کرنوں کا رقص ایک جائزہ

نسیم انجم  اتوار 26 جولائی 2015
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

گزشتہ کئی سال میں بہت سے قلم کاروں نے اپنی تخلیقات کے ساتھ گلستانِ ادب میں قدم رکھا اور پھر قدم جمانے کے لیے یہاں کے ہی ہو رہے اور خوب لکھا تقریباً تمام ہی پرچوں میں ان کا نام اور کام نظر آیا، ان ھی  تخلیق کاروں میں جناب نجیب عمر کا نام بھی شامل ہے۔ نجیب عمر عرصہ دراز سے تخلیق کے سنگ ریزوں پر برہنہ پا چل رہے ہیں اور اس مشقت کے نتیجے میں وہ اپنے قارئین کو ان کی پسندیدہ تحریریں مطالعے کے لیے پیش کررہے ہیں۔

مصنف نے افسانے بھی لکھے اور تراجم میں بھی دلچسپی لی اور دین اسلام کے حوالے سے بھی مضامین لکھے جو کتابی شکل میں اشاعت کے مرحلے سے گزرے۔ سب سے زیادہ جس صنف پر کام کیا وہ افسانہ ہے۔ ان کی تین کتابیں منصہ شہود پر بہ عنوانات ’’حضارِ نظر‘‘ ۔ ’’نیم وا دریچہ‘‘ اور ’’کرنوں کا رقص‘‘ آچکی ہیں جس کی آج تقریبِ پذیرائی ہوئی ہے اور یہ نجیب عمر صاحب کی پانچویں کتاب ہے۔ افسانہ اور اس کی تعریف کے حوالے سے محمد حسن عسکری کا کہناہے:

’’آج تک کوئی افسانہ نگار یا نقاد افسانے کی کوئی ایسی تعریف پیش نہیں کرسکا جو سب طرح کے افسانوںپر حاوی ہو اگر آپ ایک افسانے کی تعریف کو قبول کرلیں تو بہت سے افسانوں کو رد کرنا پڑتا ہے، ہر طرح کے افسانوں کا احترام کریں تو افسانے کے اصول مرتب نہیں ہوتے۔‘‘

افسانے کے بارے میں محمد حسن عسکری کا خیال ہے کہ:

’’افسانہ وہ ہے جسے یورپ میں موپساں اور چیخوف اور ایسے ہی چند اور لوگوں نے لکھا ہے۔ سیدھی اور سچی بات یہ ہے چاہے اس میں غنائیت ہو یا ڈرامائی عنصر، خواہ وہ زندگی کی ایک جھلک دکھاتا ہو اور اس میں کردار نگاری کی گئی ہو یا ایک تاثر پیش کیا گیا ہو سب سے پہلی اور ضروری چیز یہ ہے کہ وہ افسانہ ہو۔‘‘

درجِ بالا سطور کی روشنی میں اگر ہم دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ نجیب عمر نے حقیقتاً افسانے ہی لکھے ہیں اور اچھے افسانے لکھے ہیں کہ وہ افسانے لکھنے کے فن سے واقف ہیں۔ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کے بیان کی اس روشنی میں کہ ’’افسانہ لکھنا بظاہر جس قدر آسان ہے اچھا افسانہ لکھنا اتنا ہی مشکل ہے۔‘‘ مصنف نے اپنے فن پر محنت کی ہے اور بقول ممتاز شاعر جناب غالب عرفان کے ’’نقشِ ثانی نقشِ اول سے بہتر ہوگا‘‘ تو ایسا ہی ہوا ہے۔ انھوں نے چھوٹے چھوٹے واقعات کو افسانے کے قالب میں کامیابی کے ساتھ ڈھالا ہے کہ  ان کے پاس تجربات بھی ہیں اور فنی باریکیوں کو سمجھنے کے لیے علم و شعور بھی۔

مصنف کی یہ کاوشیں ہی تو ہیں جن کی بنا پر وہ اچھے اور کامیاب افسانے اپنے قارئین کو دے چکے ہیں۔ جناب ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے ان کے افسانے ’’تصویر کے پار‘‘ کو شاہکار افسانہ قرار دیا اور اسی افسانے کا ترجمہ جناب تشنہ بریلوی نے انگریزی زبان میں کیا ہے۔

نجیب عمر صاحب کے افسانے نہ صرف متاثر کن ہیں بلکہ بنت اور اسلوبِ بیان کے اعتبار سے کامیاب اور جاندار ہیں۔ مثال کے طور پر ’’روپ سروپ‘‘ ۔ ’’کیک کا ٹکڑا‘‘ اور ’’بھوک‘‘ ۔ ’’کیک کا ٹکڑا‘‘ ایک ایسا افسانہ ہے جس میں کئی موڑ آتے ہیں اور تجسس کی فضا پروان چڑھتی ہے۔

یقینا یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ لوگ اپنے معاشی حالات کو بدلنے کے لیے اپنی جان کو بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں، ان حالات میں کبھی جان چلی جاتی ہے تو کبھی آزمائشوں کی کٹھنائیوں سے گزرتے ہوئے جان تو بچ جاتی ہے لیکن تلخ یادیں اور زہر آلود ماضی جینا حرام کردیتا ہے، افسانہ ’’بھوک‘‘ بھی موجودہ اور گزشتہ حالات کا عکاس ہے کہ غریب صدیوں سے ظلم کی چکی میں پس رہا ہے، کوئی اس کی روداد سننے والا نہیں، جاگیر دار اور وڈیرے افلاس زدہ انسانوں کا استحصال کرتے ہیں اور انھیں حشرات الارض سمجھتے ہیں، غریب کے گھروں میں موت رقص کرتی ہے۔

ہاریوں کے بے شمار گھرانے قیامت کا نقشہ پیش کرتے ہیں لیکن دولت کے پجاریوں کو کسانوں کے دکھ درد سے کوئی غرض نہیں۔ انھوں نے اپنا یہ اصول بنالیا ہے کہ روٹی کے بدلے اموات تقسیم کریں۔ مذکورہ افسانے کی تخلیق بے حد درد مندی اور ہنر مندی کے ساتھ ہوئی ہے۔ نجیب عمر کی تقریباً تمام ہی کہانیاں سماج کی سچی تصویریں اپنے قارئین کو دکھاتی ہیں اور تلخ حقائق کو بے نقاب کرکے اہلِ بصیرت کو غور و خوض کی دعوت دیتی ہے۔ مصنف کے افسانے ابہام سے پاک ہیں۔ اسی وجہ سے ابلاغ کا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔

میں انھیں تقریبِ تعارف کے موقع پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتی ہوں کہ اﷲ کرے وہ یونہی کامیابی کی طرف گامزن رہیں۔ (آمین)

(تقریبِ تعارف کے موقع پر پڑھا گیا مضمون)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔