آڈیٹر جنرل صاحب! اپنے برطرف پیش رو کی ڈگر پر مت چلیں

رحمت علی رازی  اتوار 26 جولائی 2015

ملک میں رواج سا بن گیا ہے کہ ہر آنیوالا اقتدار سے جانے والے  کے عیب گنواتا نہیں تھکتا لیکن خود بھی وہی کرتا ہے جو اس کا پیش رو کر چکا ہوتا ہے پھر یہ گھِسا پٹا جملہ ضرور کہتا ہے کہ وہ تو جانے والے  کا گند صاف کر رہاتھا، کچھ ایسی ہی صورتحال اس وقت ایک اہم ترین ادارے آڈٹ ڈیپارٹمنٹ میں بھی ہے۔

ملک میں پہلی مرتبہ ایک تاریخی اور غیرمعمولی واقعہ رونما ہوا جب سپریم جوڈیشل کونسل نے ایک سال تک تحقیقات کرنے کے بعد وزیر اعظم کے ذریعے صدر مملکت کو یہ سفارش بھجوائی کہ آڈیٹر جنرل رانا بلند اختر کے خلاف متعدد الزامات پر مبنی شکایات درست ثابت ہوئی ہیں اور ان شکایات کے درست ثابت ہونے کے سبب وہ اس اہل نہیں رہے کہ اس اہم عہدے پر مزید فائز رہ سکیں‘ سو اس پر صدر پاکستان نے وزیر اعظم کی سفارش پر سابق آڈیٹر جنرل کو عہدے سے برطرف کر دیا‘ یہ الگ بات ہے کہ سابق آڈیٹر جنرل رانا بلند اختر ان الزامات کو سیاسی کہہ کر ان کا  مذاق اڑاتے رہے۔

جو الزامات سابق آڈیٹر جنرل کی برطرفی کا سبب بنے‘ وہ 20 تھے اور ان میں سے 8، حکومت کی جانب سے دائر کردہ ریفرنس کا حصہ تھے جب کہ  12الزامات اسی محکمہ کے ایک حاضر سروس گریڈ 20کے افسر عرفان جہانگیر وٹو کی طرف سے عائد کیے گئے تھے۔ حکومتی ریفرنس میں عائد کردہ الزامات سابق آڈیٹر جنرل کی جانب سے اپنی تنخواہ، مراعات اور پنشن میں اضافہ کرنے سے متعلق تھے جس میں سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کے مطابق انھوں نے ایسا کرنے کے لیے سرکاری حیثیت کو ذاتی فائدے کے لیے استعمال کیا اور اس طرح سے 50لاکھ روپے کے قریب رقم اپنے استحقاق سے زائد وصول کی۔

اس کے  علاوہ انھوں نے بطور آڈیٹر جنرل ملنے والی پنشن کو خود ہی 12گنا کرتے ہوئے ا سکو اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل ہی اداکرنے کا حکم بھی دیا اوران ناجائز احکامات اور خواہشات کی تکمیل کے لیے اپنی مرضی کے افسران کو ان عہدوں پر تعینات کیا جو ان ادائیگیوں سے متعلقہ تھے جب کہ  ان افسران کو نشانِ عبرت بنا دیا جو ان کی غیرقانونی خواہشات کی تکمیل میں رکاوٹ بن رہے تھے۔

عرفان جہانگیر وٹو کی طرف سے لگائے گئے الزامات میں محکمہ کے افسروں کی اپنے ذاتی مفاد کے لیے غیر قانونی اور میرٹ سے ہٹ کر ٹرانسفر، پوسٹنگ، گریڈ20 کے افسروں کو خوفزدہ کرنے کے لیے وزیر اعظم کی منظوری کے بغیر چارج شیٹیں دینا، محکمہ کے ایک سینئر افسر کو بغیر ضابطہ کی کارروائی کے سزا سنانا اور ان کی اپیل کی منظوری کے باوجود وزیر اعظم کے حکم پر عملدرآمد سے انکار،کنٹرولر جنرل اکاؤنٹس کے محکمہ میں خلافِ قانون مداخلت، وزیر اعظم کی منظوری سے جاری شدہ آڈٹ ڈیپارٹمنٹ کے افسران کے پوسٹنگ‘ ٹرانسفر احکامات پر عملدرامد نہ کرنے کے تحریری احکامات جاری کرنا۔

وزیر اعظم کی جانب سے گریڈ  22میں ترقی دیے جانے کے باوجود ذاتی عناد کی وجہ سے ایک خاتون افسر کی ترقی کا نوٹیفکیشن جاری کرنے سے انکار‘ اسی خاتون افسر کو کنٹرولر جنرل اکاؤنٹس لگائے جانے کے صدارتی حکم پر عملدرامد سے انکار، گریڈ21کے ایک افسر کی گریڈ 22میں ترقی رکوانے اور اپنی پسند کے افسروں کو ترقی دینے کے لیے متذکرہ افسر کی گریڈ21 میں ترقی کے نوٹیفکیشن کی خلافِ قانون واپسی کاحکم دینے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے متذکرہ افسر کے حق میں فیصلے کے باوجود اس پر عملدرآمد سے انکار، اپنی پسند کے افسروں کی اسپیشل سلیکشن بورڈ سے اور وزیر اعظم سے منظوری لیے بغیر بیرون ملک تعیناتیاں، ایک سابق کنٹرولر جنرل اکاؤنٹس کی ذاتی عناد پر پنشن کی ادائیگی روکنا، اپنے محکمہ کی ایک خاتون افسر کو جنسی طور پر ہراساں کرنا اور اپنی مذموم خواہشات کی تکمیل نہ کرنے کی پاداش میں اس کے خلاف بے بنیاد الزامات پر مبنی چارج شیٹ کا اجراء، متذکرہ خاتون کی گریڈ20میں ترقی روکنے کے لیے اس کے سروس ریکارڈ کو تلف کرنا، متذکرہ خاتون افسر کی جانب سے اس کی شکایت پر ہونے والی انکوائری کے گواہان کو خوفزدہ کرنے کے لیے ان کے خلاف خاص افسروں کے ذریعے محکمانہ کارروائیاں کروانا، موجودہ اکاؤنٹنٹ جنرل سندھ کو غیرقانونی احکامات نہ ماننے کی پاداش میں ہراساں کرنے کے لیے انکو دستخط کے بغیر اسٹیٹمنٹ آف ایلیگیشن جاری کرنا، محکمے کے دیگر افسران کو خوفزدہ کرنے کے لیے ان کے خلاف بلاجواز محکمانہ کاروا ئیوں کا اجراء، وزیراعظم کے احکامات پر عملدرامد کرنیوالے افسران کو خوفزدہ کرنے کے لیے ان کے خلاف جھوٹی چارج شیٹوں کا اجراء، قانون کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے گریڈ20 کے اپنے پسندیدہ افسروں کو ان سے سینئر افسران کو نظرانداز کرتے ہوئے گریڈ21 میں ترقی کے لیے درکار ٹریننگ کروانا اور محکمے کے بری شہرت رکھنے والے افسران کی کرپشن اور ان کی بدعنوانیوں پر پردہ ڈالنا۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک افسر (جسکے خلاف ٹھٹھہ میں80 ایکڑ بیش قیمت اراضی معمولی درجے کے ملازم اپنے بیٹوں کے نام خریدنے اور اربوں روپے کے آڈٹ پیرے بغیر ثبوت ختم کرنے کی کوشش کرنے کے الزامات تھے) کو تحفظ فراہم کرنا،کراچی سے تعلق رکھنے والے گریڈ19 کے ایک افسر ، جس کے خلاف 4کروڑ روپے رشوت وصول کرنے کے ناقابل تردید ثبوت موجود تھے۔

کے خلاف کارروائی سے انکار، اپنی ناجائزخواہشات کی تکمیل کرنیوالے گریڈ21 کے ایک افسر جو اس وقت ملٹری اکاؤنٹینٹ جنرل کے عہدے پر تعینات ہیں، کو متعدد بار من پسند پوسٹنگ دینا، انکو قومی اسمبلی کی سفارشات اور وزیر اعظم کے احکامات کے باوجود تادیبی کارروائی سے تحفظ فراہم کرنا، داغدار ماضی والے گریڈ18 کے ایک افسر کو اے جی پنجاب کی گریڈ21کی پوسٹ پر تعینات کرنا اور اس کے  بعد اس کی جانب سے 46کروڑ کے فراڈ میں ملوث ہونے کے باوجود اسکو نہ صرف قانون کی گرفت سے بچانا بلکہ اسکو اپنے دفتر میں گریڈ20کی پوسٹ پر تعینات کرنا، دہری شہریت رکھنے والے نیب زدہ افسر کے خلاف کارروائی سے انکار، آڈیٹر جنرل بن جانے کے 10ماہ بعد ہی کینیڈا میں کروڑوں روپے مالیت کے گھر کی خریداری اور اسکو اپنی ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں ظاہر نہ کرنا، اسلام آباد میں اپنی زوجہ کے نام پر 20کنال بے نام اراضی کا حصول اور اس کی اصل قیمت(5کروڑ )کی بجائے صرف 20لاکھ کی مالیت کی ظاہر کرنا،

ناجائز ذرائع سے بنائی گئی جائیداد اور اس پر واجب الادا ٹیکس کو چھپانا، ریلوے آڈٹ رپورٹ کے ایک آڈٹ پیرے کو ختم کروانے کے لیے ریفرنس دائر کرنیوالے گریڈ20کے افسر پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی کارروائی کے دوران ناجائز دباؤ ڈالنا اور اس کے  انکار پر جھوٹی محکمانہ کارروائیوں کا اجراء اور اسکو وہاں سے ٹرانسفر کرنے کے بعد بغیر کسی تحقیق کے اسی آڈٹ پیرے کو ختم کروانا اور اس طرح سے ریلوے کو 54لاکھ 33ہزار کا نقصان پہنچانا،نادرا آرڈیننس 2000ء کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بیک وقت 2شناختی کارڈوں کا استعمال اور پاسپورٹ ایکٹ 1974ء کی دفعہ6کی خلاف ورزی کرتے ہوئے متعدد پاسپورٹوں کا بیک وقت حصول اور انکا استعمال۔ مقام حیرت ہے کہ وہ ان الزامات میں سے ایک کا بھی ٹھوس جواب نہ دے سکے اوراپنے دفاع میں بس یہ بیان ہی دیتے رہے کہ ان کے خلاف ہونے والی  کارروائی سیاسی نوعیت کی ہے اور اس میں کوئی حقیقت نہیں جب کہ  پانچ ججوں پر مشتمل سپریم جوڈیشل کونسل نے تقریباً پورا ایک سال ان کو صفائی کا ہر موقع دینے کے بعد ان کے خلاف ضروری قانونی کارروائی کے لیے صدر مملکت کو رپورٹ بھجوائی جس پر صدر نے متذکرہ احکامات جاری کیے۔

توقع تھی کہ نئے آنیوالے آڈیٹر جنرل رانا اسد امین سابق آڈیٹر جنرل کی عبرتناک سزا سے کچھ سبق ضرور سیکھیں گے لیکن ان کی جانب سے تقرری کے بعد کیے جانے والے  اقدامات سے تو یہی لگتا ہے کہ وہ بھی اپنے پیش رو کی ڈگر پر چل نکلے ہیں‘ یہ اَمر واقع ہے کہ ان کی تعیناتی بھی طاقتور میرٹ پر ہی ہوئی ہے کیونکہ اس وقت آڈٹ ڈیپارٹمنٹ میں متعدد ایسے افسران موجود تھے جو ان سے اس عہدے پر تعیناتی کا زیادہ استحقاق رکھتے تھے، جن میں ریلوے کی موجودہ چیئرپرسن پروین آغا، 2014میں ریٹائر ہونے والی سابق کنٹرولر جنرل اکاؤنٹس فرح ایوب ترین، وفاقی سیکریٹری سلیم سیٹھی، نیشنل پاور ریگولیٹری اتھارٹی کے ممبر شاہ نوازخٹک وغیرہ۔ اسی لیے کہا جا رہا ہے کہ موجودہ آڈیٹر جنرل کی تعیناتی میں وفاقی وزیر خزانہ کا کردار بھی ہے۔ چونکہ نئے آڈیٹر جنرل ریٹائرمنٹ سے پہلے اور اس کے  بعد سے ان کے ساتھ مختلف حیثیتوں میں کام کرتے چلے آ رہے ہیں اور اس طرح سے ان کے ہر فیصلے میں ان کی رائے کو بڑا عمل دخل ہے۔

ان پر الزام آ رہا ہے کہ انھوں نے آئی پی پیز کو اربوں روپے کی ادائیگیاں کروانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، یہ ادائیگیاں ان پاور پراجیکٹس کو ان کی پیداوار کی بجائے ان کی استعداد کار کی بناء پر کی گئی تھیں۔ ان میں اوسطاً40 فیصد ادائیگیوں کا سرے سے جواز نہیں تھا۔

اگر یہ اعداد و شمار درست ہیں تو وہ آڈیٹر جنرل بننے سے قبل ہی ملکی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا چکے ہیں اور ظاہر ہے اس کا  آڈٹ ان کی  سر براہی میں ان کے ہی کسی افسر نے کرنا یا کروانا ہے تو یہ کس طرح سے ہو گا کہ وہ اپنے آڈیٹر جنرل کے فیصلے کو نظرانداز کرے۔ یہ محض ایک معاملے کا ذکر ہے، لاہور میٹرو بس پراجیکٹ ، راولپنڈی اسلام آباد میٹرو بس پراجیکٹ اور ان جیسے لاتعداد پراجیکٹس جن پر سب سے بڑی تنقید یہ کی جا رہی ہے کہ ان کی تکمیل میں بھی قانون اور ضابطے نظرانداز ہوئے ہیں‘ ان کا  آڈٹ بھی نئے آڈیٹر جنرل نے ہی کروانا ہے۔

اب وہ یہ کیسے کریں گے، یہی ان کا امتحان ہو گا۔ آڈیٹر جنرل بن جانے کے بعد انھوں نے اس بات کا عزم ظاہر کیا تھا کہ وہ سابق آڈیٹر جنرل کے کیے ہوئے ہر غیرقانونی اقدام پر قانون کے مطابق کارروائی کرینگے اور سابق آڈیٹر جنرل کے ظلم کا شکار ہونے والے تمام افسران کی دادرسی کرینگے۔مقام افسوس ہے کہ انھوں نے اپنے دعوے کے بر عکس ایسا کچھ نہیں کیا، اور بعض معاملات میں تو وہ اس حد تک چلے گئے ہیں کہ ان پر انگلیاں اُٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔

اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے پہلے ہی روز انھوں نے کئی احکامات ٹرانسفر‘ پوسٹنگ کے جاری کیے جن میں ماسوائے ایک خاتون افسر کی تعیناتی کے جس کو سابق آڈیٹر جنرل نے جنسی طور پر ہراساں کیا تھا، ان کے جاری کیے ہوئے تمام احکامات ان کی  اور ان کے تین ریٹائرڈ دوستوں، زاہد سعید، سرشار احمد خان اور آصف عثمان کی ذاتی پسند پر مبنی تھے ۔یہ حضرات آج کل موجودہ آڈیٹر جنرل کے دفتر میںبراجمان رہتے ہیں اور ان سے اپنی ہر جائز ناجائزخواہش کی تکمیل کروا رہے ہیں۔

لاہور میں ملٹری اکاؤنٹس کی گریڈ20 کی دو اہم پوسٹوں پر تعینات کیے افسران کو ان کے متذکرہ دست راست دوستوں نے تعینات کروایا تھا، ان میں سے ایک خاتون افسر کی گریڈ20 میں سنیارٹی میں 24ویں پوزیشن تھی اور وہ پچھلے ایک سال سے لاہور میں ہی ایک فیلڈ آڈٹ آفس میں تعینات تھیں اور قانون کے مطابق بغیر کسی وجہ کے ان کو تین سال سے قبل ٹرانسفر کر نے کی کوئی وجہ نہیں تھی، دوسرے افسر کی سنیارٹی میں73ویں پوزیشن تھی اور وہ اس وقت نیشنل کالج آف پبلک پالیسی میں ڈیپوٹیشن پر تھے ؛ ان کا  ڈیپوٹیشن کا دورانیہ ابھی پورا نہیں ہوا تھا،ان کو پہلے بھی ایک بار آڈیٹر جنرل کے ریٹائرڈ دوست کی خواہش پر میرٹ اور سنیارٹی سے ہٹ کر لندن میں پوسٹنگ دی گئی تھی۔

اسی طرح کراچی میں تعینات کیے  جانے والے گریڈ 20 کے ایک افسر کو سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی منظوری کے بغیر اور گریڈ20 کی سنیارٹی میں80ویں پوزیشن پر ہونے کے باوجود سندھ میں محکمہ آڈٹ کی سب سے سینئر پوسٹ پر تعیناتی دی گئی مگر پھر شور مچ جانے پر اسکو واپس لے لیا گیا لیکن اب ایک بار پھر ان کو سندھ میں محکمہ آڈٹ کی ایک اور اہم پوسٹ پر تعینات کر دیا گیاہے۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک اور افسر کو سنیارٹی میں 79ویں پوزیشن پر ہونے اور ان سے بیشمار سینئر افسران کی دستیابی کے باوجود سندھ میں آڈٹ کی سب سے سینئر پوسٹ ڈائریکٹر جنرل آڈٹ سندھ پر تعینات کیا گیا ہے۔ دفتر آڈیٹر جنرل کے سابق ڈائریکٹر ایڈمن اور سابق آڈیٹر جنرل کے غیرقانونی کاموں میں شریک ایک افسر کو گریڈ20 میں جونیئر ہوتے ہوئے بھی اسلام آباد میں آڈٹ ڈیپارٹمنٹ کی سب سے سینئر فیلڈ پوسٹ پر تعیناتی دی گئی لیکن پھر شور مچ جانے پر ان کو بھی تبدیل کر دیا گیا لیکن ایک بار پھر انکو پاکستان کے غیر ممالک میں موجود سفارتخانوں کا آڈٹ کرنیوالے دفتر ڈائریکٹر جنرل فارن آڈٹ کے طور پر تعینات کر دیا گیا جس پر ماضی میں انتہائی سینئر افسران کی تعیناتی کی جاتی تھی۔ محکمہ آڈٹ کے گریڈ21 کے سب سے جونیئر افسرکو اسلام آباد میں اکاؤنٹس کی گریڈ21 کی سب سے سینئر پوسٹ پر تعینات کیا گیا ہے۔

اسلام آباد میں ہی وفاقی محکموں کے آڈٹ کی اہم ترین پوسٹ پر جس افسر کو تعینات کیا گیا ہے وہ گریڈ20 کی سنیارٹی میں 37ویں نمبر پر ہونے کے علاوہ رانا بلند اختر کے خاص افسروں میں شمار کیے جاتے تھے اور ان کو ایک سے زائد پاسپورٹوں کے الزام سے بچانے میں اہم کردار ادا کر چکے ہیں کیونکہ وہ اس وقت پاسپورٹ کے محکمہ میں ایک کلیدی پوسٹ پر تعینات تھے۔ لاہور میں تعینات ایک اور افسر کو آڈیٹر جنرل نے سنیارٹی اور میرٹ کو صریحاً نظرانداز کرتے ہوئے آڈٹ ڈیپارٹمنٹ کی سب سے سینئر پوسٹ ڈائریکٹر جنرل واپڈا آڈٹ کا اضافی چارج دیا تھا جب کہ  مذکورہ افسر کی سنیارٹی میں اس وقت 50ویں پوزیشن ہے‘ وہ پچھلے 4سال سے سابق آڈیٹر جنرل کی خوشنودی کی وجہ سے آڈٹ ڈیپارٹمنٹ کے اہم ترین فیلڈ آڈٹ آفس کسٹم اینڈ پٹرولیم لیوی آڈٹ میں تعینات تھے اور سنیارٹی کے اصول کے تحت یہ چارج لاہور میںاُس وقت تعینات سب سے سینئر افسر فاروق محسن کو ملنا چاہیے تھا۔

ان کے متذکرہ فیصلے پر پورے محکمہ میں شور مچ گیا لیکن انھوں نے اپنی اصلاح کی بجائے گریڈ20کے افسروں کی سنیارٹی میں 126ویں پوزیشن والے افسر کو، جو ابھی نیشنل مینجمنٹ کالج میں تعینات تھے اور ان کی  وہاں سے واپسی خلاف قانون تھی، واپڈا آڈٹ کی اہم ترین پوسٹ پر تعینات کر دیا ۔یہ کہا جا رہا ہے کہ انکو یہ ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ آئی پی پیز کا آڈٹ نہیں ہونے دینگے اور اس سے پہلے ہونے والے آڈٹ اور اس سے متعلقہ آڈٹ اعتراضات کو ختم کروائیں گے۔

لاہور ہی میں پنجاب حکومت کے آڈٹ کے لیے مخصوص دو دفاتر کی پوسٹوں پر جن گریڈ20کے افسروں کو تعینات کیا گیا ان میں سے ایک کی سنیارٹی میں68ویں اور دوسرے کی125ویں پوزیشن ہے جب کہ گریڈ20 کے سب سے سینئرافسر عرفان جہانگیر وٹو کو لاہور میں آڈٹ ڈیپارٹمنٹ کی جونیئر پوسٹ پر تعینات کیا گیا ہے۔ متذکرہ افسر نے ہی سابق آڈیٹر جنرل کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں پہلے بیان کردہ الزامات پر مبنی ریفرنس دائر کیا تھا اور اپنی نوکری اور زندگی کو خطرے میں ڈال کر پورا ایک سال سابق آڈیٹر جنرل رانا بلند اختر کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ہونے والی کارروائی میں کلیدی کردار ادا کیا اور بالآخر ان کی  جدو جہد کے نتیجے میں سابق آڈیٹر جنرل کو ان کے عہدے سے سبکدوش ہونا پڑا۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس محکمہ اور ملک کے لیے ان کی  غیرمعمولی خدمات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کی  سنیارٹی کے مطابق پوسٹنگ دی جاتی اور ان کی  خدمات کے اعتراف میں ان کا  نام صدارتی اعزاز کے لیے بھیجا جاتا لیکن مقام افسوس ہے کہ اس بات کو جانتے ہوئے بھی کہ ایک حادثے کے سبب ان کے لیے اس وقت سہارے کے بغیر چلنا پھرنا بھی مشکل ہے، انکو ایک ایسے دفتر میں تعینات کیا گیا ہے جو تیسری منزل پر واقع ہے اور وہاں پر لفٹ تک کام نہیں کرتی۔ کرامت بخاری اس محکمہ میں گریڈ21 کے سب سے سینئر افسر ہیں‘ اس وقت ان کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے وہ انتہائی شرمناک ہے۔ باوجود اس کے کہ انکو جاری ہونے والی چارج شیٹ کو سپریم جوڈیشل کونسل انتہائی سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے غیرقانونی اور غیراخلاقی قرار دے چکی ہے لیکن ابھی تک اس فیصلے پر اس کی روح کے مطابق عمل نہیں کیا جا رہا اور انکو ایک نئے اور بے بنیاد کیس میں اُلجھانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔

ریلوے میں تعینات گریڈ20کی ایک ایسی مسلمہ دیانتدار افسر کو بلاجواز او ایس ڈی کر دیا گیا۔ متذکرہ خاتون جس عہدے پر تعینات تھیں وہ ایسی پوسٹ ہے جس پر کوئی جونئر افسر کام کرنا بھی پسند نہیں کرتا لیکن ایک منظور نظر افسر کو وہاں کھپانے کے لیے یہ حکم جاری کیا گیا۔ اس طرح سے سینئر افسروں کو رُلانے اور جونیئر افسروں کو نوازنے کی پالیسی کی بظاہر ایک ہی وجہ ہو سکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ جونیئر افسروں سے اپنی مرضی کے احکامات پر عملدرامد کروانا بالکل آسان ہوتا ہے جب کہ سینئر افسر اکثر اوقات غیر قانونی احکامات ماننے سے انکا ری ہو جاتے ہیں۔ جونیئر افسروں کو نوازنے کی ایک تازہ ترین مثال ملتان میں گریڈ19 کے ایک افسر کی گریڈ20 کی پوسٹ (کنٹرولر ملٹری اکاؤنٹس ملتان کمانڈ) پر تعیناتی شامل ہے۔

گریڈ20 کے ریگولر افسران کی موجودگی میں یہ تعیناتی بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ بیان کردہ مثالوں اور حقائق سے ظاہر ہے کہ موجودہ آڈیٹر جنرل بھی اپنے پیش رو کے کیے ہوئے اقدامات کی نہ صرف مکمل پیروی کر رہے ہیں بلکہ کئی معاملات میں ان سے بھی آگے نکل چکے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اس اہم عہدے پر فائز ہوتے ہی انھوں نے متعدد افسران کو او ایس ڈی کر دیا تھا۔ یہ سلسلہ ابھی تک نہ صرف جاری ہے بلکہ ایسے افسروں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

سپریم کورٹ متعدد بار اپنے فیصلوں میں کہہ چکی ہے کہ ایسا کرنا مفادِ عامہ میں نہیں ہے لیکن مقام افسوس ہے کہ موجودہ آڈیٹر جنرل جو اپنے آپ کو ہر قانون سے بالا سمجھتے ہیں۔ ہم نے ان کے ان اقدامات کا جائزہ لیا جو انھوں نے ایسے افسران کے خلاف کرنے تھے جن کو سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کی روشنی میں کرپشن اور بد عملی کے الزامات کا سامنا تھا، مقام حیرت ہے کہ  ان افسروں میں سے کسی ایک کے خلاف بھی کسی قسم کی تادیبی کارروائی کا آغاز نہیں کیا گیا بلکہ ان میں سے بیشتر بدستور اپنی سابقہ پوسٹوں پر تعینات ہیں ۔

ان میں موجودہ ملٹری اکاؤنٹینٹ جنرل، کنٹرولر ملٹری اکاؤنٹس ڈیفنس پرچیز، ڈائریکٹر فنانس سپارکو، (جو گریڈ19کے افسر ہیں لیکن گریڈ20کی پوسٹ پر تعینات ہیں) اور چیف اکاؤنٹس آفیسر فارن آفس بدستور اپنے عہدوں پر کام کر رہے ہیں جب کہ سابق ڈائریکٹر ایڈمن دفتر آڈیٹر جنرل، سابق ڈی جی آڈٹ سندھ، گریڈ18کے وہ افسر جنھیں گریڈ21کی آسامی پر تعینات کیا گیا تھا اور سابق ڈی جی،اے جی پی آراسلام آباد کو محض اوایس ڈی بنانے پر اکتفا کیا گیا ہے۔

یہ افسران کرپشن سمیت سنگین نوعیت کی مالی اور انتظامی بد عنوانیوں میں ملوث ہیں اور ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل اپنے فیصلے میںایسے ریمارکس دے چکی ہے جسکے نتیجے میں ان کے خلاف انضباطی کارروائی ناگزیر ہے تاہم اس اَمر کے اشارے مل رہے ہیں کہ طاقتور میرٹ کی وجہ سے آڈیٹر جنرل ان افسروں کے خلاف کارروائی نہیں کرینگے اور کچھ وقت گزر جانے کے بعد ان کے خلاف الزامات ختم کر دیے جائینگے، اگر ایسا ہوا یا کیا گیا تو یہ نہ صرف آڈیٹر جنرل کی جانب سے ان کے حلف کی خلاف ورزی ہو گی بلکہ سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے پر عملدرآمد سے کھلا انکار بھی ہو گا۔

اس کے نتائج سے بھی موجودہ آڈیٹر جنرل اچھی طرح سے آگاہ ہونگے۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے سابق آڈیٹر جنرل کو دو شناختی کارڈوں کے بیک وقت استعمال اور متعدد پاسپورٹس کے حصول کا مرتکب بھی ٹھہرایا تھا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ موجودہ آڈیٹر جنرل ایف آئی اے کو متحرک کرتے اور سابق آڈیٹر جنرل کے خلاف کارروائی کا کہتے لیکن ایسا کرنا تو درکنار انھوں نے تو ابھی تک رانا بلند اختر کو جاری شدہ سرکاری اور ڈپلومیٹک پاسپورٹ تک منسوخ کرنے کے لیے وزارت داخلہ کو بھی نہیں کہا۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے سابق آڈیٹر جنرل رانا بلند اختر پر عائد ایک الزام میں کھل کر اس اَمر کا اظہار کیا تھا کہ گریڈ 20 اور اس سے اوپر کی وہ تمام چارج شیٹیں جو وزیر اعظم کی منظوری کے بغیر جاری کی گئیں تھیں، وہ غیرقانونی تھیں۔

ایک اور الزام میں اس اَمر کا اظہار بھی کیا گیا تھا کہ اس میں دی گئی تفصیلات کی روشنی میں ان چارج شیٹوں کے اجراء کا مقصد محکمہ میں دہشت پھیلانا تھا۔ سوال یہ ہے کہ جب سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے یہ تمام چارج شیٹیں غیرقانونی قرار دی جا چکی ہیں تو ان کو کم ازکم ایک ہی حکم کے تحت یہ کہہ کر واپس کیوں نہیں لیا جا رہا کہ یہ غیرقانونی تھیں، اس کے برعکس ان چارج شیٹوں میں سے کچھ کو علیحدہ علیحدہ احکامات جاری کر کے واپس لیا گیا ہے جسکا صاف مطلب یہ ہے کہ آڈیٹر جنرل کو سپریم جوڈیشل کونسل کا اس بارے میں فیصلہ قبول نہیں ہے یا وہ ان کو غیرقانونی قرار دیکر اپنے دفتر کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے تاہم یہ اور بھی حیرت انگیز بات ہے کہ ان چارج شیٹوں کو واپس لینے کے بعد ان ھی  افسروں کے خلاف پہلے والے الزامات پر ہی فیکٹ فا ئینڈنگ انکوائریاں کا حکم بھی دیا جا رہا ہے جس کی آئین کے آرٹیکل13 کے تحت قطعی ممانعت ہے اور اگر کوئی افسر عدالت میں چلا گیا تو اس کا نتیجہ آڈیٹر جنرل اور ان کے دفتر کے لیے اچھا تو ہر گز نہیں ہو سکتا۔

اسی طرح سپریم جوڈیشل کونسل رانا بلند اختر کی جانب سے ریلوے آڈٹ کے ایک پیرے جس میں 54لاکھ 33ہزارکا فراڈ کا ذکر تھا، کو ختم کرنے پر واضح تحفظات کا اظہار کر چکی ہے اور اسکو مشکوک عمل قرار دیا تھا، جس کو دوبارہ بحال کرنا آڈیٹر جنرل کی قانونی اور اخلاقی ذمے داری تھی لیکن ابھی تک انھوں نے ایسا نہیں کیا اور وہ بھی اس بارے میں خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ان مثالوں سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ موجودہ آڈیٹر جنرل بھی اپنے پیش رو کی طرح قانون کی اپنی مرضی کی تشریح کرنے پر مصر ہیں۔ لگتا ہے کہ وہ شائد کسی خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔

اس لیے ہم انھیں انتہائی دیانتداری سے مخلصانہ مشورہ دینگے کہ وہ بہت احتیاط برتیں‘ نشانِ عبرت بننے والے اپنے پیش رو کی ڈگر پر مت چلیں، مباداکہ تاریخ اپنے آپ کو دہراہی نہ دے اور وہ کف افسوس ملتے رہ جائیں۔ آئین اور قانون کے خلاف کوئی اقدام نہ اٹھائیں، میرٹ کو مدنظر رکھیں‘ آپ نے اللہ کے ہاں بھی جواب دینا ہے۔ ریٹائرڈ دوستوں کی خواہشات پر اپنے سرکاری اُمور میںفیصلے کرنے‘ اپنے حلف اور قانون کی خلاف ورزیاں کرنے سے پرہیز کریں‘ ایسے ریٹائرڈ مہاکلاکار، غلط مشورے دینے والے ،عقل سے عاری افسروں کو خود سے دُور ہی رکھیں وگرنہ یہ آپ کو کہیں کا نہیں چھوڑیں گے۔ آپکے مخالفین نے ابھی سے آپ کے خلاف ٹھوس ثبوت اکٹھے کرنا شروع کر دیے ہیں جو کل کو یقینا آپ کے خلاف ہی استعمال ہونگے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔