رپورٹ

جاوید قاضی  ہفتہ 25 جولائی 2015
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

2013 کی الیکشن کے حوالے سے بنائے گئے کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر آگئی۔ ابھی اس پر بہت سی بحث ہونا باقی ہے اور اس کی روح تک پہنچنے کے لیے بھی وقت درکار ہے۔ تقریباً 240 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ کو اس خادم نے بھی پڑھنے اور سمجھنے کی جسارت کی۔

نہ اس رپورٹ پر ان لوگوں کو خوش ہونے کی ضرورت ہے جو اس کو دھاندلی کرنے کا سرٹیفکیٹ سمجھتے ہیں، نہ اس رپورٹ پر رونے کی ضرورت ہے، ان لوگوں کو جو یہ سمجھتے تھے کہ تھرڈ امپائر یعنی کمیشن نے بالآخر LBW قرار دے دینا ہے۔ یوں تو یہ کورٹ نہیں تھی جیساکہ رپورٹ کے پچھلے صفحات میں مقید ہے نہ اس میں آمنے سامنے فریقین تھے پھر بھی یہ رپورٹ کہتی ہے کہ اس نے ایسا کچھ کسی حد تک سمجھا بھی جیسے PTIکے وکیل نے گزارش کی۔

ہاں مگر یہ کمیشن پاکستان کے اعلیٰ ترین انصاف کے پیمانوں کے آنکھ رکھنے والے ذہنوں پر مشتمل تھی جبکہ  ساتھ ساتھ اس کمیشن نے سول پروسیجر 1898 نیز قانون شہادت 1984 کے بہت سے اصول بھی روا رکھے۔ لیکن ان سب پر عبور رکھتے تھے کمیشن کے  وہ TOR یعنی ٹرم آف ریفرنس جس کے لیے وہ بنائی گئی تھی۔

کمیشن نے TORسے آگے جانے کی کوشش بھی نہ کی اور نہ ہی اس کی ضرورت تھی۔ لیکن یہ کام عمران خان اور اس کی ٹیم کا تھا کہ آرڈیننس 2015 VII جس کے تحت یہ انکوائری کمیشن بنا جو پورے پاکستان کی مجموعی 849 قومی و صوبائی اسمبلی میں دھاندلی کے حوالے سے تھی نہ کہ عمران کی 75 قومی اسمبلی پر مبنی تھی جہاں وہ کہتے تھے، دھاندلی ہوئی ہے۔ اس لیے TOR 3(a),(b)(c)میں کمیشن سے تین سوال کیے گئے تھے کمیٹی کو بعدازاں تحقیق اور وہ بھی 45 دنوں میں مکمل کرکے دینی تھی۔ نوٹیفکیشن کمیشن کے قیام کا جاری ہوا 9 اپریل 2015 کو، کمیشن کی پہلی نشست ہوئی 16 اپریل 2015 کو۔

کمیشن نے پہلے دن سے اپنے آپ کو TORکی روح سے دیکھا جو درخواستیں داخل ہوئیں اور دیکھا گیا کہ کون پیش ہوں گے ان سب کو واپس کرکے بالآخر ایک Questioner بنا کے سب کو دیا کہ اس طرح کمیشن میں آئیں اور اس کی معاونت کریں تاکہ سچ تک پہنچا جائے۔ ملاکھڑا تو خود مسلم لیگ (ن) اور PTI نے بنایا، ورنہ تاریخ بتاتی ہے اور یہ کمیشن کے ماہیت کا بنیادی اصول ہے کہ وہ کورٹ کے فیصلوں کے برعکس کبھی بھی لازم نہیں ہوتیں کہ ان پر لازمی عمل درآمد ہو۔ اور یہ بات خود رپورٹ آگے جانے سے پہلے واضح کرتی ہے۔ اس لیے اس میں کہاں جارحیت مقید ہے؟

کمیشن اپنے اختتامی کلمات کی پہلی سطر میں یہ کہہ دیتا ہے کہ PTI کی شکایات یا ان کا کمیشن بنانے کی ڈیمانڈ بلا جواز نہ تھی۔ جس کو ہم قانونی زبان میں کہتے ہیں کہ ان کی بات میں وزن تھا یعنی ان کی شکایت prima facie صحیح تھی یعنی اس پر تحقیق اور جانچ پڑتال لازمی تھی ۔ اور جو دو فریق تھے جو پہلے دن سے ایک طرف کھڑے تھے یعنی حکومت اور ECP، اس میں سے انھوں نے دوسرے فریق یعنی ECP کی تو اچھی خاصی خبر لی ہے۔

اسے اگر انتہائی نہیں تو بھی  بہت نااہل ادارہ قرار دیا ہے۔ اب یہ بحیثیت تبصرہ نگار یہ میرا استحقاق ہے کہ میں اس سے کیا معنی نکالتا ہوں۔ میرے معانی کچھ اس طرح ہیں کہ جس طرح بری حکمرانی، دہشت گردی کا سبب بنتی ہے، اسی طرح بدحال ECP بھی خود دھاندلی کا سبب بنتا ہے۔ باقی رہی حکومت وہ براہ راست فریق نہ تھی بالواسطہ فریق تھی، یعنی PML-N کی حکومت تھی۔ جس نے پنجاب میں دھاندلی کرائی تھی یا ان پر الزام تھا۔ اور وہ الزام PTI ٹھوس ثبوت نہ لاکر ثابت نہ کرکے موقع گنوا بیٹھی۔

کمیشن کے آگے یہ حقیقت بھی تھی 1971کہ  میں انتخابی نتائج نہ ماننے سے ملک دولخت بھی ہوا تھا۔ کمیشن کے پاس باقی ماندہ بنے ہوئے کمیشن کی تاریخ بھی عیاں تھی۔ کمیشن میں بیٹھے ہوئے صاحبان کو یہ بھی پتا تھا کہ ’’یقینیت‘‘ یعنی Certainty کا سسٹم چل رہا ہے وہ کتنا ضروری ہے۔

ہماری 2013 کی الیکشن کا تناظر ماضی کی الیکشنوں سے ہوگا نہ کہ ہندوستان یا امریکا کے الیکشنوں سے، اس طرح تو 2013 کا الیکشن 2008 کا تسلسل تھا،  2000 کا الیکشن 2002 کے الیکشن کا تسلسل۔ جیسا دیس ویسا بھیس والا ماجرا تھا۔ اور اس تناظر میں 2013 کے الیکشن ترتیب شدہ دھاندلی کی متقاضی نہیں ہوتی۔ ہاں البتہ خان صاحب نئے آئے ہیں اس سیاست کے آداب میں،  اور وہ یقین وعادات رکھتے ہیں کرکٹ کے میدانوں میں امپائر کے کیے ہوئے فیصلوں پر، یعنی ادھر گزارش ادھر فیصلہ۔

الیکشن جبکہ ارتقا مانگتا ہے۔ یقیناً بہت سے لوگ خان صاحب کو سسٹم پٹڑی سے اتارنے کا مرتکب سمجھتے ہیں، لیکن میں خان صاحب کو اجارہ داری اور معروضی سیاست توڑنے کا مظہر سمجھتا ہوں۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ ان کے پرو اسٹیبلشمنٹ رویے یا طالبان دوستی والی باتیں موقع پرستی وغیرہ کہی جاسکتی ہیں۔

لیکن اس نے بیک وقت ملک کی چار پانچ بڑی جماعتوں کی اجارہ داری کو چیلنج کیا اور ہلا کے بھی رکھ دیا جس میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام وغیرہ، ان پارٹیوں کے اندر انتخابات نہیں ہوتے۔ اور اس وجہ سے ان پارٹیوں کے اندر خاندانوں کی اجارہ داری ہے۔ اور یہ ایسی چوری ہے جو پاکستان کا کوئی بھی قانون نہیں پکڑتا کیوں کہ دکھاوے کے لیے یہ اندر ہی اندر  الیکشن کرواتے ہیں۔ یوں کہیے کہ ان پارٹیوں کے اندر Shame Democracy ہے ، یعنی ہاتھی کے دانت دکھانے کے لیے کچھ اور، اور کھانے کے لیے کچھ اور۔

خان صاحب نے اس سسٹم کے اندر جو سقم Lacuna ہیں جس کی وجہ سے جو Leakages ہیں اس کی نشاندہی کی ہے۔ یقیناً وہ تنقید سے ماورا و مستثنیٰ نہیں ہیں ، ان کے دھرنے سے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ مضبوط ہوا ہے۔

کمیشن کہتا ہے کہ کسی فریق نے بھی مکمل الیکشن کے پراسس کو چیلنج نہیں کیا جب کہ TOR کمیشن سے کچھ اس طرح کے حقائق مانگتے تھے۔ PTI پنجاب اور کراچی کے انتخابات کو، جماعت اسلامی نے صرف کراچی، پیپلز پارٹی نے پنجاب، کچھ نہ کچھ بلوچستان وغیرہ کو۔ خاص طور پر اندرون سندھ اور خیبر پختونخوا کی انتخابی صورتحال و نتائج کو مجموعی طور کسی نے بھی چیلنج نہیں کیا۔ TOR نے کسی ایک نشست کے حوالے سے دھاندلی دیکھنے کو نہیں کہا تھا اور نہ ہی دو چار نشستوں کو بیک وقت۔ انفرادی نشستوں کی دھاندلی کے لیے ٹرائل کا نظام موجود تھا اور وہ ٹرائل یہ کام کر رہے تھے جبکہ کمیشن کے قیام سے ان کے کام کو روکا بھی نہیں گیا تھا۔

کمیشن کا کہنا ہے کہ کوئی بھی ٹھوس شواہدات سامنے نہ لاسکا جبکہ قانون شہادتی اور سول پروسیجر کے تحت شواہدات کے وزن کا پیمانہ دیکھنے کا طریقہ کار Balance of Provability پر تھا جوکہ کرمنل پروسیجر سے کم وزنی ہے اس کے باوجود ساری باتیں جو الیکشن کی دھاندلی کے حوالے سے کی گئیں وہ اگر مفروضوں پر نہ بھی تھیں تو اس کا وزن حکومت کی حمایت میں جاتا ہے۔ یہ بات کمیشن نے TOR 3(b)کا جواب دیتے ہوئے کہی ہے ، کمیشن نے NADRA کے سسٹم کو بھی دیکھا جس سے بھی دھاندلی ظاہر نہیں ہوئی جبکہ ان 37 حلقوں کے حوالے سے ٹرائل کورٹ نے ہدایات بھی دی تھیں، ماسوائے اس کے کہ ان کا سسٹم یا ECPکا سسٹم بہتر نہ تھا۔ دھاندلی ثابت نہیں ہوئی۔

FAFEN جوکہ الیکشن کی شفافیت کو دیکھنے کے حوالے سے ایک NGOہے جس کے ڈونر امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین ہیں۔ یہ NGOرجسٹر بھی نہیں لیکن اس NGO نے 8495 پولنگ اسٹیشن کا سروے کیا یا 264 حلقوں کا، جن میں کل 10 فیصد ووٹوں کا Turn Over تھا۔

اس سروے کے مطابق کیا ہوا۔ الیکشن کمیشن کے بقول کامیاب امیدوار اور دوسرے نمبر یا تیسرے نمبر پر آنے والے امیدوار سے سمت میں تھا۔ اور جب کمیشن نے FAFEN کے سربراہ سے پوچھا کہ ان کا Parallel Vote Tabulation یا PVT کیا ہے۔ تو اس کے سربراہ نے بتایا کہ یہ سائنسی طریقہ ہے جس سے سروے کیا جاتا ہے اور اس سے پتہ چل جاتا ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے یا نہیں اور اس سے بتائے گئے نتائج اور ECP کے نتائج میں ذرا بھی فرق نہیں۔

کمیشن کہتا ہے کہ یہ بات تو خود PTI بھی کہتی ہے کہ پنجاب میں PML-N نے ایک کروڑ چالیس لاکھ ووٹ لیے ہیں اور PTI نے 70 لاکھ ووٹ۔ پچاس فیصد کے اس فرق کو کیسے ایک ایسی دھاندلی سے ماخوذ کیا جاسکتا ہے جو عوام کی رائے کو بالکل نگل گئی ہو۔

بہرحال آئندہ کے الیکشن کے لیے کمیشن کی رپورٹ ECP کے اندر انقلابی تبدیلیوں کی بات کرتی ہے۔ یقیناً کمیشن کی رپورٹ ہمارے انتخابی نظام میں پڑے بوسیدہ طریقہ کار کو واضح کرتی ہے اور اس کے لیے آئندہ کوئی گنجائش نہیں رہتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔