پاکستان کی سرکاری زبان

عابد محمود عزام  جمعـء 24 جولائی 2015

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے21 مارچ 1948ء کو ڈھاکا میں قوم کے نام اپنے پیغام میں فرمایا تھا: ’’میں آپ کو واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی اور صرف اردو اور اردو کے سوا کوئی اور زبان نہیں ہو گی۔ دیگر اقوام کی تاریخ اس امر پر گواہ ہے کہ ایک مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم باہم متحد نہیں ہو سکتی اور نہ کوئی اور کام کر سکتی ہے۔ پس جہاں تک پاکستان کی سرکاری زبان کا تعلق ہے، وہ صرف اور صرف اردو ہی ہو گی۔‘‘ اس پیغام کا تقاضا تو یہ تھا کہ قیام پاکستان کے فوری بعد اردو کو عملی طور پر پاکستان کی سرکاری زبان کا درجہ دیا جاتا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔

روز اول سے ہماری قومی زبان پر انگریزی کی بالادستی قائم رہی۔ اسلامی دنیا میں پاکستان واحد ملک ہے، جس کی سرکاری زبان قومی کے بجائے انگریزی ہے۔ 68 سال بعد سرکاری طور پر بھی اردو پر عمل درآمد کی کچھ امید بندھی ہے اور اب جاکر وزیر اعظم نے اردو کو سرکاری زبان کی حیثیت میں منظور کیا ہے اور آیندہ تین ماہ کے اندر تمام سرکاری کاغذات جو عامۃ الناس سے متعلق ہوں گے، انھیں انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو زبان میں منتقل کیا جائے گا۔

اسی طرح صدر اور وزیر اعظم اندرون ملک اور بیرونِ ملک اردو میں ہی تقریر کیا کریں گے۔ محکمہ پولیس، محکمہ مال اور عدالتی کاغذات کے ساتھ ساتھ شاہراہوں، ائیر پورٹوں اور دوسری سرکاری عمارتوں پر آویزاں تمام بورڈ اردو میں منتقل کیے جائیں گے۔

اردو ہماری قومی زبان اور پہچان ہے، اس کے باوجود قیام پاکستان سے پہلے سے آج تک اسے اپنی بقا کی جنگ لڑنا پڑی ہے۔ برصغیر میں اردو مسلمانوں کی زبان، جب کہ ہندو ہندی زبان کے دعوے دار تھے۔ اس طرح تقسیم کے عمل میں دونوں زبانیں دو قوموں کی حیثیت اختیار کر گئی تھیں۔ اردو کو دبانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔

برصغیر کے بہت سے متعصب ہندو رہنماؤں نے اس بات پر پورا زور لگایا کہ دیوناگری رسم الخط الفاظ اور ہندی زبان کو سرکاری حیثیت حاصل ہو جائے اور ہندی کو برصغیر کی واحد مشترک زبان تسلیم کر لیا جائے۔ اردو کو جو قرآنی حروف میں لکھی جاتی ہے، بیک جنبش قلم خارج کر دیا جائے۔ انڈین نیشنل کانگریس کے بااثر عناصر اور دوسری ہندو جماعتوں نے ہندی کو رواج دینے کی بڑی کوشش کی اور اس سلسلے میں بڑی پیچیدہ، چالاک سیاست سے کام لیا، لیکن بدخواہوں کو ناکامی ہوئی۔

بانی پاکستان نے بارہا ہندو اور انگریز لیڈروں کے سامنے اس بات کا برملا اعلان کیا کہ اردو ہماری قومی زبان ہے اور ہم اس سے کسی صورت دست بردار نہیں ہو سکتے۔ 1908ء میں جب پنجاب یونیورسٹی کے ہندو وائس چانسلر ڈاکٹر چیٹرجی نے یونیورسٹی کے جلسہ تقسیم اسناد میں کہا کہ پنجاب میں اردو کی جگہ پنجابی رائج کی جائے تو مسلمانان پنجاب اس بیان کے خلاف یک زبان ہو کر میدان میں نکل آئے۔

آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوا، جس میں علامہ محمد اقبال، سرشیخ عبدالقادر، سر محمد شفیع، مولانا سلیمان شاہ پھلواری اور دیگر مسلم رہنماؤں نے اردو کی حمایت میں مدلل تقاریر کیں اور ایک جامع قرار داد منظور کی، جس میں دو ٹوک الفاظ میں کہا گیا کہ مسلمانان برصغیر اردو زبان سے کسی صورت دستبردار ہوں گے، نہ ہی اس کی جگہ کسی دوسری زبان کو رائج کرنے کی اجازت دیں گے۔ قائداعظم نے علی گڑھ یونیورسٹی میں 1941ء میں انگریزوں اور ہندوؤں کو مخاطب کر کے فرمایا تھا: ’’مجھے پاکستان میں اسلامی تاریخ کی روشنی میں اپنی ثقافت و روایات کے تحت اور اپنی اردو زبان کو برقرار رکھتے ہوئے زندگی گزارنے دو۔‘‘

قیام پاکستان سے پہلے اردو زبان کو مسلمانوں کے ساتھ تعلق کی وجہ سے ہندوؤں کی نفرت کا سامنا رہا ہے۔ اس تناظر میں مملکت خداداد پاکستان کو اپنے قیام کے ساتھ ہی اردو کو ہر سطح پر رائج کرنے کے لیے تمام تر کوششیں بروئے کار لانی چاہئیں تھیں، لیکن محبان انگریزی نے قومی خواہشات کا اول روز سے استہزا اڑایا اور مختلف حیلوں بہانوں سے مادری زبان کی عملداری کے راستے میں روڑے اٹکائے۔ حالانکہ  1973ء میں متفقہ طور پر منظور کیے جانے والے دستور کے مطابق: ’’پاکستان کی قومی زبان اردوہے اور دستور کے یوم آغاز سے پندرہ برس کے اندر اندر اس کو سرکاری و دیگر اغراض کے لیے استعمال کرنے کے انتظامات کیے جائیں۔ 15 برس کی دی گئی مہلت 1988ء میں ختم ہوئی، لیکن قومی زبان اردو کو عملی طور پر سرکاری زبان کی حیثیت نہیں ملی اور مسلسل یہ اہم معاملہ سرد خانے کی نذر ہو چلا تھا۔

مقام شکر ہے کہ عدالت عظمیٰ کی تحریک پر چار و ناچار حکومت کو اس بابت حتمی فیصلہ کرنا پڑا اور اب ملک میں اردو کے نفاذ کی راہیں کسی حد تک ہموار ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ بلاشبہ حکومت کی جانب سے قومی زبان کے نفاذ کو عملی شکل دینے کے لیے سامنے آنے والا فیصلہ قوم کی دیرینہ امنگوں اور خواہشات کا حقیقی ترجمان ہے اور محب وطن حلقوں نے حالیہ حکومتی اقدام کو زبردست پذیرائی بخشی ہے، کیوں کہ اس سے دوررس نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ امر واقع یہ ہے کہ اردو قومی زبان کا درجہ رکھنے کے باوجود ایک یتیم اور لاوارث زبان رہی، جس کی بنا پر مختلف النوع مسائل اور مشکلات نے جنم لیا ہے۔

قومی زبان سے بے اعتنائی اور صرف نظر کی حوصلہ شکن روایت نے ملک کے اندر زبردست طبقاتی تفریق اور معاشرتی حد بندی پیدا کررکھی ہے، جب کہ حکومتی سطح پر انگریزی زبان کو غیر معمولی اہمیت اور مقام دینے کے باعث عوام اور بااثر طبقات کے درمیان تعلیم و تربیت، تہذیب و تمدن اور اظہار مافی الضمیر کے لیے زبان کے انتخاب کی ایک وسیع خلیج حائل ہو چکی ہے، جس کے باعث قوم کے غریب اور کمزور طبقات احساس محرومی میں مبتلا ہیں تو دوسری جانب نفسیاتی اور ذہنی اعتبار سے انگریزی دان طبقہ خود سے احساسِ تفاخر کو جدا نہیں کر پایا۔

اردو کا کھویا ہوا مقام بحال کرنے سے یقیناً سماجی اعتبار سے پیدا ہونے والی تفریق کے خاتمے میں مدد مل سکے گی اور عوام کو مقامی زبان میں ارباب بست و کشاد کی تقریر و تحریر اور ریاستی اداروں کے امور کو سمجھنے میں سہولت ہو گی۔ اگرچہ اردو کے نفاذ کا حکومتی فیصلہ ابتدائی مرحلے میں ہے اور فی الوقت اس سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں کی جا سکتیں، تاہم نیک نیتی کے ساتھ فیصلے پر عمل پیرا ہو جائے تو امید ہے کہ ملک میں نظام تعلیم کی وحدانیت کا تصور بھی اجاگر ہو سکے گا اور اردو کو واحد تعلیمی زبان کے طور پر نافذ کیا جا سکے گا۔یہاں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کی جانی چاہیے کہ جدید دنیا میں ترقی، ٹیکنالوجی اور سائنس میں کمال کا انحصار محض انگریزی زبان پر موقوف نہیں، بلکہ آج معاشی اور دفاعی لحاظ سے قابل ذکر ممالک کی ترقی کا واحد راز مادری زبان کو بنیادی اہمیت اور مرکزیت دینا ہے۔

چین، جاپان سمیت کئی ممالک کی مثالیں اس ضمن میں پیش کی جا سکتی ہیں، جہاں انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے کی بجائے اسے عالمی رابطہ کاری ذریعہ تصور کیا جاتا ہے، لیکن اس کے باوجود اقوام عالم کے سامنے ان قوموں کو کسی قسم کی شرمندگی اور خجالت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ قومی تشخص کی علامت اردو زبان پر دوسری زبانوں کو فوقیت دینا ترقی نہیں، بلکہ تنزلی ہے۔ تعجب ہے کہ باقی دنیا کے برعکس ہماری اپنی ہی قوم اسے قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ پاکستان میں انگریزی فرفر بولنے والے کو جو اہمیت دی جاتی ہے، ایک اچھی اردو لکھنے اور بولنے والے کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ ہمارا یہ رویہ اس بات کا واضح عکاس ہے کہ ہم احساسِ کمتری کا شکار ہیں اور شکست خوردہ قوم بننے کی طرف مائل ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔