نیویارک سے

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 25 جولائی 2015

اگر آپ کے پاس وقت بہت زیادہ اور کرنے کو کچھ نہیں ہے اور اگر آپ کو بے تکی باتیں کرنے میں مہارت حاصل ہے تو پھر آپ تھوڑی دیر کے لیے مذہبی انتہا پسندوں کے ہمنوا بن جائیے اور ان کے ساتھ مل کر زور زور سے امریکا کے خلاف بولنا شروع کر دیجیے اور جتنے بھی الزامات لگا سکتے ہیں لگا دیجیے اور جب آپ الزامات لگا لگا کر تھک جائیں اور اس سے زیادہ بک بک کر نے کی آپ میں طاقت نہ رہی ہو تو پھر آپ خا موشی اختیار کر لیجیے اور میری بات کان لگا کر ٹھنڈے دل کے ساتھ سنیے میں آپ کو سچ بتا نے والا ہوں۔

ایک ایسا سچ جسے عرصے سے چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ نیویارک کا ایک علاقہ جسے Brighton کہتے ہیں جو ایک خوبصورت بیچ بھی ہے جس میں ریسٹورنٹ بڑی تعداد میں ہیں جہاں آپ کو ہر ملکی اور غیر ملکی کھانا دستیاب ہوتا ہے، اس علاقے میں رشیا سے آئے ہوئے لوگ بڑی تعداد میں مقیم ہیں جو انتہائی خوشحال ہیں یہاں یہودی بھی بڑی تعداد میں رہائش پذیر ہیں اور اس علاقے میں پاکستانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد آباد ہے اور ساتھ میں بنگالیوں کی بھی بڑی تعداد موجود ہے۔

خوش قسمتی سے نیویارک میں میرے میزبان راج جو وہاں کے ایک بڑے وکیل ہیں اور ان کے دو صاحبزادوں کا شمار بھی بڑے وکیلوں میں ہوتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان کے ایک صاحب زاد ے کی بیوی بھی وکیل ہیں اور دوسر ی کی منگنی ایک یہودی وکیل سے ہو چکی ہے ۔

ان کا گھر عین اس علاقے میں واقع ہے جہاں چاروں طرف مسلمان پاکستانی نژاد آباد ہیں۔ راج صاحب نہ صرف ایک بڑے وکیل ہیں بلکہ ایک بڑے انسان بھی ہیں جنہوں نے پاکستان سے امریکا منتقل ہونے والے مسلمان خاندانوں کی Immigration کے سلسلے میں بہت مدد کی لاتعداد لوگوں کی مفت وکالت کی نہ صرف یہ کہ لوگ ان کی عزت کرتے ہیں بلکہ ان سے محبت بھی کرتے ہیں کیونکہ وہ ان کے برے اور مشکل وقتوں میں ہمیشہ ان کے بہت کام آئے اور آ رہے ہیں۔

ان کی بیوی جن کا نا م لاجو ہے جو امریکا منتقل ہونے سے پہلے حیدرآباد میں مقیم تھیں وہ بھی لاجواب خاتون ہیں جو گھر کا کام بھی سارا خود کرتی ہیں اور ساتھ میں باہر کے سارے کام بھی خود ہی کرتی ہیں۔ اس سارے گھر انے کا میزبانی کرنے میں کوئی جواب نہیں ہے انھوں نے رہنے کے لیے اپنا کمرہ ہمارے بار بار منع کرنے کے باوجود ہمیں دے دیا۔

ذہن نشین رہے ان کے کمرے میں چھوٹا سا مندر بنا ہوا ہے اور یہ معلوم ہونے کے باوجود کہ میں مسلمان ہوں وہ بضد رہے کہ ہم ان کے کمرے میں مہمان بن کے رہیں۔ اگلی صبح راج صاحب مجھے اور میری بیوی کو علاقے کی سیر کروانے لے کر نکل پڑے اور جیسے ہی ہم علاقے کی سیر کے لیے راج صاحب کے گھر سے باہر نکلے تو میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جب میں نے یہ دیکھا کہ عورتیں شلوار قمیض پہنیں آ جا رہی ہیں کسی نے برقع پہن رکھا ہے تو کوئی حجاب پہنے ہوئے ہے۔

مرد شلوار قمیض پہنے اپنی اپنی دکانوں کے اندر اور باہر بیٹھے ہوئے ہیں، اردو میں بات چیت کر رہے ہیں ان کی دکانوں کے سائن بورڈ انگلش کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی ہیں ہر بلاک میں دو دو مسجدیں موجود ہیں، ہر مسجد کے باہر بڑے بڑے حروفوں میں کلمہ تحریر ہے اور جب میں نے یہ دیکھا کہ لوگ بڑی بڑی داڑھی رکھے ہاتھ میں تسبیح پڑھتے ہوئے مسجدوں میں آ جا رہے ہیں تو میں ایک لمحے کو چکرا گیا اور میں گرنے کو ہی تھا تو راج صاحب نے مجھے سنبھالا اور زور زور سے ہنسنے لگے اور کہنے لگے ’جنا ب امریکا میں مسلمانو ں کو جو مذہبی آزادی حاصل ہے وہ آپ کو پاکستان میں بھی حاصل نہیں ہے۔

یہاں ہر شخص اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کرنے کے لیے آزاد ہے یہاں کوئی کسی کو مذہب یا عقیدے یا فرقے کی بنیاد پر قتل نہیں کرتا یہاں کوئی مسجد میں گھس کر خود کش حملہ نہیں کرتا، یہاں فرقہ وارا نہ فسادات نہیں ہوتے۔ یہاں نماز پڑھتے ہوئے کوئی خطرہ یا ڈر نہیں ہوتا ہے یہاں رنگ، نسل، عقیدے، مذہب اور زبان کی بنیاد پر کوئی کسی سے نفرت یا تعصب نہیں کرتا ہے۔ ان کے کھانے پینے کے برتن الگ نہیں رکھتا ہے۔ یہاں سب مذاہب کے لوگ اختلا ف کے باوجود ایک دوسرے کے مذہب کا احترام کرتے ہیں۔ یہاں اختلاف پر سب نے اتفاق کر لیا ہے۔ یہاں سب مذاہب اور عقیدے کے لوگ ایک خاندان کی طرح رہتے ہیں۔

ایک دوسرے کے دکھ مل کر بانٹتے ہیں اور ایک دوسرے کی خوشیاں مل کر مناتے ہیں‘ وہ کہنے لگے کوئی بھی مذہب نفرت اور تعصب کی تعلیم نہیں دیتا ہے آپ انجیل پڑھ لو یا توریت یا گیتا یا قرآن شریف یہ سب مقدس کتابیں انسان سے محبت اور انسانیت کی تعلیم دیتی ہیں پھر کہنے لگے آپ پورا امریکا گھوم لو جو منظر آپ یہاں دیکھ رہے ہو۔ اس سے ملتے جلتے منظر آپ کو امریکا کے ہر شہر کے مختلف علاقوں میں جہاں مسلمان آباد ہیں دیکھنے کو ملیں گے۔

امریکا میں مسلمان بڑی تعداد میں ہیں اور انھیں اپنی مذہبی عبادات اور رسومات ادا کرنے میں اتنی ہی آزادی حاصل ہے جتنی کہ کسی دوسرے مذہب کے لوگوں کو حاصل ہے پھر کہنے لگے میں اب اپنے آفس جا رہا ہوں تم گھومو، پھرو اور جاتے جاتے تاکید کی کہ مسجدوں کے پیش اماموں سے ملاقات ضرور کرنا تا کہ تمہیں ان کے خیالات سے بھی آگاہی حاصل ہو اور شام کو تم سے گھر پر ملاقات ہو گی یہ کہہ کر وہ اپنے آفس کے لیے نکل پڑے۔

ان کی تاکید کے بعد مجھ میں پیش اماموں سے ملاقات کا تجسس اور جاگ اٹھا اور میں سیدھا مسجد کے پیش امام کی خدمت میں جا کھڑا ہوا۔ حال احوال کے بعد جب میں نے ان کی مذہبی آزادی کے بارے میں سوال پر سوال کرنا شروع کیے تو وہ میں حیران رہ گیا کہ ان کے خیالات راج کے خیالات سے ملتے جلتے تھے وہ کہنے لگے ہمیں وہی مذہبی آزادی حاصل ہے جو کسی عیسائی اور یہودی یا ہندو کو حاصل ہے۔ اور جب میں ان سے ملاقات کر کے مسجد سے باہر نکلا تو میرا دل چاہ رہا تھا کہ میرے پر لگ جائیں اور میں پاکستان جا کر اپنے ہم وطنوں کو آنکھوں دیکھا حال ابھی جا کر بتاؤں۔

اگر آپ کو میری باتوں کی سچائی پر کوئی شک و شبہ پیدا ہو تو آپ مہربانی کر کے نیویارک میں مقیم اپنے رشتے دار یا دوست سے فوراً فون کر کے ان سے میری ساری باتوں پر حال احوال ضرور کر لیجیے گا۔ تو آپ ساری سچائی خود ان کی زبانی بھی سن لیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔