اہتمام ہوتا رہا ہے جس میں شہر کے بڑے بڑے لوگوں کی شرکت چار چاند لگاتی تھی، ان پارٹیوں میں شریک ہونے والوں میں سے نصف بغیر روزے کے ہوتے تھے کیونکہ ان سب کے پاس کسی نہ کسی بیماری کا عذر موجود ہوتا ہے۔ یہ پارٹیاں افطار پارٹی کے لیبل  کے ساتھ ہوتی ہیں مگر ان کا اختتام سحری کے وقت کے قریب ہوتا ہے،  کاروباری ساجھے داریاں فروغ پاتی ہیں،  نئے رشتے ناطے طے پاتے ہیں۔

اسی گھر میں عید کا دن بھی ایک پارٹی ہی کی طرح شروع ہوتا ہے،  گھر کے مکین سوئے ہوئے اٹھ کر خود تیار ہوتے ہیں مگر اسی اثنا ء میں ملازمین نے  کھانے کی میز بھی ان گنت لوازمات سے سجا دی ہوتی ہے اور معروف کیٹررز لان میں پارٹی کے انتظامات میں مصروف ہوتے ہیں ،  سارا کھیل پیسے کا ہے، پیسہ پھینک تماشہ دیکھ !!  گھر کے ملازمین جو دن بھر کھانے پکانے اور انھیں دوسروں کو کھلانے میں مصروف رہتے ہیں،  ان کے لیے اس بچے ہوئے کھانے میں سے بھی حصہ نہیں ہوتا،  ان کے لیے پہلے سے ترتیب دیے گئے مینو کے مطابق ایک سالن سبزی کا اور ایک مرغی کا پکا ہوا ہوتا ہے، باقی بھانت بھانت کے کھانے وہ صرف دوسروں کو کھاتے ہوئے دیکھ سکتے  ہیں۔

پارٹی کے دوران مرغن کھانوں اور ساتھ ساتھ تیار ہونے والے تازہ بہ تازہ بار بی کیو کی اشتہا انگیز خوشبو سارے گھر میں پھیلتی ہے، گھر کے باہر گیٹ پر بھکاری کہ جن کا داخلہ گیٹ سے آگے تو کیا گیٹ کے سامنے بھی ممکن نہیں ہوتا کہ باوردی ،اسلحہ بردار گارڈ انھیں اس محل نما گھر کے نزدیک پھٹکنے بھی نہیں دیتے ۔ اس گھر میں سال کا ہر دن روز عید ہوتا ہے،  نہ کوئی رمضان میں عبادات کا اہتمام کرتا ہے نہ کسی کو عید کے دن کی کوئی انوکھی خوشی محسوس ہوتی ہے-

دوسرا گھرانہ ایک متوسط طبقے کے تنخواہ دار ملازم کا ہے، گھر چھوٹا اور اس میں آٹھ نفوس رہتے ہیں، میاں بیوی کے علاوہ  والد اور والدہ اور چار بچے،  ایک کمانے والا اور آٹھ پیٹوں کے لیے ایندھن درکار ہوتا ہے، سفید پوشی کی چادر وقت کے ساتھ سکڑتی جا رہی ہے،  سر ڈھانکو تو پاؤں ننگے ہوتے ہیں اور پاؤں ڈھانکو تو سر!!!  اس گھر میں رمضان کا مہینہ اس طرح گزرا کہ پیٹ پر پتھر باندھ کر عید کے دن کی خوشیاں کمانے کی کوشش کی جاتی رہی، بلکہ شکر ادا کیا گیا کہ کم از کم ایک وقت کے کھانے کی بچت ہو گئی۔

بزرگوں سے لے کر چھوٹے بچوں تک نے نماز اور روزے کا خاص اہتمام کیا، عاجزی اور انکساری کے ساتھ، امید اور دعاؤں کے ساتھ۔  اپنے گھر میں جیسے بھی حالات رہے مگر ہر روز دو وقت کا کھانا ، سحری اور افطاری امام مسجد کے لیے جاتا رہا،  چاہے وہ کھانا سادہ ہوتا مگر اس گھر میں پچاسوں سال سے یہ روایت چلی آرہی تھی سو اسے قائم رکھنے کا خاص خیال کیا گیا۔

دانتوں سے پکڑ پکڑ کر بچت کی جاتی رہی،  اندر خانے کی ساری بچتیں جمع کی گئیں تو بھی بڑے چار میں سے کسی کا جوڑا بنانے کا ارادہ نہ تھا،  چار بچوں کے لیے عید کے جوڑے بنانا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف تھا،  صرف جوڑے بنانا ہی مقصود نہ تھا،  عید کے دن بزرگوں کو ملنے کے لیے آیا گیا بھی ہونا تھا۔  بچت بازاروں سے خریداری کر کے بچوں کے لیے چھوٹی چھوٹی خوشیاں خریدی گئیں،  دل کے جانے کتنے ہی ارمانوں کو تھپک تھپک کر سلا دیا گیا، اگلے ماہ کے خرچوں کے اندیشے دل کو ہولا رہے تھے، مگر عید کے دن سے خوشیاں اخذ کی جا رہی تھیں۔

سادہ سے چند پکوان، شیر خورمہ، چنے کی چاٹ اور کھانے میں بڑے گوشت کا شوربے والا سالن، آئے گئے کی اضافی خاطر کے لیے گھر میں تیار کیے گئے آلو کے سموسے، عید کا دن اختتام پذیر ہوا، بچوں کے چہروں پر قناعت اور خوشیاں اور جیبوں میں عیدی کے چند نوٹ اور دلوں میں سکون تھا۔ رات سونے سے پہلے، کمانے والا دل ہی دل میں سود و زیاں کا حساب کر رہا تھا،  عید کا ایک دن ،سال بھر کی بچتیں لے گیا تھا،  ماں باپ نے نئے کپڑے پہنے تھے نہ میاں بیوی نے، مگر اس کے دل میں سکون تھا کہ اس کے بچوں نے سفید پوشی کے باوصف ایک اچھا اور خوشی بھرا دن گزارا تھا،  ’’ انسان ساری مشقت اسی لیے تو کرتا ہے کہ اپنی اولاد کے چہروں پر خوشی کے رنگ دیکھ سکے!‘‘  اس نے اپنی بیوی کے چہرے کی تھکاوٹ کو اپنے الفاظ سے سمیٹا ۔

یہ ایک اور گھر ہے… یہاں غربت کی چکی میں پستے ہوئے پانچ نفوس آباد ہیں،  اس گھر کے فرش پکے ہیں نہ چھت، عید کا دن جہاں ہر چہرے پر خوشیاں بکھیر دیتا ہے اس دن بھی ان کے چہروں پر رنج اور مایوسی کا زرد لیپ تھا۔  اس روز ان کے گھر میں چولہا نہ جلا تھا کہ گھر کے واحد کمانے والے کو اس روز کوئی مزدوری بھی نہ ملنا تھی، یہ پاکستان  کے ان لاکھوں گھرانوں جیسا ایک ایسا گھر ہے جہاں چولہا ہر روز کی کمائی پر جلتا ہے، ہڑتالیں ہوں یا مزدوروں کی چھٹی کا کوئی اور دن،  اس روز اس گھرمیں فاقے کی ہنڈیا پکتی ہے،  عید کا با سعید دن اس گھر پر اسی طرح فاقے والا دن تھا۔

ہاں دن میں محلے کے کسی کھاتے پیتے گھر سے تبرک کے طور پر آ جانے والی کسی پکوان کی ایک پلیٹ… اس گھر کے مکینوں کے چہروں پر خوشی کا ادھورا سا رنگ بکھیر دیتی ہے،  کسی کو اس میں سے حصہ نصیب ہوتا ہے تو کسی کو فقط خوشبو سونگھ کر گزارا کرنا ہوتا ہے۔اس عید پر تو مسلسل بارش سے ٹپکنے والی چھت نے کوفت میں کئی گنا اضافہ کر دیا تھا،  سارا دن چھت پر پلاسٹک کے لفافے رکھ رکھ کر ٹپکنے کے مقامات کو بند کر نے کی کوشش میں گزرے یا فرشوں پر ان مقامات پر بالٹیاں رکھنے میں جہاں سے چھتیں ٹپک رہی تھیں،  عید اور اس کا مطلب یہاں کے مکینوں کو جنم لینے سے آج تک معلوم نہیں ہوا۔  نئے لباس کیا ہوتے ہیں اور عید کے پکوان کیا، انھوں نے کبھی خواب میں بھی ان کا مطلب نہیں جانا، انھوں نے عمر بھر اترن ہی پہنی ہے اور اسی اترن کو پہنتے پہنتے وہ ایک روز کفن کی دو چادریں پہن لیتے ہیں، وہ بھی خیرات کی، ان کے ہاں لفظ عیاشی کا کوئی معنی نہیں ہے،  عمر کا ایک ایک پل وہ اپنے کاندھوں پر پڑے بوجھ کی طرح سہتے ہیں،  وہ زندگی کو نہیں گزارتے بلکہ زندگی انھیں گزارتی ہے۔

ان کے ہاں بیماری آ جائے تو علاج کا کوئی تصور نہیں،  بلکہ بلکتے،کراہتے اور کھانستے ہوئے، موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔  موت ان کے لیے زندگی کے ہر مسئلے کا حل ہے،  انھی کے طبقے میں جب بچوں کی بھوکمٹا ئی نہیں جا سکتی تو انھیں ہی مٹا دیا جاتا ہے،  ان کے اپنے مجبور والدین انھیں سانس لینے کی مشقت سے آزاد کر دیتے ہیں

ایک اور طبقہ بھی ہے جن کا ذکر کیے بغیر عید کی تصویر مکمل نہیں ہو سکتی… عین عید کے دن، ہمارے بچے ہوئے کھانے جو ہم کسی غریب کو دینے کی بجائے کوڑے دانوں کی نذر کر دیتے ہیں، یہ کوڑا دان جہاں خالی ہوتے ہیں، وہاں پر اس طبقے کے افراد تاک میںہوتے ہیں، چن چن کر کوڑے کے ڈھیروں میں سے ہمارے بچے کھچے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے، ان کا نہ کوئی گھر ہے نہ ٹھکانہ،  ہم انھیں کوڑے میں سے چن چن کرکھاتے ہوئے دیکھ کر نظریں چرا لیتے ہیں ، رخ پھیر لیتے ہیں کہ اتنا مکروہ اور گھناؤنا منظر دیکھنے کی ہم میں سکت نہیں، مگر یہی ہمارے معاشرے کا اصل چہرہ اور ہماری غفلت کی حقیقی تصویر ہے۔کون کہتا ہے کہ مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں کہ جسم کے ایک حصے کو چوٹ لگے تو سارا جسم بے چین ہوتا ہے… کیا ہم مسلمان ہیں؟ کیا ہم معاشرے میں تضاد کی یہ تصویریںفراموش کر سکتے ہیں۔

ان سے نظریں چرا کر اپنی خوشیوں سے محظوظ ہو سکتے ہیں؟  کیا ہم اس نبی پاک  ﷺ کی امت ہیں کہ جو خود یتیم ہونے کے باوصف  یتیموں کے سر پر دست شفقت رکھتے تھے،  ان کو اپنی خوشیوں میں شامل کرتے تھے۔ آپ کا تعلق کس طبقے سے ہے،  خود سے سوال کریں کہ آپ نے اس عید پر، اپنے سے نچلے طبقے کے کسی شخص یا خاندان کو خوشیوںمیں شامل کیا یا عید کے دن انھیں خوشی میں شریک کرنے کو کسی غریب کی مدد کی؟  عید گزر چکی،  مگر اس سوال کا جواب اگر آپ کے پاس ناں میں ہے  تو یقین کریں کہ آپ کی عید نا مکمل،  بے رنگ اور بے ثمر رہی!!!  کوشش کریں کہ اگلی عید پر آپ کے پاس اس سوال کا بہتر جواب ہو… انشا اللہ!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔