اردو ہے جس کا نام

اوریا مقبول جان  جمعـء 24 جولائی 2015
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

پرویز مشرف کے بعد جنم لینے والی اسمبلیوں‘ نوزائیدہ جمہوری نظام اور ارباب سیاست سے اگر آپ یہ سوال کریں کہ ان سات آٹھ سالوں میں ایسا کونسا کارنامہ سر انجام دیا ہے جس پر آپ کا نام تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے تو تمام سیاسی پارٹیوں کے اراکین اتفاق رائے سے یک زبان ہو کر کہیں گے کہ اٹھارویں ترمیم… ہم نے گزشتہ ساٹھ ستر سالوں کی صوبائی خود مختاری کی جدوجہد کا ثمر لوگوں کی جھولی میں ڈال دیا۔اب صوبے آزاد اور خود مختار ہیں‘ اپنا نظام تعلیم اور نصاب تعلیم خود بنائیں‘ اپنے اسپتال خود چلائیں‘ اپنی معدنیات خود نکالیں۔

مرکز تو ایک وحدت کی علامت ہی رہے گا‘ درحقیقت یہ پاکستان اوراس کی سرحدیں اہم سچائی اور زمینی حقائق نہیں بلکہ زمینی حقیقتیں تو پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان اور خیبرپختونخوا ہیں۔ ان کی سرحدیں مقدس اور محترم ہیں۔

ان سرحدوں پر کھڑے ہو کر کوئی سیاسی لیڈر گرجتے ہوئے یہ کہہ سکتا ہے کہ اگر تم لوگوں نے ہماری یہ بات نہ مانی تو پاکستان کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا‘ اس ملک کا مستقبل مخدوش نظر آنے لگے گا۔ لیکن اسی سرحد کے اندر کوئی شخص اگر یہ سوال اٹھائے کہ یہ پنجاب‘ سرحد‘ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی سرحدیں کوئی آسمانی صحیفے نہیں بلکہ یہ لکیریں تو انگریزی سامراج نے کھینچی تھیں اور اب ان صوبوں میں موجود اقلیتوں کو بھی اپنے الگ صوبے چاہئیں تو کوئی یہ نہیں کہتا کہ اب صوبے کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا بلکہ نعرہ یہ بلند ہوتا ہے کہ ہم اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیں گے لیکن سندھ‘ پنجاب‘ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کو تقسیم نہیں ہونے دیں گے۔ لیکن پاکستان کے حوالے سے خون کا آخری قطرہ بہانے کا ذکر آپ کو بس چودہ اگست یا 23 مارچ کی تقریبات میں کہیں مل جائے۔

لسانی‘ صوبائی اور علاقائی عصبیت وہ ہتھیار ہے جس سے غریب آدمی کو دوسرے گروہ کا خوف دلا کر‘ اس کے خلاف نفرت ابھار کر سیاسی رہنما انھیں اپنے پیچھے لگاتے ہیں اور وہ بھیڑ بکریوں کی طرح سہمے ہوئے ان کے ساتھ ساتھ چلنے لگتے ہیں کہ اگر انھوں نے ایسا نہ کیا تو ملکی تناظر میں بلوچ‘ سندھی اور پختون کو پنجابی کھا جائیں گے۔

صوبائی سطح پر سندھی کو اردو بولنے والے اور اردو بولنے والوں کی سندھی‘ پختون کو ہزارہ اور ہزارہ کو پختون‘ کھا جائیں گے۔ خوف کے مارے یہ غریب عوام ان چالاک سیاسی رہنماؤں کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ میں نے چالاک کا لفظ اس لیے استعمال کیا کہ یہ تمام سیاسی رہنما‘ لسانی ہوں یا علاقائی‘ قومی ہوں یا صوبائی ان سب کی ذاتی زندگیوں کا ان تمام نعروں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ ان کے حواریوں اور اس ملک کے حکمران طبقوں کا بھی لسانیت اور علاقائیت سے دور کا واسطہ تک نہیں ہوتا۔ انھوں نے اپنے لیے ایسا نظام وضع کر لیا ہے کہ اٹھارویں کیا ایک سو اٹھارویں ترمیم بھی آ جائے اور صوبے خود مختار حکومتیں کیوں نہ بن جائیں ان کی زندگیوں پر ان کا کوئی اثر تک نہ ہو گا۔ رونا پیٹنا صرف اور صرف غریب عوام کا مقدر بن جائے گا۔

اٹھارویں ترمیم کے بلند بانگ نعروں کی گونج میں صوبوں کو تعلیمی نظام وضع کرنے کی آزادی میسر آئی ہے۔ لیکن اسمبلی کے ارکان‘ ان کے امیر عزیز و اقارب‘ بیوروکریٹ‘ جرنیل‘ کرنیل سے کپتان تک اور سپریم کورٹ کے ججوں سے لے کر سول ججوں تک سب کے بچے ایسے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جن پر اٹھارویں کیا ایک سو اٹھارویں ترمیم کا بھی کچھ اثر نہیں ہو سکتا۔ ان میں سے کوئی سبی یا خضدار میں ہو تو اس کے او یا اے لیول کی جانب لے جانے والے سیلیبس والے اسکول میسر ہیں۔

اس کے بعد وہ گلگت بلتستان چلا جائے یا میر پور خاص اس کو وہاں کے اسکول میں نہ کورس فرق ملے گا اور نہ ہی نظام تعلیم۔ اس لیے کہ صوبائی خود مختاری کا نعرہ تو غریب آدمی کے لیے ہے۔ دشمنی نہ آکسفورڈ اور کیمبرج کے تحت لیے جانے والے او لیول اور اے لیول سے ہے اور نہ ہی انگریزی ذریعہ تعلیم سے۔ ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تو وہ قومی زبان اردو ہے۔ اس قومی زبان اردو سے اسقدر دشمنی کیوں ہے۔ یہ سوال اس قدر مضحکہ خیز بن جاتا ہے جب اردو کے خلاف بولنے والے تقریریں بھی اردو میں کر رہے ہوتے ہیں۔

زبانیں اپنی ضروریات اور لوگوں کے درمیان خود بخود بننے والے رابطے سے ترقی کرتی ہیں۔ انھیں کبھی کوئی نافذ نہیں کر سکتا۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو برصغیر جہاں ہر فرد کو اتالیق فارسی ضرور پڑھاتا تھا‘ وہاں کی زبان فارسی ضرور ہو جاتی۔ لیکن سوچنے کی بات ہے کہ انتہائی جنوب میں چنائی‘ مشرق میں کلکتہ‘ شمال میں سارناتھ اور مغرب میں کوئٹہ تک پھیلے ہوئے برصغیر پاک و ہند اگر آپس میں کوئی ایک زبان لوگ رابطے اور سمجھ بوجھ کے لیے آج بھی استعمال کر رہے ہیں تو وہ اردو ہے جسے لاکھ ہندی کہا جائے‘ اس کی اصل اردو ہی ہے۔

پاکستان میں اٹک کا پل عبور کر کے آنے والے پشتون‘ رحیم یار خان کے بازار میں آنے والے سندھی‘ مکران سے کراچی آنے والے بلوچ اور شہروں شہروں گھومنے والے پنجابی کو اگر کوئی زبان بولنا آتی ہے تو وہ اردو ہے۔ ایک اور حیران کن بات یہ کہ وہ ممی ڈیڈی برگر کلاس جیسے بچپن ہی سے نرسری گیتوں کی انگریزی لوریاں ملی ہوتی ہیں وہ بھی آپس میں اپنی ایک خود ساختہ اردو میں گفتگو کرتی ہے جو اب ان کی پہچان بن چکی ہے۔ مدتوں انگریزی ذریعہ تعلیم میں پڑھنے کے باوجود وہ آج تک انگریزی کو ذریعہ اظہار نہیں بنا سکے۔ انگریزی ذریعہ تعلیم کا تصور بھی انتہائی مضحکہ خیز ہے۔

پاکستان کی کسی بھی یونیورسٹی سے لے کر او لیول یا اے لیول تک کہیں بھی آپ کو استاد انگریزی زبان میں پڑھاتے یا تشریح کرتے نظر نہیں آئیں گے۔ انھیں بات کو واضح کرنے‘ ذہن نشین کرانے اور بہترین ابلاغ کے لیے اردو استعمال کرنا پڑتی ہے۔ یہاں تک کہ انگریزی شاعری اور ڈرامے میں موجود اصطلاحات کی گرہیں بھی اردو میں کھولی جاتی ہیں اور یہ کام برسوں سے انگریزی لٹریچر کی کلاسوں میں جاری ہے کہ شکسپیئر کے ڈرامے اور کیٹس کی شاعری کا ابلاغ ایسے ہی ممکن ہے۔ سائنس کی اصطلاحات کو چھوڑ کر اور میڈیسن کے وہ الفاظ جو بیماریوں کے ناموں اور دواؤں وغیرہ سے متعلق ہیں یا پھر قانون میں مروجہ اصطلاحات کو جوں کا توں بولا جاتا ہے باقی ان سب کی تشریح کلاسوں میں اردو زبان میں کی جاتی ہے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ سائنس میڈیسن اور قانون کی یہ تمام اصطلاحات بذات خود انگریزی نہیں بلکہ لاطینی اور فرانسیسی ہیں۔ انگریز نے بھی اصطلاحات لے کر ان کی اپنی زبان میں تشریح کی اور ہم بھی وہی کرتے ہیں‘ لیکن امتحان دینے اور کتابیں لکھنے کے لیے ہم نے انگریزی کو منتخب کیا ہے۔ کتابیں تو ہم لکھ ہی نہیں رہے بلکہ انگریزی کی برآمد کر رہے ہیں اس لیے ہمیں مجبوراً امتحان لینے کی زبان بھی انگریزی رکھنا پڑتی ہے۔ یہ زبان کا مسئلہ نہیں بلکہ ہماری کام چوری ہے‘ ورنہ کتاب استاد کے ہاتھ میں انگریزی میں ہوتی ہے اور اسے سمجھانے کے لیے اسے اردو کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

لیکن سب سے زیادہ منافقت اور دوغلا پن ہماری انتظامیہ اور عدالتی نظام میں ہے۔ ہمارے سامنے روزانہ لاکھوں سائل آتے ہیں۔ اپنا دکھڑا اپنی زبان میں روتے ہیں یا پھر کوئی مسئلہ ہو تو اردو میں بیان کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان کا انتظامی عہدہ پر بیٹھا انگریز کا غلام سول سروس کا آفیسر اسے حکم نامہ انگریزی میں تھماتا ہے۔

یہی حال چھوٹی سی چھوٹی عدالت کا ہے۔ سائل اپنی زبان میں گفتگو کر رہے ہوتے ہیں‘ وکیلوں کو چار فقرے روانی سے انگریزی میں بولنے نہیں آتے لیکن درخواست بھی انگریزی میں لکھتے اور جج فیصلہ بھی انگریزی میں تحریر کرتا ہے۔ یہ ہے اس قوم کی سب سے بڑی منافقت۔ ہم کس پر ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہمیں انگریزی لکھنا پڑھنا آتی ہے۔ یقیناً ان بے بس اور مجبور اٹھارہ کروڑ عوام پر۔ مجھے کس قدر حیرت ہوئی جب وفاق نے سپریم کورٹ میں یہ جواب جمع کروایا کہ اب صدر اور وزیراعظم اردو میں تقریر کریں گے۔ اس سے عوام کا بھلا نہیں ہو گا۔

بھلا اس سے ہو گا جب آپ صرف ایک سطر کا یہ آرڈر کریں گے کہ اگلے لمحے دفتروں میں اردو مستعمل ہو گی۔ پاکستان میں بیوروکریسی کی ننانوے فیصد میٹنگ اردو میں ہوتی ہیں لیکن کارروائی انگریزی میں تحریر کی جاتی ہے۔ جس سول سروس کے آفیسر نے ساری زندگی دفتر میں اردو‘ پنجابی‘ سندھی‘ بلوچی اور پشتو بولنی ہے اس کا امتحان انگریزی میں کیوں لیا جاتا ہے۔ صرف ایک فیصلہ کہ سول سروس کا مقابلے کا امتحان اردو میں ہو گا۔ پھر دیکھئے اس ملک کے پبلشرز صرف پندرہ دن میں تمام مواد اردو زبان میں مارکیٹ میں لے آئیں گے اور تمام اشرافیہ اپنے بچوں کو اردو کی لوریاں دینے لگے گی کہ یہی حکمرانی کا راستہ ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔