جشن عید میں ساون کا تڑکا

انتظار حسین  جمعـء 24 جولائی 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

ہم حیران ہیں کہ ساون کی رت اب کے کیسی آندھی دھاندی چڑھی ہے کہ بس پہلے ہی ہلے میں موسلا دھار بارش ایسی ہوئی کہ ندی نالے چڑھ گئے‘ سیلاب امنڈ پڑا۔ خلقت گھر سے بے گھر ہو گئی۔

آگے ساون کا طور ایسا تو نہ تھا۔ کتنی منتوں مرادوں کے بعد یہ رت آتی تھی۔ پہلے چھینٹے کا کتنی شدت سے انتظار کیا جاتا تھا  ؎

ذرا چھینٹا پڑے تو داغ کلکتہ نکل جائیں
عظیم آباد میں ہم منتظر ساون کے بیٹھے ہیں

پہلے چھینٹے پر گرمی سے جھلستی خلقت کی جان میں جان آ جاتی۔ لیجیے فوراً ہی نیم کے پیڑوں میں جھولے پڑ گئے اور چاروں طرف سے گیت کے بول سنائی دینے لگے۔

ساون آیا رے

گرم چولہوں پر کڑہائیاں چڑھ گئیں۔ پکوان تلے جانے لگے۔ آموں کی ریل پیل ہو گئی۔ جامنیں پیڑوں سے ٹپ ٹپ گرنے لگیں۔ لیجیے ساون کی جھڑی لگ گئی۔ جمعرات کو شروع ہوئی ہے تو اگلی جمعرات تک تو لازمی طور پر برستی رہے گی۔ پہلی جھڑی۔ دوسری جھڑی۔ پھر ایسی جھڑی کہ بارش رکنے ہی میں نہیں آ رہی۔

ندی نالے ابلنے لگے۔ گلی محلوں میں جل تھل ہو جاتے۔ بوسیدہ دیواروں چھتوں کی الٰہی خیر۔ تب بارش رکنے کے لیے دعائیں کی جاتیں‘ آذانیں دی جاتیں۔

مطلب یہ کہ برکھا رت دھیرے دھیرے زور پکڑتی تھی۔ تب تک ہم سیلاب سے نبٹنے کے لیے بساط بھر تیاری کر لیتے تھے مگر اب تو ساون رت سانس لینے کا موقعہ ہی نہیں دیتی۔ دھڑا دھڑ مینہ برسنے لگتا ہے۔ دم کے دم میں چھاجھوں پانی برس جاتا ہے۔ پھر اللہ دے اور بندہ لے۔ اور اب کے تو کمال ہی ہو گیا۔ ہماری عید کے مقابلہ میں ساون نے اپنی عید منائی۔ ارے ہمیں عید کا دوگانا پڑھنے کی مہلت تو مل جاتی۔ سڑکوں پر پانی اتنا امنڈا ہوا کہ مسجد تک جانا دشوار ہو گیا۔

ہم جب ساون کی اس بے مروتی کا ذکر کر رہے تھے تو ایک یار بولا کہ ساون نے ہمارے ساتھ جو سلوک کیا وہ تو کیا۔ مگر شاید کچھ خطا ارباب شہر کی بھی تو ہے۔ کب سے ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ ساون کے آتے ہی کیا قیامت برپا ہوتی ہے۔ ارباب شہر اس وقت جاگتے ہیں جب پانی نو نیزے چڑھ چکا ہوتا ہے اور گلیوں محلوں میں جل تھل ہو جاتے ہیں۔ وہ سارے محکمے جن کا تعلق اس شعبہ سے ہے انھوں نے اب تک پچھلے برسوں کے تجربے سے کچھ بھی تو نہیں سیکھا۔ ارے کم از کم برسات سے پہلے نالیوں نالوں کی صفائی ہی کرا دیا کریں۔ یہ کیا کہ پہلی ہی بارش میں اگر گھٹا گھنٹہ بھر برس گئی تو نکاسی آب کے سارے سلسلے مسدود ہو جاتے ہیں۔ آج جب دو دن کے ناغے کے بعد صبح ہی اخبار نمودار ہوا تو ہم نے دیکھا کہ لاہور ایڈیشن میں مختلف چوکوں اور شاہراہوں کے تصویریں ہیں جہاں سڑک غائب ہے‘ بس دریا بہہ رہا ہے۔ اور ایک اخبار نے کیا خوب سرخی جمائی کہ لیجیے بارش کے طفیل لاہور وینس شہر بن گیا۔

ہم نے سوچا کہ ارباب شہر کا خواب کس طرح سے پروان چڑھا ہے۔ پہلے شہر کے والی وارثوں کی طرف سے اعلان ہوا کرتا تھا کہ ہم لاہور کو پیرس بنا دیں گے۔ جب کتنے برس گزر گئے اور لاہور پیرس نہ بن پایا تو ارباب شہر پیرس سے ذرا نیچے اترے اور اعلان کیا کہ ہم لاہور کو استنبول بنا دیں گے۔ لاہور کو استنبول بناؤ‘ قسطنطنیہ بناؤ۔ مگر پہلے کم از کم اتنا تو جائزہ لے لو کہ اس کی نالیوں میں پانی ٹھیک بہہ رہا ہے۔ یہ کیا کہ بالا بالا میٹرو بس دوڑ رہی ہے اور نیچے سڑک پر ندی موجیں مار رہی ہے۔

ایسے ہی ایک چوک سے ہماری کب سے آشنائی چلی آتی ہے۔ یعنی اب جو قرطبہ چوک ہے ہماری اس سے شناسائی اس وقت سے چلی آ رہی ہے جب وہ چوک مزنگ چونگی تھا۔ تب سے اب تک کتنی اکھاڑ پچھاڑ ہوئی ہے اب خیر سے اس کے ارد گرد نئی نئی تعمیر شدہ دو رویہ سڑکیں بچھی ہوئی ہیں۔ بیچ چوک میں ایک مینار کھڑا ہے۔ اس میں گھڑی نصب ہے یعنی اب یہ چوک گھنٹہ گھر بھی ہے۔ مگر زمینی صورت حال اب بھی وہی ہے کہ گھنٹہ بھر بارش ہو جائے تو ارد گرد جھیل امنڈنے لگتی ہے۔ بس پھر اس علاقہ کو وینس تصور کرو اور چوک پار کرنے کے لیے کشتی کا انتظام کرو۔

لو برکھا رت کے چکر میں ہم اپنی عید کو تو بھولے ہی جا رہے ہیں۔ عید اور ساون کا کیا خوب سنجوگ ہوا کہ ہم ایسے کتنے نماز عید سے در گزرے۔ خیر اس میں خیر کا پہلو یہ تھا کہ عید ٹھنڈک میں گزری۔ شام کو بہر حال خوب گہما گہمی تھی اور عید کے دن گہما گہمی ویسے بھی شام ہی کو ہوا کرتی ہے۔ دن تو آنے جانے والوں سے عید ملنے میں اور سویاں کھانے ہی میں گزر جاتا ہے۔ پھر شام ہی کو اہلے گہلے گھر سے نکلتے ہیں۔

مگر اب کے عید کی ٹر ذرا لمبی ہو گئی۔ عید بعد ٹر‘ دوسرا دن‘ تیسرا دن‘ چوتھا دن۔ ان کی بات جانے دو جن کے بارہ مہینے اس طرح گزرتے ہیں کہ دن عید‘ رات شب برات۔ مگر کتنی خلقت ایسی ہے کہ باقی دن جیسے بھی گزریں مگر عید کے دو ڈھائی دن وہ ساری فکریں طاق میں رکھ کر عید مناتے ہیں اور لنگوٹی میں پھاگ کھیلتے ہیں۔ ایک ایسے ہی یار سے ملاقات ہوئی تو وہ کہنے لگا کہ یار اب کے عید کی ٹر لمبی ہو گئی۔ ہم نے کہا کہ چلو اچھا ہوا۔ چار دن خوشی میں گزر گئے۔ وہ بولا‘ وہ تو ٹھیک ہے مگر ہمیں جو گلپھرے اڑانے تھے وہ تو ہم نے پہلے دو دن میں اڑا لیے۔ اس کے بعد ہماری جیب جواب دے گئی۔ خیر ہم نے پھر ادھار قرض سے کام چلایا۔ عید کی خوشی میں تو بہر حال آخر دم تک شامل رہنا چاہیے۔

لیکن عید کا ایک پہلو اور بھی ہے جہاں خوشی نا خوشی بن جاتی ہے۔ اس کا ذکر میر نے یوں کیا ہے   ؎

ہوئی عید سب نے بدلے طرب و خوشی کے جامے
نہ ہوا کہ ہم بھی بدلیں یہ لباس سوگواراں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔