بے بس مسافر اور ٹرانسپورٹ کا نظام

شاہد سردار  جمعرات 23 جولائی 2015

کہتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی تہذیب و تمدن یا اخلاقیات کا اندازہ اس ملک کے ’’ٹریفک نظام ‘‘ کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ جس ملک میں ٹریفک کے نظام میں قاعدے، ڈسپلن یا اصول ہو گا وہ ملک اتنا ہی اچھا سمجھا جائے گا۔ لیکن جب ہم اپنے وطن عزیز کی طرف نگاہ کرتے ہیں تو یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا نظر آتا ہے۔

وزیر اعظم کے صوبے پنجاب میں زبردست قسم کے موٹروے، گرین اور میٹروبس چل رہی ہیں، لیکن پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی جسے ’’شہر ناپرساں‘‘ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور دنیا کے بڑے شہروں کی فہرست میں یہ ساتویں نمبر پر ہے، اور نہ صرف کاسموپولیٹن سٹی کا درجہ حاصل ہے بلکہ ملک کی اقتصادی شہ رگ اسے قرار دیا جاتا ہے۔ دنیا کے 60 سے زائد ممالک ایسے ہیں جن کی کل آبادی کراچی سے کم ہے لیکن اتنی بڑی آبادی والے شہر میں کہیں بھی کوئی انتظامیہ نظر آتی ہے اور نہ ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کنٹرول دکھائی دیتا ہے۔

جن دنوں مصطفی کمال کراچی کے سٹی ناظم تھے تو انھوں نے گرین بسیں سڑکوں پر چلوائی تھیں لیکن پہلے سے کراچی میں موجود ٹرانسپورٹ مافیا نے ان بسوں کو چلنے نہیں دیا۔ سرکلر ٹرین اور نہ جانے کتنے قسم کے منصوبے اس مافیا کے ہاتھوں جہنم رسید ہو چکے ہیں۔

آبادی کے لحاظ سے جتنی ٹرانسپورٹ کی عوام کو ضرورت ہے اس کا نصف بھی عوام کو میسر نہیں، نتیجے میں پرائیویٹ بسیں عرصہ دراز سے سڑکوں پر چل رہی ہیں یہ عوام کی ضرورت پوری کرنے میں ناکام ہیں۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے کوچیں، ویگن وغیرہ متعارف کرائی گئیں اور انھوں نے بڑی حد تک لوگوں کی آمد و رفت کے مسائل میں کمی میں اپنا کردار ادا کیا۔

جیسا کہ ہم نے ابتدا میں کہا کہ ہمارے ہاں ہر شعبے میں بگاڑ ہی بگاڑ دکھائی دیتا ہے۔ اس بنا پر پاکستان میں بالعموم اور کراچی میں بالخصوص ٹرانسپورٹ کے مسائل چلے آ رہے ہیں۔ بسیں، مزدا، کوچیں منہ مانگے کرائے پر لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح بھر کر چلتی ہیں، اس کی اندرونی حالت اس قدر خراب ہوتی ہے کہ لوگوں کے کپڑے پھٹنے، ہاتھ وغیرہ زخمی ہو جانے کے واقعات معمول کا حصہ بن گئے ہیں۔

الغرض بس ہو یا مزدا، کوچ ہو یا منی بس ان بسوں یا ان سبھوں کے آگے ’’عوام کی بے بسیاں‘‘ ایک ضرب المثل بن چکی ہے۔ بس میں کھڑے ہوئے بلکہ لٹکے ہوئے ہر شخص کو دیکھ کر زبان پر بے اختیار ایک نظم کے یہ اشعار آ جاتے ہیں:

ہاتھ اٹھائے سر کو جھکائے

رحم پہ تیرے آس لگائے

آئے ہیں یا رب تیرے در پر

اپنے کرم کی ہم پہ نظر کر

پرانے لوگوں کو وہ دور اچھی طرح یاد ہے جب کراچی کے کمشنر دربار علی شاہ نے بسوں کے کرائے میں اضافے سے پہلے بنیادی جمہوریتوں کے چیئرمین حضرات کو اعتماد میں لینے کے لیے ایک اجلاس طلب کیا تب کہیں جا کے بسوں کا زیادہ سے زیادہ کرایہ 25 پیسے سے بڑھا کر 30 پیسے کیا تھا۔ یہ ایوب خان کا دور تھا جسے جمہوریت کے شیدائی آج تک آمریت کا دور کہتے ہیں۔ آمریت کے دور میں عوامی مفادات کے خلاف کوئی فیصلہ کرنا کس قدر دشوار تھا؟ لیکن آج کے جمہوری دور میں ایسے فیصلے کرتے وقت جمہور کو کوئی گھاس بھی نہیں ڈالتا۔

بسوں اور ویگنوں کے کرائے میں اضافے وقت کے ساتھ ساتھ ہوتے رہے۔ جب ٹرانسپورٹ کے عالم پناہوں نے دیکھا کہ بسوں کے کرائے میں پے در پے اضافہ آسان نہیں رہا تو منی بس جیسی ’’زرد بلائیں‘‘ شہریوں پر مسلط کر دی گئیں جن کے کرائے بسوں سے زیادہ مقرر کیے گئے لیکن سہولتوں کا یہ عالم کہ سیٹوں کی تنگی کی وجہ سے ان میں بیٹھنا بسوں سے بھی زیادہ دقت طلب، منی بسوں میں انسانوں کی طرح کھڑے رہنا تو ممکن ہی نہیں۔ ان میں بالخصوص چھوٹی گاڑیوں میں مسلسل کھڑے رہ کر سفر کرنے والوں کے بارے میں تو یہ خدشہ ہر وقت لاحق رہتا ہے کہ ان کی آیندہ نسلیں بس کے باہر بھی سیدھی کھڑی نہ ہو سکیں اور کچھ عجب نہیں کہ وہ مرغوں کی طرح بانگ بھی دینے لگیں۔

بسوں کے مسافر جب منی بسوں کے اضافی کرائے اور دشواریاں برداشت کرنے کے عادی بنا دیے گئے تو کارکنان قضا و قدر نے ان کی قوت برداشت کا مزید امتحان لینے کے لیے مرے پہ سو درے کے مصداق ’’کوچ‘‘ بسوں کا انتظام کر دیا جن کا ابتدائی کرایہ کم سے کم 5 روپے مقرر کیا گیا اور آج 20 روپے کرایہ وصول کیا جاتا ہے اور اگر ایک اسٹاپ سے اگلے اسٹاپ پر اترنا ہو تو پندرہ یا اٹھارہ روپے عوام سے وصول کیے جاتے ہیں۔ یہ کوچیں بسوں کی طرح کھچا کھچ بھر کر چلائی جاتی ہیں ان میں مسافروں کو اس طرح ٹھونسا جاتا ہے جیسے پولٹری فارم کی مرغیوں کو اوپر تلے ٹھونس کر قربان گاہ کی طرف لے جایا جاتا ہے۔

کوچ میں بیٹھنے کے لیے مسافر کی صرف مالی حالت کا مضبوط ہونا کافی نہیں بلکہ اس کے لیے مضبوط دل گردے کا مالک ہونا بھی ضروری ہے۔ فحش یا سستے سفلی جذبات کے حامل فلمی گانوں کی دھن پر نہایت تیز رفتاری سے یہ سڑکوں پر دندناتی پھرتی ہیں ان کی وجہ سے کافر کی زبان پر بھی کلمہ اور گناہگار کی زبان پر بھی توبہ و استغفار آنا لازمی ہو جاتا ہے۔ دوران سفر ہر مسافر کی زبان پر دعاؤں کا ورد دیکھ کر کوچ کی تبلیغی خدمت کا اعتراف نہ کرنا زیادتی کہلائے گی۔ عام طور پر کوچ سے اترنے کے بعد دل کی دھڑکن اور نبض کی رفتار پر قابو پانے میں کچھ وقت لگتا ہے۔

کھٹارہ اور ناکارہ بسیں، ان کی سڑکوں پر کمیابی اور ملنے پر تیز رفتاری اور سڑکوں پر ان کی خرمستیاں، اور فحش فلمی گیت اور وہ بھی اکثر بھارتی۔ کرایوں میں مسلسل اضافہ، مسافروں اور بالخصوص خواتین کے ساتھ ناروا سلوک، یہ سب کچھ ایک دو دن کی بات نہیں برسہا برس سے یہ سب کچھ بسوں اور منی بسوں کے بے بس سواروں کے ساتھ ہوتا چلا آ رہا ہے۔ یہ سب چند لوگوں کے ساتھ نہیں لاکھوں مسافروں کے ساتھ روزانہ ہو رہا ہے، کسی جنگل میں نہیں کراچی جیسے بین الاقوامی شہر کے بیچوں بیچ ہو رہا ہے، ارباب بست و کشاد سے چھپا کر نہیں، ان کی نظروں کے سامنے بلکہ شاید ان کی مرضی سے ببانگ دہل ہو رہا ہے لیکن صورتحال کی اصلاح کرنے والا کوئی شخص نظر نہیں آتا۔

عجب نظام ہے اس شہر کا

نہ بس چل رہا ہے نہ بس چل رہی ہے

بلاشبہ کراچی میٹروپولیٹن سٹی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ پنجاب کی طرز پر یہاں گرین بسوں کا جال بچھا دیا جاتا تا کہ پٹرول کی بچت، آلودگی کا خاتمہ۔ کرائے کی بچت اور مسافروں کا وقت بچتا اور انھیں سہولت میسر آ جاتی لیکن گرین بسوں کی بجائے کراچی میں ’’چنگ چی‘‘ رکشوں کو لائسنس دے کر ان کی پورے شہر میں بھرمار کر دی گئی، جو کراچی کی بچی کچھی خوبصورتی کو خراب کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ حادثات کی تعداد میں بھی اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔

چنگ چی رکشوں کے ڈرائیوروں کی عمریں عام طور پر 15 سے 20 سال کے درمیان ہیں جن کے پاس نہ تو کوئی ڈرائیونگ لائسنس ہے اور نہ ہی انھیں ٹریفک کے قوانین کا عمل ہے جس کی بنا پر شہر میں حادثات بڑھ رہے ہیں۔ زیادہ پرانی بات نہیں 1981ء میں کراچی لاہور بلکہ اسلام آباد سے بھی زیادہ ترقی یافتہ اور خوبصورت شہر تھا اور اگر ماضی کا کراچی دیکھیں تو وہ دبئی، کویت ، یو اے ای وغیرہ سے بھی زیادہ صاف ستھرا ترقی یافتہ اور سہولیات کا شہر تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ دنیا کا ہر شہر ترقی کرتا اور خوبصورت ہوتا گیا مگر کراچی وقت کے ساتھ ساتھ پسماندہ اور دہشت زدہ ہوتا چلا گیا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ شہر نہ تو اپنے آپ ترقی کرتے ہیں اور نہ اپنے آپ برباد ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ شہروں اور بستیوں کو آباد ان کی ترقی اور بربادی کی ذمے داری وہاں کے حاکمان وقت پر عائد ہوتی ہے۔

کتنی دکھ بھری اور اذیت ناک بات ہے کہ گزشتہ سات برسوں سے سندھ پر پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت چلی آ رہی ہے اور اس صوبے کے حاکم اعلیٰ سید قائم علی شاہ عام طور پر ’’خواب خرگوش‘‘ کے مزے لیتے دیکھنے والوں کو دکھتے ہیں، ان کی بلا سے شہر میں پانی اور بجلی کی بندش سے 1600 کی بجائے 16000 افراد لقمہ اجل بن جائیں، انھیں نہ بسوں سے دلچسپی ہے اور نہ ہی ان بسوں کے بے بس مسافروں سے کوئی لینا دینا۔

یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ کراچی پاکستان کی معیشت میں 70 فیصد پیداواری عمل کا حصے دار ہے۔ یعنی پاکستان کی آمدنی میں 70 فیصد حصہ کراچی کا ہے۔ اور ڈی جی رینجرز سندھ کے مطابق یہی شہر سالانہ 230 ارب روپے بھتے کی مد میں اس شہر کے گاڈ فادرز کو بھی دیتا ہے۔

تو جناب! 230 ارب روپے سالانہ اور 70 فیصد قومی آمدنی دینے والے شہر کا حلیہ اس شہر کے کرتا دھرتاؤں نے بگاڑ کر رکھ دیا ہے، بلاشبہ اس شہر کی کسمپرسی، تباہی، بربادی اور پسماندگی کے ذمے دار وہ لوگ ہیں جو پچھلے 68 برسوں سے اس شہر میں سیاست گردی کر رہے ہیں اور شہر کی بربادی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ عروس البلاد، روشنیوں کا شہر اور قائد اعظم (بانی پاکستان محمد علی جناح) کا شہر قائد کہلانے والا ہمارا یہ شہر کراچی افسوس پتہ نہیں اب کس کس قائد کا شہر بن چکا ہے؟

ہم یہ نہیں کہتے کہ کراچی کے حوالے سے جو راستہ وزیر اعظم نے اختیار کیا ہے وہ یقینا غلط اور بے جواز تھا لیکن اس سے یہ ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے ذاتی خیالات اور سوچ کے حوالے سے سمجھوتوں پر سمجھوتے کررہے ہیں۔ اور یہ ایک وزیر اعظم کے منصب پر بیٹھے انسان کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں۔ خاص طور سے جب کہ ان کے اپنے بقول پاکستان کے عوام نے ان سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔ جناب وزیر اعظم کے اندر ’’اگر‘‘ قائدانہ صلاحیتیں موجود ہیں اور وہ اہم معاملات پر اپنی ایک منفرد سوچ بھی رکھتے ہیں تو ان کوانھیں بروئے کار لانا چاہیے، انھیں صرف ایک ضلعی وزیر اعظم رہنے پر قناعت نہیں کرنی چاہیے۔ کراچی کے مسائل اس شہر کی آبادی کے ساتھ ساتھ بڑھتے چلے جارہے ہیں انھیں فہم و فراست سے حل کرنا چاہیے کیونکہ ایسا کرنے ہی سے ان کی بطور وزیر اعظم مستقل بالذات حیثیت کا نقش ابھرے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔