نیوٹرل امپائر کا فیصلہ

ایاز خان  ہفتہ 25 جولائی 2015
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

عمران خان نے نیوٹرل امپائررکھواکر دیکھ لیا‘ فیصلہ پھر بھی ان کے خلاف آیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان ناصر الملک کی سربراہی میں تین رکنی جوڈیشل کمیشن نے الیکشن 2013ء کے حوالے سے جو رپورٹ یا فیصلہ دیا اس نے نواز حکومت کو کلین چٹ دے دی ہے۔ وزیر اعظم نے قوم سے خطاب میں اگر یہ کہا کہ جوڈیشل کمیشن نے ان کے مینڈیٹ کی توثیق کر دی تو یہ ہرگز غلط نہیں ہے۔ عمران خان نے دھرنے میں نیوٹرل امپائر کی اصطلاح کافی مرتبہ استعمال کی۔

وہ ہمیشہ کہتے رہے کہ نواز شریف امپائروں کو ساتھ ملا کر جیت جاتے ہیں۔ موجودہ نیوٹرل امپائر یعنی جوڈیشل کمیشن کے سربراہ کی تعریف تو خان صاحب نے اس وقت سے کرنی شروع کر دی تھی جب وہ چیف جسٹس بھی نہیں بنے تھے۔ کمیشن کی رپورٹ پر عمران خان کے ردعمل میں تاخیر ہوئی ہے تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ نیوٹرل امپائر کو کلین چٹ دے چکے تھے۔

اور پھر تحریک انصاف کے چیئرمین کو جو دھچکا لگا ہے وہ دھرنے کے خاتمے سے بھی بڑا ہے۔ دھرنا ختم ہونے کے بعد بھی عمران خان کے پاس حکومت پر حملے کرنے کے مواقع موجود تھے۔ بقول ان کے یہ ایک ایسی حکومت تھی جو منظم دھاندلی کے ذریعے اقتدار میں آئی تھی۔ عمران کی بات پر مکمل اعتبار نہ کرنے والے بھی الیکشن 2013ء کے حوالے سے شکوک و شبہات کا شکار ضرور ہو جاتے تھے۔ البتہ اب معاملہ الٹ ہے۔ تحریک انصاف زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتی ہے کہ دھاندلی ہوئی لیکن ان کی ٹیم یہ ثابت نہیں کر سکی۔

عمران اس کار زار میں آنے کے بعد نیوٹرل امپائرز کا مطالبہ کرتے وقت یہ بھول جاتے تھے کہ یہ کرکٹ نہیں سیاست ہے۔ کرکٹ کے میدانوں میں انھوں نے دنیا کی مضبوط ترین ٹیموں کو شکست دی لیکن یہاں ان کا مقابلہ تیسری بار وزیر اعظم بننے والے نواز شریف سے تھا۔ میاں صاحب کی خوش بختی پر کسی کو شبہ ہو سکتا ہے؟۔کیا وہ واحد وزیر اعظم نہیں ہیں جنھیں 58 ٹو بی کے تحت غلام اسحاق خان نے بطور صدر گھر بھجوایا مگر اس وقت کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ مرحوم کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے بنچ نے انھیں وزیر اعظم ہاؤس میں با عزت واپسی کے لیے کلین چٹ دے دی۔

یہ وہی نسیم حسن شاہ تھے جو ایک وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنانے والے بنچ میں شامل تھے۔ ملکی تاریخ گواہ ہے کہ میاں صاحب سے پہلے اور ان کے بعد اب تک کسی کو ایسا ریلیف نہیں ملا۔ تاریخ کے طالب علم یہ جانتے ہیں کہ 1958ء میں فیروز خان نون کی حکومت ختم کر کے سکند مرزا نے ملک میں پہلا مارشل لاء لگایا تھا تو ان کی اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین نے حکومت کو برطرف کرنے کے خلاف چیف کورٹ آف سندھ سے رجوع کیا مگر انھیں کوئی ریلیف نہیں ملا۔

ضیاء الحق نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹا تو نصرت بھٹو نے عدالتی دروازہ کھٹکھٹایا مگر نظریہ ضرورت کے تحت ان کا کیس بھی دفن کر دیا گیا۔ اس کے بعد ضیاء الحق کے اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے وزیر اعظم محمد خان جونیجو اور بے نظیر بھٹو کی برطرف حکومتیں بھی بحالی کا منہ نہ دیکھ سکیں۔ نواز شریف، جنرل مشرف سے 10سالہ جلا وطنی کا معاہدہ کر کے سعودی عرب گئے تو ان کے قریبی ساتھی بھی ان سے دور ہو گئے۔

جنرل مشرف نے ’’اپنی‘‘ پارلیمنٹ سے ترمیم کے ذریعے یہ اہتمام بھی کر لیا تھا کہ نواز شریف اور بے نظیر تیسری بار وزیر اعظم نہیں بن سکتے اس کے باوجود نواز شریف آج تیسری بار وزیر اعظم پاکستان ہیں۔ بے نظیر چونکہ دنیا میں نہیں رہیں اس لیے کوئی متبادل نہیں دور تک!!!!!دھرنے کے دنوں میں نواز حکومت کی حالت صبح گیا یا شام گیا والی تھی۔ انکوائری کمیشن کی رپورٹ کے بعد یوں لگ رہا ہے کہ نواز شریف ’’تاحیات‘‘ وزیر اعظم پاکستان بن گئے ہیں۔ ایک رپورٹ نے ہر مشکوک شخص کو عزت کی دستار پہنا دی ہے۔

کرکٹر عمران خان میں یہ خوبی تھی کہ وہ مخالف ٹیم کی کمزوریوں کا اندازہ لگا کر اس پر کاری وارکرتے اور اس کا کام تمام کر دیتے۔ دھرنے کے دنوں میںکپتان کے6مطالبات سب کو یاد ہوں گے۔ان میں سے5 مطالبات پر بات بن سکتی تھی۔5مطالبات سے مجھے عمران خان کرکٹر کے چند انٹرویوز یاد آ رہے ہیں۔

وہ کہا کرتے تھے کہ جب مخالف ٹیم کے 5کھلاڑی آؤٹ ہو جائیں تو پھر بولرز کو چاہیے کہ وہ پوری طرح حملہ آور ہو جائیں۔5بیٹسمین آؤٹ ہونے کا مطلب ہے کہ وکٹ پر ٹیل اینڈرز کی آمد شروع ہو گئی۔ مستند بیٹسمین کے بجائے ٹیل اینڈرکوآؤٹ کرنا بولرکے لیے آسان ہوتا ہے۔ 6مطالبات کا ذکر چھڑا ہے تو عمران خان کی جنرل راحیل شریف کے ساتھ دھرنے کے دنوں میں ملاقات بھی یاد آ رہی ہے۔ اس ملاقات میں کپتان سے دو ٹوک انداز میں یہ کہا گیا تھا کہ نواز شریف استعفٰی نہیں دیں گے۔

اس کا مطلب یہ تھا کہ ان کے باقی5مطالبات تسلیم ہو سکتے ہیں۔ یعنی انھیں مخالف ٹیم کے5 کھلاڑی آؤٹ کرنے کا نادر موقع مل چکا تھا۔ وہ اپنے حریف پر بھر پور حملہ کرنے کی پوزیشن میں تھے۔ کرکٹر عمران خان جس موقع سے پورا فائدہ اٹھاتا تھا سیاستدان عمران خان وہاں مات کھا گیا۔

میرے خیال میں یہ کپتان کی پہلی ناکامی تھی۔ دھرنا اس کے بعد بھی چلتا رہا۔ آرمی پبلک اسکول پشاور میں دہشتگردی کی بدترین کارروائی کے بعد دھرنا ختم کرنا پڑا تو اس کا نقصان ضرور ہوا مگر وہ وار ایسا نہیں تھا کہ اس سے سنبھلنے کا موقع نہ ملتا۔ یہاں ایک بار پھر کپتان سے غلطی ہو گئی۔ اے پی ایس حملے کا سوگ ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ عمران نے ریحام خان سے شادی کر لی۔ اسے دوسری ناکامی تو نہیں البتہ غلطی ضرور کہا جا سکتا ہے۔ کپتان کے اس فیصلے نے ان کے ’’چاہنے‘‘ والوں کو نہ صرف دکھی کیا بلکہ ان سے دور بھی کر دیا۔

انکوائری کمیشن کی رپورٹ کے بعد کپتان کے حامی خاموش ہیں۔ مخالفین سیاست چھوڑنے اور قوم سے معافی مانگنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان پر مقدمہ چلانے کا مطالبہ بھی ہو رہا ہے۔ ایک صدمے سے دوچار، دوسرے حالت جشن میں ہیں۔ دونوں اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین اوران کی پارٹی کو اس سے بڑا سیاسی جھٹکا نہیں لگ سکتا ۔ نواز شریف فاتح اور عمران خان شکست خوردہ نظر آ رہے ہیں۔ کرکٹر کپتان بہت بڑا فائٹر تھا۔کیا سیاستدان کپتان فائٹ بیک کر سکے گا؟ اس سوال کا جواب میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔