سیلاب کیوں آتے ہیں ۔۔۔

سعید احمد  ہفتہ 25 جولائی 2015
سیلاب کے باوجود سیاستدانوں نے مثاترین کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے ایک دوسرے پر الزامات کی روایت کو برقرار رکھا۔ فوٹو :اے ایف پی

سیلاب کے باوجود سیاستدانوں نے مثاترین کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے ایک دوسرے پر الزامات کی روایت کو برقرار رکھا۔ فوٹو :اے ایف پی

پاکستان میں ہر سال کی طرح اس بار بھی سیلاب نے بڑے پیمانے پر تباہی مچادی، درجنوں افراد اپنی جانوں سے گئے اور سینکڑوں افراد بے گھر ہوگئے۔ سیلاب کے باعث درجنوں بند ٹوٹ گئے اور ہزاروں ایکٹر اراضی پر کھڑی فصل تباہ ہوگئی۔ ایک طرف تو شدید بارشوں کے بعد پیدا ہونے والی سیلابی صورت حال نے چترال سے سندھ، پنجاب سے خیبر پختونخوا میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی تو دوسری جانب اپنی عادت سے مجبور سیاستدانوں نے مثاترین سیلاب کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے ایک دوسرے پر الزامات کی روایت کو برقرار رکھا۔ اس تمام صورت حال پر سوشل میڈیا میں عوام کی جانب سے مختلف سوال زیر گردش ہیں جو قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔

کیا پاکستان میں آنے والے حالیہ سیلاب کی وجہ موسمیاتی تبدیلی ہے؟

بلاشبہ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات نظر آ رہے ہیں جس کی وجہ سے گلیشیئرز تیزی سے پگل رہے ہیں اور پھر یہی پانی دریاؤں اور ندی نالوں میں شامل ہوکر سیلابی صورت حال پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال چترال میں آنے والا سیلاب ہے جس میں بارشوں سے زیادہ تباہی گلیشیئرز سے پگھلنے والے پانی نے مچائی۔

کیا سیلاب سے تباہی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی غفلت کے باعث آئی؟

پہلی بات تو ہمیں یہ سمجھ لینی چاہیے کہ سیلاب ایک قدرتی آفت ہے اور اس کا اختیار کسی انسان کے ہاتھ میں نہیں ہے، یہ سب اللہ کا نظام ہے کہ وہ اپنی مصلحت کے تحت کہیں بارش زیادہ برسا دے اور کہیں سالہا سال بارش ہی نہ ہو لیکن آج کے جدید ترین دور میں یہ حکومتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی رعایا کی جان و مال کا اہتمام کرے، انھیں سیلاب سے قبل احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایات جاری کی جائیں اور اگر صورت حال بہت زیادہ ابتر ہو تو اپنے شہریوں کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے کا بندوبست کیا جائے۔ اگر ہم پاکستان کے سیلاب کو سامنے رکھتے ہوئے  مذکورہ نکات کا مطالعہ کریں تو ہمیں وفاقی اور صوبائی سطح پر ان اقدامات پر صرف بیان بازی کی حد تک عمل ہوتا نظر آتا ہے جبکہ اپوزیشن جماعتیں بھی ایسے مواقع پر پوائنٹ اسکورنگ کرتی نظر آتی ہیں۔

کیا ہم زندگی بھر کالا باغ ڈیم کے معاملے پر ہی الجھتے رہیں گے؟

کالا باغ ڈیم کی تعمیر اب قومی سے زیادہ سیاسی مسئلہ بن چکی ہے، پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر تو متفق ہو جاتی ہیں کہ اگر بھارت نے ہماری طرف میلی آنکھ سے دیکھا تو اسکی آنکھ ہی نکال دیں گے لیکن جب کالا باغ ڈیم کی باری آتی ہے تو ان ہی میں سے چند جماعتیں بھارت کے حق میں فیصلہ دیتی نظر آتی ہیں۔ اب آپ حیرت زدہ ہونگے کہ بھلا ایسا کب ہوا کہ پاکستان میں رہتے ہوئے کوئی بھارت کے حق میں فیصلہ دے۔ تو جناب آپ اِس بیان کو کس طرح دیکھیں کہ اگر کالا باغ ڈیم بنایا گیا تو پاکستان نہیں رہے گا۔ کیا یہ بغاوت نہیں ہے؟ ہاں اگر ٹھوس شواہد کی بنیاد پر سمجھانے کی کوشش کی جائے کہ کوئی کس بنیاد پر کالا باغ ڈیم کی مخالفت کررہا ہے تو سمجھ آتا ہے مگر یہ کیا بات ہوئی کہ اگر ڈیم بنا تو پاکستان نہیں رہے گا۔ بھلا یہ ملک کسی کی جاگیر ہے جو کسی کے کہنے سے ختم ہوجائے گا۔

کیا کالا باغ ڈیم ہی سیلاب سے بچنے کا واحد حل ہے؟

یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ کالا باغ ڈیم سب سے کم خرچ اور بالا نشین ہے یعنی سیاست کی نظر ہونے والے اس ’بدقسمت‘ ڈیم کو چند کروڑ روپے کی لاگت سے 2 سے 3 سال کے اندر فعال کر کے 3 ہزار 500 میگاواٹ تک بجلی حاصل کی جا سکتی ہے اور بڑے پیمانے پر پانی بھی ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر یہ فی الوقت ممکن نہیں اور ہمارے سیاستدان ڈیم بنانے کے لیے واقعی مخلص ہیں تو لاکھوں ایکڑ بنجر اراضی کو استعمال میں لا کر چھوٹے چھوٹے درجنوں ڈیمز بنا کر اس مسئلے سے ہمیشہ کیلئے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔

کیا سیلاب کو روکنا حکومتوں کے بس کی بات ہے؟

گزشتہ 6، 5 سالوں سے پاکستان میں سیلاب کے باعث بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوچکا ہے اور اب بھی مسلسل ہورہا ہے۔ اگر ہمارے حکمران اپنی رعایا کے لئے سجندہ ہوتے تو پہلے سیلاب کے بعد ہی اگلے سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچنے کیلئے انتظامات کرلئے جاتے لیکن اگر سیلاب کے باعث نقصان نہیں ہوگا تو پھر یہ گدھ نما حکمران عوام کے اربوں روپے کیسے نوچ نوچ کر کھائیں گے؟

کیا گلیشیئرز کو پگھلنے سے روکنے کے اقدامات کئے جا رہے ہیں؟

پاکستان سمیت دنیا بھر میں ماحولیاتی آلودگی اس قدر تیزی سے اووزون کی سطح کو کھوکھلا کر رہی ہے کہ اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہوگیا ہے، اگر ہم نے اپنی صنعتوں، کارخانوں اور گاڑیوں سے نکلنے والے خطرناک دھوئیں کو کنٹرول نہ کیا اور جنگلات کی حفاظت نہ کی تو یہ سفید پہاڑ چند سالوں میں سرخ مائل ہو کر ٹھنڈک کی جگہ آگ برسانے لگیں گے۔

کیا بھارت بھی پاکستان میں سیلاب کا ذمہ دار ہے؟

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بھارت پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتا، چاہے وہ بلوچستان میں مداخلت کی صورت میں ہو یا پاکستان پر بین الاقوامی پابندیوں کی صورت میں، ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈری پر سیز فائر کی خلاف ورزی ہو یا پھر انڈس واٹر معاہدے کی خلاف ورزی۔ پاکستان کی جانب بہنے والے زیادہ تر دریاؤں کا منبع بھارت سے گزرتا ہے اور اسی چیز کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت پاکستان کی طرف آنے والے پانیوں پر 30 سے زائد ڈیمز بنا رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو ہمیشہ اس بات کا خطرہ رہتا ہے کہ بھارت کسی وقت ڈیمز کے اسپل ویز کھول دے گا تو پاکستان میں سیلابی کیفیت پیدا ہوجائے گی۔

اب سوال بھی ہوگئے اور اُس کے جواب بھی مل گئے۔ ہم نے تو اپنے حصے کا کام کرلیا یعنی جس نے سوال کرنا تھا اُس نے سوال کرلیا اور ناچیز کے ذہن میں جو جواب آرہے تھے وہ بھی دے دیے۔ مگر سوال یہ ہے کہ حکومت نے جو کام کرنا ہے بھلا وہ کب کرے گی۔ کب وہ اتفاق رائے سے چھوٹے بڑے ڈیم کی تعمیر کا آغاز کرے گی؟ کب وہ تباہی سے پہلے تباہی سے بچنے کے لیے اقدامات کرے گی؟ کب وہ دن آئے گا جب حکومت کی شاندار کارکردگی کی بدولت لوگ سیلاب کی وجہ سے بے گھر نہیں ہونگے؟ سوال تو اور بھی ہیں لیکن سوال اُٹھانے سے بہتر ہے کہ ہم سب دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائیں کہ حکومت ہوش میں آئے اور اپنے حصے کا کام کرے کہ شاید ہماری دعا کام آجائے۔

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اگلے برس اِس طرح کی صورتحال سے بچنے کے لیے عملی اقدامات کرے گی؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔