ناکارہ کمپیوٹر بنے دل کش مچھلی گھر

ندیم سبحان  منگل 21 جولائی 2015
امریکی نوجوان کو مشغلے نے دولت مند بنادیا ۔  فوٹو : فائل

امریکی نوجوان کو مشغلے نے دولت مند بنادیا ۔ فوٹو : فائل

 قدرت کے کارخانے میں کوئی چیز بے کار نہیں۔ انسان اگر سمجھ بوجھ سے کام لے تو ناکارہ اشیاء کو بھی کارآمد بناسکتا ہے، اور اس کام سے مستقل آمدنی حاصل کرسکتا ہے۔ امریکی شہری جیک ہرمز پچھلے آٹھ سال سے ایپل کے پرانے آئی میک کمپیوٹرز کو دل کش مچھلی گھروں ( aquariums ) کی شکل دے رہا ہے۔

اب تک وہ دنیا بھر میں ایک ہزار سے زائد مچھلی گھر فروخت کرچکا ہے۔ وہ اپنے گھر کے تہہ خانے میں بیٹھ کر پرانے کمپیوٹر کو خوب صورت ایکوریم میں تبدیل کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ ایک آئی میک کمپیوٹر کو مچھلیوں کی رہائش گاہ بنانے میں اسے گھنٹوں لگ جاتے ہیں، کیوں کہ وہ اپنا کام انتہائی دل جمعی سے کرتا ہے۔

جیک کباڑ خانوں سے 2000ء کے بعد متعارف کرائے جانے والے جی تھری آئی میک کمپیوٹرز خرید کر لاتا ہے۔ خوب صورت ڈیزائن اور دل کش کلر اسکیم کی وجہ سے یہ کمپیوٹر ایکوریم میں ڈھل کر بہت ہی بھلے لگتے ہیں۔ کمپیوٹر کے دھندلے فریم میں سے روشنی کم مقدار میں گزر کر مچھلیوں پر اس طرح پڑتی ہے کہ یہ مختلف زاویوں سے بہ آسانی دکھائی دے جاتی ہیں۔ آئی میک استعمال کرنے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ یہ دوسرے مٹیالے اور سرمئی رنگ والے کمپیوٹروں سے جاذب نظر ہوتے ہیں۔

جیک ہرمز چین اور جاپان سمیت متعدد ممالک میں اپنے بنائے ہوئے منفرد مچھلی گھر بھیج چکا ہے۔ اس نے اپنی ویب سائٹ بنا رکھی ہے جس پر اسے آن لائن آرڈر موصول ہوتے ہیں۔ پیشگی رقم موصول ہونے کے بعد وہ گاہک کے حسب خواہش ایکوریم تیار کرکے روانہ کردیتا ہے۔

جیمز 2007ء میں ایک اسٹور میں ملازم تھا جب مینیجر نے اسے ناکارہ جی تھری آئی میک کچرے کے ڈبے میں ڈالنے کے لیے دیا۔ جیک کمپیوٹر کو کوڑا کرکٹ میں ڈالنے کے بجائے گھر لے آیا۔ گھر واپسی پر وہ سوچنے لگا کہ اس ڈبے کو کس طرح کارآمد بنایا جاسکتا ہے۔ اس نے اپنے دوست سے اس بات کا ذکر کیا تو اس نے جیمز کو ایکوریم بنانے کا مشورہ دیا۔ جیمز کو یہ مشورہ بہت پسند آیا، اور وہ اس پر عمل کرنے کے لیے تیار ہوگیا۔ انٹرنیٹ پر اسے تلاش بسیار کے باوجود جب مچھلی گھر بنانے سے متعلق معلومات دستیاب نہ ہوسکیں تو اس نے اپنی عقل وصلاحیت پر بھروسا کرتے ہوئے ایکوریم تیار کرنے کا فیصلہ کیا۔

کئی بار غلطیاں کرنے کے بعد بالآخر وہ جاننے میں کام یاب ہوگیا کہ کس طرح جی تھری آئی میک کو ایکوریم کی شکل دی جاسکتی ہے۔ جیمز نے یہ کام مشغلے کے طور اپنایا تھا۔ اس کی ملازمت بہ دستور جاری تھی۔ ایک سال میں اس نے 50 ایکوریم تیار کیے۔ سال کے اختتام پر جب اس نے حساب کتاب کیا تو اندازہ ہوا کہ یہ بہت نفع بخش مشغلہ تھا، جسے وہ باقاعدہ کاروبار کی شکل بھی دے سکتا تھا۔ چناں چہ اس نے بڑی تعداد میں ناکارہ آئی میک خرید لیے۔ آج بھی اس کی ورک شاپ، گیراج اور اسٹوریج شیڈ میں آئی میکس کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ آئی میک کو ایکوریم میں تبدیل کرنے کے لیے درکار سامان وہ ایک کمپنی سے آرڈر پر تیار کرواتا ہے۔

جو لوگ اپنے ناکارہ کمپیوٹر کو گھر پر بیٹھ کر خود فش ٹینک میں تبدیل کرنے کے خواہش مند ہوں، جیک انھیں ایکوریم کِٹس بھی فروخت کرتا ہے۔ ایکوریم کی قیمت 300 ڈالر جب کہ کِٹ 189 ڈالر میں خریدی جاسکتی ہے۔ جیمز کا دعویٰ ہے کہ آئی میک ایکوریمز فروخت کرنے والا وہ دنیا کا پہلا شخص ہے۔

ایکوریم کے بعد اب جیمز نے ایپل آئی میک جی فور سے ’ آئی لیمپ ‘ اور ای میک کی ڈسک ڈرائیو ٹرے کے کور سے ’ ای کلاک‘ بھی بنانی شروع کردی ہیں۔ اس نے آئی لیمپ کی قیمت 400 اور ای کلاک کی قیمت 29ڈالر مقرر کی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔