بلوچستان: چند نئے حوصلہ افزا مناظر

تنویر قیصر شاہد  بدھ 22 جولائی 2015
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

بلوچستان سمیت سارے پاکستان کے سارے عوام یک جاں ہوکر متمنی اور دعا گو ہیں: خدا کرے بلوچستان مسائل کے گرداب سے نکل آئے اور ناراض بلوچ نوجوان یک جہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قومی دھارے میں شامل ہوجائیں۔ اس سلسلے میں ایک خوش کن خبر آئی ہے۔ جانفزا جھونکے نے بتایا ہے کہ بلوچستان کی ایک اہم ترین مگر مرکز سے ناراض شخصیت، جو برطانیہ میں تشریف فرما ہے، بلوچستان حکومت کے بھیجے گئے وفد سے مذاکرات کرنے پر رضامند ہوگئی ہے۔

ان صاحب کا نام میر سلیمان داؤد ہے۔ آپ ’’خان آف قلات‘‘ بھی کہلاتے ہیں۔ پاکستانی انتظامیہ سے ان کی ناراضگیوں کی داستان خاصی پرانی بھی ہے اور طویل بھی۔ اس داستان میں مبالغہ بھی ہے۔ جب نواب اکبر خان بگٹی ایک کارروائی میں جاں بحق ہوگئے (اور یقینا یہ ایک اندوہناک سانحہ تھا) تو بلوچستان کے گرینڈ جرگہ کے فیصلے کے تحت خان آف قلات جناب میر سلیمان داؤد برطانیہ چلے گئے تھے۔

برطانوی صحافی کارل رابرٹس نے ان سے مل کر جو طویل انٹرویو کیا، یہ بتاتا ہے کہ نازونعم میں پلے جناب سلیمان داؤد کے برطانیہ کے شہر کارڈف میں حالات اطمینان بخش نہیں۔ اب ان کی خود ساختہ جلا وطنی کو تقریباً دس سال کا عرصہ ہورہا ہے۔ اس دوران پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادتوں نے متعدد بار چاہا کہ میر سلیمان واپس وطن تشریف لے آئیں اور اپنے گِلوں شکوؤں کے ساتھ ملک اور اپنے صوبے میں کردار ادا کریں لیکن یہ کوششیں کامیاب نہ ہوسکیں۔

میر صاحب مکالمہ تو کیا، ملنے ہی سے انکاری رہے۔ اب بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک کی سرپرستی میں معتبر بلوچوں کا ایک وفد لندن بھیجا گیا تاکہ میر صاحب کو واپس پاکستان لایا جائے۔ اس وفد کی سربراہی پرنس محی الدین کر رہے ہیں جو میر سلیمان کے نہایت قریبی عزیز ہیں اور سابق وفاقی وزیر بھی۔ انھوں نے لندن سے بیان جاری کیا ہے کہ بہت سی کوششوں کے بعد خان آف قلات بلوچ وفد سے ملاقات اور بات چیت کرنے پر تیار ہوگئے ہیں۔

مکالمے اور ملاقات سے قبل مگر میر صاحب ’’گرینڈ بلوچ جرگہ‘‘ کے ارکان سے بھی گفتگو کریں گے۔ پرنس محی الدین صاحب کا کہنا ہے کہ وفد کی طرف سے کوششیں کی جارہی ہیں کہ میر صاحب، شکووں کو ایک طرف رکھتے ہوئے، پاکستان واپس آجائیں۔ وطن واپسی پر ان کا کردار پاکستان کی سالمیت اور سلامتی کے لیے یقیناً مفید اور کار آمد ثابت ہوگا۔ انشاء اللہ۔ لاریب میر صاحب کو واپس وطن لانے میں بلوچستان کی منتخب حکومت اور ہماری عسکری قیادت کی اجتماعی کوششیں اور خواہشیں کارفرما ہیں۔ وزیراعظم صاحب بھی اس ’’لُوپ‘‘ سے باہر نہیں۔

اس پُر امید اور وطن دوست خبر سے قبل بلوچستان کی صوبائی منتخب حکومت اور عسکری قیادت نے بھی اجتماعی طور پر بلوچستان کے ناراض اور برہم عناصر کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے ایک مستحسن قدم اٹھایا ہے۔ معافیوں کا اعلان بھی کیا گیا ہے اور نالاں بلوچ نوجوانوں کی تالیفِ قلب کے لیے مالی تعاون کی شاندار پیشکشیں بھی سامنے آئی ہیں۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمبارک، وزیرداخلہ میر سرفراز بگٹی، کمانڈر سدرن کمان لیفٹیننٹ جنرل ناصر جنجوعہ اور آئی جی ایف سی کی مشترکہ کوششیں نظرِ استحسان سے دیکھے جانے کے قابل ہیں۔

ان کوششوں کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ غیر ملکی سرمائے، اسلحے اور اشیرواد پر عمل پیرا وہ بلوچ نوجوان جو بوجوہ قومی راستے سے انحراف کرچکے ہیں، ہتھیار رکھ دیں اور قوم و ملک کے مشترکہ مفادات کا اثاثہ بن جائیں۔ جنرل ناصر جنجوعہ کا یہ اعلان بھی خوش کن اور امید افزا ہے کہ وہ بلوچ ناراض نوجوان جو کسی کے اکسانے اور ورغلانے پر پہاڑوں میں جا چکے ہیں، اگر صوبے اور ملک کے اجتماعی مفید میں مرکزی دھارا اختیار کرلیں تو انھیں آگے بڑھنے اور مثبت و تعمیری زندگی اختیار کرنے کے لیے پانچ سے پندرہ لاکھ روپے کی مالی امداد دی جائے گی۔ اس اعلان کی تصدیق بلوچستان کے سیکریٹری داخلہ اکبر حسین درانی نے بھی کی ہے۔

یہ بھی واقعہ ہے کہ نام نہاد علیحدگی پسند بلوچ نوجوانوں کے اندرونی حالات خاصے خراب ہوچکے ہیں کہ اب بلوچستان میں دو علیحدگی پسند دھڑے آپس میں ٹکرائے ہیں۔ جولائی 2015 کے پہلے ہفتے خبر آئی کہ ڈیرہ بگٹی اور کوہلو کے اضلاع کی سرحدوں پر بلوچستان کے دو  فریق متصادم ہوئے۔ یہ تصادم آدھی رات کو شروع ہوا جس میں فریقین کے تقریباً دو درجن افراد مارے گئے۔ بتایا گیا ہے کہ ایک دھڑے نے خان نلّہ کے مقام پر اپنے مخالف فراری کیمپ پر ہلّہ بول دیا۔ دونوں دھڑوں نے بھاری ہتھیار استعمال کیے اور یہ لڑائی صبح کاذب تک جاری رہی۔ بلوچستان کے صوبائی وزیرِداخلہ میر سرفراز بگٹی نے اس تصادم کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا: ’’یہ باہم متصادم دھڑے بلوچستان لبریشن آرمی اور یونائیٹڈ بلوچ آرمی کے تھے۔ ‘‘

پاکستان کا ہر محبِ وطن اور ہوشمند شہری بلوچستان کے معاملات سے لاتعلق نہیں رہ سکتا کہ وہاں کے ڈگمگاتے معاملات اور غیر ملکی مداخلتوں کے واقعات ہمیں متواتر سانحہ مشرقی پاکستان کی یاد دلاتے رہتے ہیں۔ بلوچستان میں ہمارے حکمرانوں اور پالیسی سازوں سے یقیناً ایسی غلطیاں، شعوری یا غیر شعوری طور پر، سردز ہوئی ہیں کہ انھیں تسلیم کرتے ہوئے ہی ہمیں آگے بڑھنا اور اہلِ بلوچستان کو مطمئن کرنا ہے۔ جناب اشرف جہانگیر قاضی، جو امریکا اور بھارت میں پاکستان کے سفیر بھی رہ چکے ہیں، اپنے ایک آرٹیکل میں اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’حقیقت یہ ہے کہ بلوچ عوام کو ان کے حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔

حکومتیں، خواہ وہ منتخب تھیں یا غیر منتخب، اس حوالے سے ہنوذ حالتِ انکار میں رہی ہیں۔ بلوچستان میں دانستہ بلوچ پختون تفریق و تقسیم پیدا کی جارہی ہے اور یہ استحصالی اقدام ہے۔ اس خطرناک صورتحال میں بھارتی مداخلت نے مزید ستم ڈھایا ہے۔ بلوچستان کا مسئلہ خارجی کم، داخلی زیادہ ہے۔ اس میں اجنبیت کے عنصر کا اضافہ مزید خطرناک ہے۔ بلوچستان میں غیر بلوچ مزدوروں اور رہائشیوں کا بے دردی سے قتل کیے جانے کا ایک مطلب یہ ہے کہ ’’ملزمان‘‘ کو سیاسی حقوق سے مستفید ہونے کے مواقعے فراہم نہیں کیے گئے۔ سیاسی استحکام کے حصول اور ’’مسنگ و مقتول افراد‘‘ کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلاء کو پُر کرنے کے لیے از حد ضروری ہوگیا ہے کہ بلوچستان میں Truth  and  Reconciliation  Commission کا ڈول ڈال دیا جائے۔‘‘

ایک طرف بلوچستان کے بارے میں جناب اشرف جہانگیر ایسے مدبر اور دانشور شخص کے یہ خیالات و نظریات ہیں اور دوسری جانب کئی بلوچ نوجوان اپنے صوبے کے مسائل کے حل کے لیے ایک بالکل دوسرا نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک انگریزی معاصر میں شایع ہونے والے ایک بلوچ کا فکر انگیز خط۔ مکتوب نگار کا نام ہے: وحید بگٹی۔ یہ صاحب یوں رقمطراز ہیں: ’’بدقسمتی سے ڈیرہ بگٹی کے عوام، جنہوں نے سرداروں کی گرفت سے نجات حاصل کرنے کے لیے برسوں جدوجہد کی ہے، کو ایک بار پھر سرداری نظام قبول کرنے کے لیے مجبور کیا جارہا ہے۔

ان سرداروں نے ڈیرہ بگٹی کے عوام کو اپنے زیرِ نگیں رکھنے اور ان کے حقوق غصب کرنے کی ہمیشہ کوشش کی ہے۔ اب خود آگہی اور اطلاعات کی تیز تر ترسیل کے کارن قبائلی نظام کی جڑیں رفتہ رفتہ کمزور ہورہی ہیں۔ اب بلوچستان میں لوگ قبائلی جرگوں کے بجائے پولیس کی مدد سے انصاف حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

بعض اوقات طاقتور سرداروں کے خلاف بھی مقدمات درج ہورہے ہیں۔ یہ ڈیرہ بگٹی کے نوجوانوں کی خوش بختی ہے کہ ڈیرہ کے عوام کے اندر ہی سے پولیس افسر، ڈاکٹر، انجینئر اور آرمی افسر بن رہے ہیں۔ یہ لوگ بگٹی نوجوانوں کے لیے رول ماڈل بن رہے ہیں۔ میری سویلین حکمرانوں سے گزارش ہے کہ وہ ڈیرہ بگٹی کے غریب عوام کو دوبارہ قبائلی سرداروں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں۔کوئی بھی شخص قانون سے بالا نہیں رہنا چاہیے۔‘‘ قارئین کرام، اس خط میں ڈیرہ بگٹی کے ایک تعلیم یافتہ اور باشعور نوجوان نے جن جذبات کا اظہار کیا ہے، یہی جذبات پاکستان کے محفوظ مستقبل کا اثاثہ ہیں۔ یہ حوصلہ افزا منظر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔