بیمار خیالات ہمیں بیمار بنا دیں گے

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 22 جولائی 2015

ہم اگر ماضی بعید اور قریب کے سفر پر نکلیں اور یادوں کو اچھی طرح سے کھنگال لیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ دنیا کی تاریخ میں کوئی ایسا ملک نہیں جسے کسی مرحلے پر ابتلا کا منہ دیکھنا نہ پڑا ہو ہم دنیا میں واحد قوم نہیں جو انتشار، بدامنی، جہالت، تشدد، انتہا پسندی اور شورش کی لپیٹ میں ہیں ہم سے پہلے امریکا، سوویت یونین، آئس لینڈ، اسپین، فلپائن، چین، برطانیہ، ہنگری، فن لینڈ، پولینڈ، کوریا، بھارت، فرانس، بلغاریہ، چیکو سلواکیہ، جاپان، سعودی عرب، میکسیکو، ارجنٹائن اور بہت سے دیگر ممالک بھی شورشوں، لسانی و فرقہ وارانہ فسادات اور انتہا پسندی کی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔

امریکا کی خانہ جنگی میں ریاستوں کے درمیان تصادم کے نتیجے میں 7 لاکھ 50 ہزار فو جی ہلا ک ہوئے، جس میں انفر اسٹرکچر، فیکٹریاں، دکانیں، ذرایع آمد و رفت اور غذائی فراہمی کے ذرایع تباہ ہو گئے لیکن انھوں نے اور دیگر قوموں نے ہمت نہیں ہاری، اپنے حوصلے پست نہیں کیے اور اپنے بدترین حالات کو شکست دے دی۔ مملکت روم کے حکمران اور عظیم فلسفی مارکس ادری لی نے کہا تھا ’’ہمار ی زندگی ہمارے خیالات سے بنتی ہے، ہمارا ذہنی رحجان ہی ہماری قسمت کا تعین کرتا ہے‘‘ اگر ہمارے خیالات افسردہ اور پژمردہ ہیں تو ہم پر بھی افسردگی اور پژمردگی محیط ہو جائے گی بزدلانہ خیالات ہمیں بزدل اور ڈرپو ک بنا دیں گے اور بیمار خیالات ہمیں بیمار بنا دیں گے اگر ہم ناکامی کے متعلق سوچیں گے تو ہم یقینا ناکام رہیں گے اگر ہم اپنے آپ پر ترس کھاتے رہیں گے تو ہر کوئی ہم سے گریز کرے گا ہم سے دور بھا گے گا۔

پیل کے الفاظ میں ’’آپ وہ نہیں جو آپ سمجھتے ہیں بلکہ وہ ہیں جو آپ سو چتے ہیں‘‘ ہمارا ذہنی رویہ ہماری جسمانی قوتوں پر ناقابل حد تک اثر انداز ہوتا ہے جب غیر فانی شاعر ملٹن اندھا ہوا تھا تو اس نے بھی یہ ہی حقیقت معلوم کی تھی ’’ذہن خود ہی اپنا مقام ہے اور خود ہی بنا سکتا ہے جنت سے جہنم اور جہنم سے جنت‘‘۔ نپولین اور ہیلن کیلر ملٹن کے اس شعر کی مکمل تفسیر ہیں۔

نپولین کو دنیا کی ہر چیز عظمت، طاقت، دولت عہدہ حاصل تھی جن کی انسان عموماً خواہش کیا کرتا ہے پھر بھی اس نے جزیرہ سینٹ ہیلنا میں کہا تھا میری زندگی میں مسرت کے مسلسل چھ دن بھی نہیں آئے، لیکن اندھی گونگی اور بہری ہیلن کیلر کہا کرتی تھی، میں نے زندگی کو بہت حسین پایا ہے تمہارے اپنے سوا تمہیں کوئی بھی خوشی نہیں پہنچا سکتا۔ عظیم فلسفی اپکیٹیٹس کہتا ہے ہمیں اپنے جسم سے ورم، پھوڑے اور رسولیاں دور کر نے کی نسبت اپنے ذہن سے غلط خیالات خارج کرنے کی زیادہ فکر و کوشش کرنی چاہیے۔ فرانسیسی فلسفی مانیتں نے یہ چوبیس الفا ظ اپنی زندگی کا ماٹو قرار دیے تھے ’’انسان کو کسی حادثہ سے اس قدر ضرر نہیں پہنچتا جس قدر اس رائے سے جو وہ اس حادثے کے متعلق قائم کرتا ہے‘‘۔

ولیم جیمز جس کا آج تک عملی نفسیات میں کوئی حریف پیدا نہیں ہو سکا وہ ہمیں بتاتا ہے کہ محض ارادہ کر کے ہم فی الفور جذبات کو نہیں بدل سکتے بلکہ اس سے ہم اپنے افعال میں تغیر پیدا کر سکتے ہیں اور جب ہمارے افعال بدل جائیں گے تو ہمارے احساسات میں خود بخود تبدیلی پیدا ہو جائے گی۔ جیمزلین ایلن اپنی کتاب انسان کیسے سوچتا ہے، میں لکھتا ہے۔

جب کوئی شخص دوسرے لوگوں اور چیزوں کے متعلق اپنے خیالات بدلتا ہے تو وہ دیکھے گا کہ دوسرے لوگوں اور چیزوں کے رویے میں خود بخو د تبدیلی پیدا ہو گئی ہے انسان میں ان چیزوں کو اپنی طرف کھینچنے کی قدرت نہیں ہے جنہیں وہ چاہتا ہے بلکہ انھیں جو کہ وہ خود ہے وہ دیوتا جو ہماری خواہشوں اور آرزوؤں کو تکمیل کا روپ دیتے ہیں خود ہم ہی ہیں ایک انسان محض اپنے خیالات کو بلند کر کے ابھار کر آگے بڑھ سکتا ہے ترقی کی منزلیں طے کر سکتا ہے اور کامیابی کی کشتی میں سوار ہو سکتا ہے اگر وہ اپنے خیالات کو ابھارنے سے انکار کر ے گا تو وہ صرف حقیر، کمزور اور ادنی اور شکستہ حال رہے گا۔ یہ صحیح ہے کہ ہم زندگی کی جنگ میں ہارے ضرور ہیں لیکن کسی محاذ پر پسپا نہیں ہوئے۔ پاکستانی قوم میں بھی تعجب خیز خوبی منفی کو مثبت میں بدل دینے کی خو بی موجود ہے اور انھوں نے ہر محاذ میں یہ ثابت بھی کیا ہے ہمارا شمار دنیا کی بہادر قوموں میں ہوتا ہے۔

دنیا کی دیگر قوموں کی طرح آج ہم پر بھی مشکل وقت آیا ہوا ہے۔ یہ ہماری آخری منزل ہرگز نہیں ہم بھی جلد ہی کامیابی، خوشحالی اور امن کی کشتی میں سوار ہو جائیں گے بس ہمیں اپنا ذہنی رویہ تبدیل کرنا ہو گا۔ ہمیں اپنے فرسودہ، افسردہ، پژمرد ہ، بزدلانہ اور بیمار خیالات سے نجات حاصل کرنا ہو گی۔ اپنی سو چ یکسر تبدیل کرنا ہو گی۔ اپنے ذہنوں سے غلط خیالات خارج کرنا ہونگے۔ دہشت گردی، غربت، جہالت، بیماریاں، بدامنی، انتہاپسندی ہر گز ہمارا مقدر اور نصیب نہیں ہے۔

اس بات پر ہمیں اعتماد ہونا چاہیے۔ بائبل میں لکھا ہے ہم اعتماد کے سہارے چلتے ہیں بینائی کے سہارے نہیں۔ میدان جنگ میں مورچے پر ڈٹے ایک بہادر سپاہی کا یہ قول زندگی کی جنگ میں مصروف انسانوں کے لیے بہت اہم ہے کہ جنگ میں بندو ق نہیں لڑتی، اسے تھامنے والے فوجی کا دل لڑتا ہے اور دل بھی نہیں اس دل میں موجود اس کا اعتماد لڑتا ہے۔ انگریز ی کہاوت ہے جب ارادہ بن جائے تو راستہ مل جاتا ہے۔ ایمرسن کہتا ہے جو آدمی ارادہ کر سکتا ہے، اس کے لیے کچھ بھی ناممکن نہیں۔ پاکستان کے عوام کو بس اعتماد، ارادہ، ہمت، حوصلہ کرنا ہو گا اور ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں کی طر ح قربانیوں کا جذبہ پیدا کرنا ہو گا پھر آپ دیکھیں گے کہ کس طرح ہم ایک خو شحال، ترقی یافتہ اور پر امن قوم میں تبدیل ہو جائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔