اسی طرح جئیں گے،ا سی طرح مریں گے!!

شیریں حیدر  اتوار 26 جولائی 2015
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

سال کے سارے ایک جیسے چوبیس گھنٹوں کے دنوں میں سے کچھ دنوں کو خاص افضلیت حاصل ہے، سب اللہ کے بنائے ہوئے دن مگر چند دن خوشی کے لیے مخصوص ہو جاتے ہیں، ان دنوں کی خوشی ماند پڑ جاتی ہے جب  روز عید بیٹے کا چہرہ مرجھایا ہوا تھا، اس کے ایک پیارے دوست کی ترکی میں ڈوب کر وفات ہو گئی تھی، بار بار وہ سب کو بتاتے ہوئے کہہ رہا تھا، وہ اتنا اچھا تیراک تھا، کیسے ممکن ہے!! میں اس کی تکلیف کو محسوس تو کر سکتی تھی مگر اس کے لیے دعا کے سوا اور کچھ نہ کر سکتی تھی۔ ہم ہر روز گاڑی چلاتے ہیں، مہارت کے ساتھ، مگر کوئی دن ایسا آتا ہے کہ ہم سے کوئی حادثہ ہو جاتا ہے اسی گاڑی کو اسی مہارت سے چلاتے ہوئے۔

ہم نئی زندگی کی آمد پر انتہائی خوشی مناتے ہیں، مبارک بادیں دیتے ہیں، آنے والا اللہ تعالی کے ساتھ اپنے مقرر وقت پر لوٹ کر آنے کا وعدہ کر کے آتا ہے، مگر جب وہ ہمیں چھوڑ کر دنیا سے جاتا ہے تو ہم غم میں ڈوب جاتے ہیں، اس صدمے کو برداشت نہیں کر پاتے۔ عید کے خوشیوں بھرے دنوں سے ہم لطف اندوز ہوئے اور اس سے اگلے دن کی صبح میرے بہت پیارے چچا کے انتقال کی خبر کے ساتھ طلوع ہوئی۔ دل کسی نے پکڑ کر مٹھی میں بند کر لیا ہو جیسے، ابھی عید کے روز ہی تو ان سے بات ہوئی تھی، وہ بھلے چنگے تھے، کوئی مسئلہ نہ تھا، اگر چہ ہمارے سارے بزرگ یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی انھیں چلتے پھرتے لے جائے، موت… زندگی کا انت ہے!!

انھیں آخری روزے والے دن سینے میں درد کی شکایت ہوئی تھی، گاؤں میں ہی ایک ڈاکٹر کو دکھایا، و ہ بھی غالباً ایم بی بی ایس ڈاکٹر نہیں ہیں، انھوں نے اندازہ لگایا کہ انجائنا ہے مگر شبے کی بنا پر چچا جان نے اپنے گھر پر بھی کسی کو نہیں بتایا۔ جس بیٹے کو ان کے ساتھ ہونے کے باعث علم تھا اس نے کھاریاں اور لالہ موسی کے اسپتالوں میں جا کر چیک کیا تو علم ہوا کہ ڈاکٹرز عید کے لیے چھٹی پر جا چکے ہیں، سو عید گزرنے کا انتظار کیا جائے… عید کے گزرتے ہی وہ اس دنیا سے گزر گئے، ہمیں غمزدہ چھوڑ کر۔ ہمارے خاندان کے لیے ایک بہت بڑا خلا، مشیت ایزدی سمجھ کر اپنے لیے اور ان کی اولاد کے لیے صبر جمیل کی دعا کرتے ہیں ، مگر ایک پھانس سی چبھ گئی ہے۔

میرے دماغ میں ڈیڑھ برس قبل کے مناظر دوڑنے لگے جب میرے والد صاحب کو کوما کی حالت میں گجرات سے راولپنڈی لانے کے لیے ہم بے بسی سے ایمبولینس ڈھونڈتے پھر رہے تھے اور اس میں کتنا ہی وقت ضایع ہو گیا، وہ وقت جو کسی مریض کے لیے اہم ہوتا ہے کہ اسے اس دوران طبی امداد مل جائے… دماغ کو اگر آکسیجن سپلائی نہ ہو رہی ہو تو اس کے لیے کیسے ایک ایک لمحہ اہم ہوتا ہے۔ ان کا بھی وقت مقرر تھا، ان کی زندگی کا انت آ گیا تھا اور وہ ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔کیا اچھی طبی سہولیات صرف ان لوگوں کا مقدر ہیں جو کسی کوشش کے بغیر بڑے شہروں میں پیدا ہو گئے ہیں یا رہ رہے ہیں؟

کیا چھوٹے شہروں، قصبات اور دیہات میں رہنے والے انسان نہیں، ان کا حق نہیں کہ ان کے لیے بھی تعلیم، خوراک ، رہائش اور علاج معالجے کی سہولیات میسر ہوں ؟

کیا وہ انسان نہیں، ملک میں جب انتخابات ہوتے ہیں تو ان کا ووٹ نہیں ہوتا، وہ صاحبان اقتدار کو چننے میں اپنا حصہ نہیں ڈالتے؟

رمضان سے قبل میری بھانجی کے شوہر کو پیٹ میں درد اٹھا، انھوں نے کھاریاں جانے کا قصد کیا اور گھر سے نکلے، اپنے گاؤں سے قریبی ایک قصبے میں پہنچے تو درد کی شدت بڑھ گئی، سامنے نظر آنے والے اسپتال کا بورڈ دیکھ کر، شامت اعمال وہاں چلے گئے کہ کم از کم درد کے لیے انجکشن لگوا کر کسی نہ کسی طرح کھاریاں پہنچ جائیں۔ وہاں موجود ’’ بڑے ‘‘ ڈاکٹر صاحب نے اپنڈکس کے درد کی تشخیص کی اور ان سے کہا کہ آپریشن کرنا پڑے گا، انھیں معلوم تھا کہ وہ ڈاکٹر صاحب خود سرجن نہیں ہیں مگر انھوں نے کہا کہ ان کے پاس سرجن موجود ہے اور آپریشن کی سہولیات بھی۔ انھیں انجکشن دے کر لٹا دیا گیا اور بتایا گیا کہ سرجن کھاریاں سے تشریف لا رہے ہیں۔

بعد ازاں ان کا آپریشن کر کے انھیں دو ایک دن میں فارغ کر دیا گیا، مقررہ دن پر وہ ٹان کے  کھلوا کر گھر لوٹے تو ان کے ٹانکوں کے مقام سے پیپ نکل رہی تھی، واپس اسی ڈاکٹر کے پاس گئے تو اس کے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہ تھا۔ ناچار وہ کھاریاں گئے اور وہاں ایک اچھے اسپتال میں ان کا واسطہ ایک ایسے ڈاکٹر سے پڑ گیا جسے کسی بچی کے ایک مشکل آپریشن کے لیے بالخصوص لاہور سے بلوایا گیا تھا، اس نے انھیں چیک کر کے بتایا کہ ان کا آپریشن کسی اناڑی ڈاکٹر نے کیا تھا اور اس نے آپریشن کے دوران، اپنڈکس کو نکال کر فالتو مواد اور پیپ نکالی ہی نہ تھی جوکہ اندر شدید قسم کی انفکشن پیدا کر چکی تھی، اس کے لیے ان کے زخم کو دوبارہ کھول کر صفائی کرنا ضروری تھا اور اس میں بہت زیادہ رسک بھی تھا۔

انھیں اس کی اجازت دیے بنا کوئی چارہ نہ تھا، اس ڈاکٹر نے اس بچی کے آپریشن سے پہلے ان کا آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ ان کے پیٹ میں انفکشن بری طرح پھیل چکی تھی۔ آپریشن کر کے نہ صرف پیپ اور مواد نکالا گیا بلکہ زخم کو کھلا چھوڑ دیا گیا تھا کہ اس میں بند ہو جانے سے پھر انفکشن پھیلنے کا امکان تھا، ان کے کھلے زخم پر ایک ماہ سے زائد عرصہ تک ہر روز اندر سے صفائی کر کے پٹی تبدیل کی جاتی رہی اور یوں آہستہ آہستہ اس زخم کا منہ بند ہونا شروع ہوا، اس بات کو دو ماہ سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے، ان کے زخم کا منہ مکمل طور پر ابھی بھی بند نہیں ہواہے۔

ان کا ارادہ ہے کہ اس ’’ بڑے‘‘ ڈاکٹر کی شکایت درج کروائی جائے اور اس کا لائسنس ضبط  کروایا جائے، یہ ایک کیس ہے جو ہمارا براہ راست واسطہ پڑنے کا ہے ورنہ ان ڈاکٹر صاحب کے کئی اور کارنامے ہم سنتے رہتے ہیں۔ہم سب جانتے ہیں کہ موت کا وقت معین ہے، مگر پھر بھی جب تک سانس ہے ہم زندگی کے لیے ہر ایک کوشش کرتے ہیں، بیماری میں علاج کا ہر جتن کرتے ہیں۔ آپ بیمار ہوں، آپ کے پاس پیسہ بھی ہو مگر آپ بد قسمتی سے بھدر میں رہتے ہوں، ملہو کھو کھر میں، مہسم میں، لادیاں میں، بھوتہ میں، چکوڑہ میں یا ایسے ہی کسی گاؤں میں جہاں سے بیس سے چالیس میل کے فاصلے پر طبی سہولیات ہوں اور اوپر سے ان دیہات اور قصبات کی سڑکیں ایسی کہ جو بیمار کا دم نکالنے میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہوں تو آپ کے پاس دولت، زمینیں، مال اسباب… سب بے کار ہے۔ جہاں بجلی اور پانی جیسی بنیادی سہولیات موجود نہ ہوں وہاں اور سہولیات کی کیا بات کی جائے؟

انتخابات میں ہمارے ہی ووٹوں کی طاقت سے جو لوگ اسمبلیوں تک پہنچ جاتے ہیں انھیں بھی اپنے مفادات عزیزہوتے ہیں، انھیں جو رقوم علاقے میں فلاحی منصوبوں کے لیے مختص کی جاتی ہیں وہ ان رقوم سے اپنے پیٹ بمشکل بھرتے ہیں۔ کسی گاؤں کی گلیاں پکی کرواتے ہیں نہ صفائی کے منصوبوں پر عمل ہوتا ہے، نتیجتاً ان دیہات کی حالت شرمندگی کا عملی نمونہ ہوتی ہے۔

کیا ان دیہات کو بنیادی سہولیات سے محروم رکھ کر حکومت یہ چاہ رہی ہے کہ پانچ دس ہزار کی آبادی کے دیہات سے آبادی میں اسی طرح کمی کی جا سکتی ہے؟ کیا ان دیہات میں بسنے والے انسان نہیں، کیا ان کی اہمیت اس دور میں اس کتے سے بھی کم ہے جس کے بارے میں حضرت عمر ؓ نے فرمایا تھا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر جائے تو عمر ؓ اس کے لیے جواب دہ ہے۔ کیا ہمارے حکمران خود کو ان تمام جواب دہیوں سے بالا سمجھتے ہیں یا سمجھتے ہیں کہ وہ کلیہ صرف عمر ؓ تک کے دور کے لیے تھا؟

کیا ان میں سے کسی نے کبھی ایسی بے بسی دیکھی ہے جس کا ایک عام آدمی کو ہر روز سامنا ہوتا ہے؟ خادم اعلی کا لقب لگا لینے سے وہ اعلی تو پھر بھی رہتے ہیں ، ادنی لوگوں کے مسائل سے انھیں کم ہی آگاہی ہے، پچاسوں محکموں کی وزارتوں کو ہاتھ میں رکھنے کی بجائے، اپنے ارد گرد سے ایسے لوگوں کو تلاش کریں جو پالیسی بنانے میں مہارت رکھتے ہوں ، جنھیں عام آدمی کے مسائل کا ادراک ہو، ان کے پاس ان مسائل کے حل کے لیے اعداد و شمار ہوں۔ ورنہ جو حال ہمارے ملک کے آوے کا ہے وہاں اچھے سے اچھا گورنر بھی راہ نجات پانے کو کوشاں رہتا ہے، کیونکہ آپ لوگوں کو عہدوں پر متمکن تو کردیتے ہیں، انھیں اختیارات تفویض نہیں کرتے، آپ سمجھتے ہیں کہ آپ  جن علاقوں کا دورہ کرلیں وہاں اور کوئی مسئلہ نہیں رہتا نہ آیندہ جنم لیتا ہے۔

ہمارے ملک میں عام آدمی پارٹی کی ضرورت بہت بڑھ گئی ہے۔ حکومتوں سے توقعات وابستہ کرنے کی بجائے، خود اپنے مسائل کا حل سوچیں، سر جوڑ کر بیٹھیں، آپس میں مانگ تانگ کر چندہ جمع کریں ، اپنے طریقے سے کام کریں اور اپنے مسائل کو جڑ سے ختم کریں۔ اگر ہر مسئلے کے حل کے لیے حکومت سے توقع کرنا شروع کردیں تو پھر ہم اسی طرح جیتے رہیں گے اور اسی طرح مرتے رہیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔