جوڈیشل کمیشن رپورٹ اور دو اہم سوال

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  پير 27 جولائی 2015
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

جوڈیشل کمیشن رپورٹ آنے کے بعد تحریک انصاف پارٹی کے خلاف بیانات کی بھرمار ہے جو شاید زیادہ غلط بھی نہیں کیونکہ غلطی تو ہوئی ہے وہ بھی سنگین قسم کی۔ متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے اس موقع پر آئین کے آرٹیکل 62 کے تحت الیکشن کمیشن کو عمران خان کی قومی اسمبلی کی رکنیت ختم کرنے کے لیے خط لکھا گیا ہے، ان کا عمران خان سے یہ بھی سوال ہے کہ انھوں نے کس کے اشاروں پر 126 دن تک دھرنا دیا اور قوم کا وقت ضایع کیا۔

اس قسم کے بیانات اور سوال اور بھی سیاسی جماعتوں اور شخصیتوں کی جانب سے ذرایع ابلاغ کی زینت بن رہے ہیں، تاہم راقم کا خیال ہے کہ یہاں ایک سوال صرف ایک جماعت کی جانب سے غلطی یا غلط قدم کا نہیں بلکہ دوسرا اہم سوال ہمارے ذرایع ابلاغ کے کردار کا بھی ہے۔ کیا یہ غور کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہمارے ذرایع ابلاغ اور کہنہ مشق صحافی اس قدر بے خبر کیوں رہے؟ اور اس عمل میں پریس کوریج کے حوالے سے اس قدر سنگین غلطی کیوں ہوئی کہ وہ خود ایک غلط قدم کو ذرایع ابلاغ کا سب سے اہم ایشو بناکر پیش کرنے لگے؟

اگر ہم اپنے ذہن کو تھوڑی دیر کے لیے اس وقت پر لے جائیں کہ جب اسلام آباد میں دھرنا دیا جارہا تھا تو معلوم ہوگا کہ ہمارے ذرایع ابلاغ مسلسل لائیو کوریج اس طرح دے رہے تھے کہ قوم بھی سمجھی کہ واقعی کوئی انتہائی اہم ترین ایشو ہے۔ ذرا سوچئے کہ کیا ذرایع ابلاغ کا کام عوام کو درست سمت دکھانا نہیں ہوتا؟ کیا مشکل وقت میں درست رہنمائی فراہم کرنا نہیں ہوتا؟ یہ کیسی رہنمائی تھی کہ دوسروں کو بھی سچائی نہ بتا سکی بلکہ غلط کو درست کے طور پر فخر سے پیش کیا۔ اس غلطی کو ذرایع ابلاغ کی غلطی قرار دیا جاسکتا ہے؟ ایک دو نہیں کتنے چینلز اور اخبارات تھے جو اس ملک کی جمہوریت کو لپیٹنے کی غلطی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے؟ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ نے صرف عمران خان اور اس کی پارٹی کی حیثیت پر سوال کھڑا نہیں کردیا بلکہ ہمارے ذرایع ابلاغ کی اخلاقیات پر بھی سوال کھڑا کیا ہے، آخر ان ذرایع ابلاغ نے ایک سو چھبیس دن تک جو سچ عوام تک پہنچایا وہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کے برعکس کیسے نکلا؟

ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا آیندہ عوام صرف اس جماعت پر ہی نہیں، ان ذرایع ابلاغ پر بھی اعتماد کرے گی؟ ہمارے ذرایع ابلاغ اپنا اعتبار مسلسل کھوتے جارہے ہیں؟ یہ ایک پہلا واقعہ نہیں، اسلام آباد میں ایک مسلح شخص کے ڈرامے کو بھی صبح تا رات تک براہ راست دکھاکر یہ تاثر دیا گیا کہ شاید یہ بھی پاکستان کا ایک اہم ترین مسئلہ ہے جس سے عوام کو براہ راست مطلع کرنا بے حد ضروری ہے۔ تھوڑا سا اور پیچھے چلے جائیں تو معلوم ہوگا کہ ایک اور شخص کو بے پنا ہ کوریج دی جارہی ہے، جس کا دعویٰ ہے کہ اس نے سندھ کے دیہی علاقے سے تعلق رکھنے کے باوجود اپنی ذہانت سے پانی کے ذریعے گاڑی چلانے کا کامیاب تجربہ کرلیا ہے اور اسے پاکستان میں گھاس نہیں ڈالی جارہی جب کہ ملائیشیا جیسے ملک سے اس کارنامے پر بہترین ’آفر‘ آرہی ہے، لیکن وہ پاکستان کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہے۔

چنانچہ ہمارے ’باشعور‘ ذرایع ابلاغ نے نہ صرف اس شخص کو نمایاں کوریج دی بلکہ اپنے کپیٹل ٹاک شو میں بطور مہمان مدعو کرکے پاکستان کے عظیم سائنسدان عطاالرحمٰن سے ’ٹاکرا‘ کرا دیا، عطا الرحمٰن کہتے رہے کہ یہ ناممکن دعویٰ ہے کیونکہ اگر یہ دعویٰ درست مان لیا جائے تو ہمیں سائنس کے بنیادی اصول ہی بدلنے پڑجائیں گے۔ جواب میں اس شخص نے کوئی سائنسی توجہیہ پیش کرنے کے بجائے اس عظیم سائنسدان پر کرپشن کے الزامات لگانا شروع کردیے۔ مگر افسوس ہمارے ذرایع ابلاغ تب بھی کچھ نہ سمجھے یہاں تک کہ ایک وقت آیا کہ اس شخص کے جھوٹے دعوے اپنی موت آپ مرگئے۔

یہ وقت ہے سوچنے کا کہ آخر ہماری صحافت اس قدر گرتی کیوں جا رہی ہے؟ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے ہاں ایماندار صحافیوں کی کوئی قلت ہوگئی ہے، ہمارے صحافی تو اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کر رہے ہیں اور مختلف قوتوں کی جانب سے عتاب کا شکار بھی ہو رہے ہیں۔

یہاں راقم کو مولانا ابوالکلام آزاد کے حوالے سے ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ انگریزوں کے دور میں جب ان کے اخبار پر کڑا وقت آیا اور کسی صاحب حثیت نے انھیں ایک بہت بڑی رقم کا چیک بھیجا کہ وہ اس مشکل وقت سے باہر نکل جائیں تو مولانا ابوالکلام آزاد نے یہ چیک واپس کردیا اور پھر ایک اداریہ بھی تحریر کیا جس کا مفہوم یہ تھا کہ صحافت کا میدان سخت ہوتا ہے، جہاں انعام و اکرام نہیں ملتا، ستائش کے جملے نہیں ملتے، لعن طعن کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ ایک خاردار راستہ ہے، یہ نفع و نقصان کا نہیں بلکہ سراسر گھاٹے کا سودا ہے، جس کسی کو گھاٹے کا سودا قبول ہو وہی اس گلی کوچے میں آئے۔

مولانا ابوالکلام آزاد کی کہی ہوئی بات آج ہمیں بہت کچھ بتا رہی ہے، یہ بتا رہی ہے کہ ہم اپنی صحافت کو دوبارہ سے کیسے پہلے جیسے مقام پر لاسکتے ہیں۔

دنیا میں سب سے پہلا صحافت کا نظریہ ’مقتدرانہ نظریہ‘ تھا جس کے تحت پریس پر ریاست کا مکمل کنٹرول ہوتا تھا، صحافت ذرا بھی آزاد نہ تھی، پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نظریہ تبدیل ہوا اور ’آزادی پسند نظریہ‘ کا ظہور ہوا اور صحافت کو قطعی آزادی مل گئی مگر اس آزادی کو غلط استعمال کرتے ہوئے ایسے لوگ اس میدان میں آگئے جو کہنے لگے کہ صحافت میں لگا پیسہ صرف گھاٹے کے لیے نہیں بلکہ کمانے کے لیے ہے، چنانچہ مغرب میں صحافت کا اس قدر ناجائز استعمال ہوا کہ اس شعبے سے وابستہ لوگ خود فکرمند ہوگئے کہ کہیں ریاست کی جانب سے دوبار ’مقتدرانہ نظریہ‘ نہ لاگو ہوجائے اور پریس کو حاصل آزادی پھر سے چھین لی جائے، چنانچہ اس تناظر میں ’سماجی ذمے داری‘ کا نظریہ ظہور پذیر ہوا جس کو آج بھی ہر کوئی اپنانے کا دعویٰ کرتا نظر آتا ہے۔

ہمیں یہ خوف کیوں نہیں آرہا کہ کہیں ہمارے ذرایع ابلاغ کی آزادی بھی نہ ختم ہوجائے، کیا ہمیں بھی اس جانب کچھ سوچنے سمجھنے کی ضرورت ہے؟ آیئے اس پر بھی غور کریں اور خاص کر مولانا ابوالکلام آزاد کی کہی ہوئی بات پر کہ صحافت ’نفع و نقصان کا نہیں بلکہ سراسر گھاٹے کا سودا ہے‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔