ایک اور جوڈیشل کمیشن

اوریا مقبول جان  پير 27 جولائی 2015
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

انگریز سے ورثے میں ملے ہوئے پاکستان کے اینگلو سیکسن عدالتی نظام کی بدقسمتی یہ ہے کہ پورے ملک، صوبے، شہر، قصبے یا گاؤں میں جرم اور مجرم دونوں کی اس قدر واضح پہچان موجود ہوتی ہے، بچے بچے کی زبان پر مجرم کا نام اور گلی گلی میں اس جرم کے قصے سنائی دیتے ہیں، لوگ مجرم کے خوف سے تھر تھر کانپ بھی رہے ہوتے ہیں، انھیں اس مکان، عمارت یا پناہ گاہ کا بھی ٹھیک ٹھیک پتہ ہوتا ہے جہاں سے جرم پروان چڑھتا ہے، لیکن لوگوں کا یہ تاثر، ان کی آنکھوں کے سامنے موجود یہ حقیقت اکثر اوقات عدالتی فیصلوں میں دکھائی نہیں دیتی۔ اکثر فیصلے اس موہوم سے فقرے پر آکر ختم ہوجاتے ہیں کہ ’’مجرم کے خلاف صفحۂ مثل پر ثبوت ناکافی ہیں‘‘ یا پھر یہ کہ ’’استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے‘‘۔

.اس عدالتی نظام کے حامیوں اور وکیلوں سے سوال کرو کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ وہ شخص جسے پوری دنیا بددیانت، چور، ڈاکو، قاتل، اسمگلر، منشیات فروش، بھتہ خور یا بدمعاش کے طور پر ایک مسلّم حقیقت کے طورپر جانتی ہو بلکہ اس کے مقدمے کے فیصلے کرنے والے جج کو بھی ایمان کی حد تک یقین ہو کہ یہ شخص ایسا ہی خوفناک مجرم ہے مگر جج اسے چھوڑنے یا بری کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے، تو اس کا جواب یہ ملتا ہے کہ جج کے سامنے جو ثبوت اور جو گواہی پیش کی جائے گی وہ اسی کے مطابق فیصلہ کرے گا، اپنے ذاتی علم اور ذاتی گواہی کی بنیاد پر تو نہیں کرے گا۔ یعنی کسی تھانے کا تفتیشی آفیسر، یا کسی ادارے کا وکیل مجرم یا جرم کے بارے میں جیسا کیس پہلے دن بناکر ایک مجسٹریٹ کی عدالت میں لائے گا، جو چالان، گواہوں کی جو فہرست، فرد جرم کی جو نوعیت آغاز میں موجود ہوگی، سپریم کورٹ تک اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ یعنی مجرم اور استغاثہ اگر پہلے دن گٹھ جوڑ کرلیں تو اس عدالتی نظام میں انصاف کا اور کوئی راستہ باقی نہیں بچتا۔ پھر جب کوئی مجرم حکومت کی سرپرستی میں آجاتا ہے تو اس سے زیادہ خوفناک اور ہیبت ناک عفریت کوئی نہیں ہوتی۔

اس کے مقابل کھڑے ہونا، اسے مجرم کہنا، اس کے خلاف گواہ بننا یہ سب ایک خواب بن جاتا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اگر مجرم خود حکومت بن جائے، منتخب نمایندہ کہلانے لگے، اقتدار کے ایوانوں میں بسیرا کرلے تو اس کے خلاف صفحۂ مثل پر ثبوت فراہم کرنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ایان علی سے پانچ لاکھ ڈالر برآمد کرنے والا کسٹم کا اہلکار دن دہاڑے قتل کردیا جاتا ہے اور عدالت بے بسی سے اس بات کا انتظار کرتی رہ جاتی ہے کہ چالان نہیں آیا، فرد جرم نہیں عائد ہوسکتی اور باہر جرم اور مجرم کی خوبصورت ’’کیٹ واک‘‘ میڈیا کے ہوس زدہ ماحول کو رنگین بنارہی ہوتی ہے۔

اسی اینگلو سکیسن عدالتی نظام کا ایک روپ جوڈیشل کمیشن ہیں۔ ان کی رپورٹوں سے پاکستان کے دفاتر اور لائبریریوں کی الماریاں بھری پڑی ہیں۔ ان کمیشنوں کی ایک عجیب و غریب تاریخ ہے۔ یہ ہمیشہ اس وقت قائم کیے گئے جب عوام کی اکثریت کسی خاص مسئلے پر جذباتی سطح پر پہنچ چکی ہو، معاشرہ ایک ہیجان کا شکار ہو، لوگ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچتا دیکھنا چاہتے ہوں، حالات دن بدن قابو سے باہر اور لوگوں کا غصہ اپنے عروج پر ہو تو پاکستان کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ایک عدالتی کمیشن قائم کردیا جاتا ہے اور پھر وہاں عدالتی نظام کی وہ ازلی ابدی بحث شروع کردی جاتی ہے، ثبوت لاؤ، صفحۂ مثل پر کچھ نہیں ہے اور آخر میں کئی سو صفحات پر طویل ایک فیصلہ یا ایسی رپورٹ تحریر کردی جاتی ہے جس میں نہ جرم کا تعین ہو اور نہ ہی مجرم کا پتہ چلے۔ بس ایک تحقیقاتی مضمون مرتب ہوجائے اور اگلے کئی سالوں کے لیے لکھنے والوں کو موضوع ملتا رہے۔

جوڈیشل کمیشن بنانے کا آغاز 1953ء میں ہوا جب یکم فروری کو پنجاب اور خصوصاً لاہور میں قادیانیوں کے خلاف تحریک کا آغاز ہوا جو دیکھتے ہی دیکھتے شہروں، قصبوں اور گلیوں محلوں میں پھیل گئی۔ تشدد اور انتظامی ناکامی نے مارشل لاء کو راہ دکھائی اور بالآخر 19 جون 1953ء کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس منیر کی سربراہی میں ایک عدالتی کمیشن بنا جس نے یکم جولائی 1953ء سے 23 جنوری 1954ء تک سماعت کی اور دس اپریل کو اس کی رپورٹ جاری کردی گئی۔ یہ واحد رپورٹ ہے جو انگریزی، اردو اور بنگالی میں شایع ہوئی اور اس قدر کثیر تعداد میں شایع ہوئی کہ آج بھی فٹ پاتھ پر موجود کباڑیوں کے پاس مل جاتی ہے۔ اس رپورٹ اور اس کمیشن کا بظاہر مقصد لوگوں کی توجہ اصل معاملے سے ہٹا کر انھیں اسلام اور تصور پاکستان کے بارے میں مشکوک کرنا تھا۔ مدتوں اس رپورٹ کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا، صرف یہ ثابت کرنے کے لیے کہ پاکستان تو ایک سیکولر بنیادوں پر تیار ہوا ملک تھا اور قائداعظم کا تصور بھی ایسا تھا۔

لوگ کمیشن سے یہ توقع نہیں رکھتے تھے کہ وہ اس سطح پر اپنی رپورٹ میں مبالغہ شامل کریں گے اور دانستہ طور پر مواد کواپنے حق میں بدلیں گے، لیکن بھلا ہو سیلنہ کریم کا کہ وہ برطانوی آرکائیوز میں موجود قائداعظم کے مغربی پریس کو دیے گئے انٹرویو کے اصل متن تک جاپہنچی تو حیران رہ گئی کہ کوئی اعلیٰ سطح کا عدالتی کمیشن بھی قائد اعظم کے انٹرویو کی عبارت کو توڑ مڑوڑ نہیں بلکہ بدل کر اپنی رپورٹ میں شامل کرسکتا ہے تاکہ ثابت ہوسکے کہ قائداعظم ایک سیکولر پاکستان چاہتے تھے۔ اس کی یہ تحقیق Secular Jinnah and Pakistan (What Nation dont know) کے نام سے چھپ چکی ہے اور پاکستان کے اس پہلے جوڈیشل کمیشن کا جھوٹ اور فریب واضح ہوچکا ہے لیکن دکھ کی بات یہ کہ اسے ظاہر ہونے میں 50 سال لگ گئے۔ اتنی دیر تک لوگ منیر رپورٹ پر سچ کی حد تک یقین کرتے رہے۔ اس کے بعد 1971ء کا سانحہ ہوا، ملک دو لخت ہوگیا۔ پورا ملک رنجیدہ اور غمزدہ تھا۔ عوام دھڑوں میں تقسیم تھے، ایک حصہ سمجھتا تھا کہ ملک فوجی قیادت کی نااہلی کی وجہ سے ٹوٹا، جب کہ دوسرا سیاسی قیادت کو بھی برابر کا ذمے دار ٹھہرتا تھا۔ اس بحث کے طوفان میں جوڈیشل کمیشن ہی واحد راستہ تھا۔

حمود الرحمن کمیشن بنا لیکن چونکہ کمیشن کا مقصد صرف وقتی ابال کو ٹھنڈا کرنا تھا، اس لیے اس کمیشن کی رپورٹ کو سرد خانے میں ڈال دیا گیا جو تیس سال بعد برآمد ہوئی تو وہی تاریخی حقائق کی بحث، محرومیوں کے رونے، نہ جرم کی نوعیت کا اتہ پتہ اور نہ مجرم کی واضح نشاندہی۔ اس کے بعد یہ دستور چل نکلا کہ جب بھی عوامی غیظ و غضب کو ٹھنڈا کرنا ہو، کسی واضح حقیقت اور جرم کو شک کی قبا پہنانا ہو تو جوڈیشل کمیشن بنا دو، مرضی کے مطابق ہو تو رپورٹ جاری کردو ورنہ سرد خانے تو سجتے ہی ایسی رپورٹوں سے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے سانحات سے لے کر اسامہ بن لادن تک عدالتوں کے ججوں نے لاتعداد رپورٹیں جمع کروائیں۔ اس ملک کے انتظامی ڈھانچے اور عدالتی نظام کو درست کرنے کے لیے بھی کمیشن بنے، ان کی موٹی موٹی رپورٹیں آج بھی الماریوں میں مل جائیں گی۔ کارنیلس رپورٹ بہت مشہور ہے لیکن وہی تاریخی دستاویز، وہی گول مول جوابات، ’’آفیسر اچھے کیوں نہیں آتے کیونکہ مراعات بہت کم ہیں، مراعات کم کیوں ہیں کیونکہ آفیسر اچھے نہیں آرہے۔‘‘

اخباروں کے مضامین اور یونیورسٹیوں میں جمع کرائے جانے والے تحقیقی مقالوں کی طرح لکھی جانے والی جوڈیشل کمیشنوں کی ان رپورٹوں کے بعد حکومتیں اور مقتدر قوتیں مطمئن ہوجاتی ہیں کہ ہم نے طوفان کا راستہ روک دیا ہے۔ ہم نے غبارے میں سے ہوا نکال دی ہے لیکن انھیں اس بات کا اندازہ تک نہیں ہوتا کہ جب تک جرم اور مجرم ایک حقیقت کی طرح موجود رہیں گے غبارے میں ہوا بھرتی رہتی ہے۔ جسٹس منیر نے 1954ء میں لوگوں کو مسلمان کی تعریف اور نظریہ پاکستان کے تصور میں الجھا کر یہ سمجھ لیا تھا کہ طوفان ختم ہوگیا لیکن ٹھیک بیس سال بعد 1974ء میں وہ طوفان پاکستان کی اسمبلی تک جاپہنچا اور جو تعریف جسٹس منیر نہ کرسکا تھا اسے اسمبلی کے ارکان نے کر دکھایا ۔ جو ثبوت عدالتی کمیشن کے سامنے نہ آسکا وہ ایک گونجتے ہوئے سچ کی طرح اسمبلی کی راہداریوں میں نظر آگیا۔

پاکستان کی تاریخ کا ایک اور جوڈیشل کمیشن ایک رپورٹ مرتب کرکے ابھی ابھی رخصت ہوگیا اور اپنی رخصتی سے پہلے یہ تحریر کرگیا کہ ہم تک جو ثبوت پہنچے ہم نے ان کے مطابق فیصلہ کیا۔ لیکن گوادر سے گلگت تک ہر آنکھ گواہ ہے کہ کیسے قصبوں، دیہاتوں اور گوٹھوں پر قابض بندوق بردار، خاندانی اثر و رسوخ اور جرم کے بادشاہ لوگوں کو ہانکتے ہوئے پولنگ اسٹیشنوں تک لاتے ہیں۔ کس طرح معمولی استاد جو پریزائیڈنگ آفیسر ہوتا ہے وہ خوف کے سائے میں ہوتا ہے، کیسے بیورو کریسی آیندہ مستقبل کے لیے اپنے منظور نظر سیاستدانوں کے الیکشن کی راہ ہموار کرتی ہے، سرمایہ کیا کرشمے دکھاتا ہے۔ کیسے الیکشن مکمل ہونے کے بعد ایک اجتماعی جھوٹ بولا جاتا ہے ہر جیتنے والا حلفاً کہتا ہے کہ اس نے صرف چند لاکھ روپے خرچ کیے۔

لوگ سب جانتے ہیں اور حقیقت ان کے سامنے روز روشن کی طرح واضح ہے لیکن جیسے نامی گرامی چور، ڈاکو، بھتہ خور، دہشت گرد اور اسمگلر عدالت سے عدم ثبوت کی بنیاد پر باعزت بری ہوکر باہر نکلتا ہے ویسے ہی ہماری جمہوریت بھی آج باعزت طور پر بری ہوگئی۔ طوفان تھم چکا ہے لیکن طوفان تھما نہیں کرتے ایک ایسے خول میں بند ہوجاتے ہیں جہاں ان کی چاپ تک سنائی نہیں دیتی اور پھر وہ ایک دن دھماکے سے خول توڑ کر باہر نکل آتے ہیں۔ جیسے جسٹس منیر کے عدالتی کمیشن کی رپورٹ دھری کی دھری رہ گئی تھی اور لوگوں نے 1974ء میں خود فیصلہ نافذ کروا دیا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔