افغان امن مذاکرات ، ملا عمر کا کردار

اسلم خان  بدھ 29 جولائی 2015
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

ملا عمر کے بغیر افغانستان میں قیام امن ادھورا خواب بن کر رہ جائے گا۔ مری میں ہونے والے امن مذاکرات کا پہلا دور بڑی کامیابی اور پیش رفت ہے۔ پاکستان طالبان کو بات چیت کی میز پر لے آیا جن کا یہ موقف رہا ہے کہ غیرملکی افواج کے مکمل انخلاء تک کٹھ پتلی افغان انتظامیہ سے کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہوسکتے۔ اس طرح افغان حکومت نے بھی اپنے اس موقف میں لچک پیدا کی ہے کہ صرف ہتھیار ڈالنے اور جنگ بندی پر آمادہ طالبان سے ہی مذاکرات ہوسکتے ہیں جب کہ دوسری جانب افغان مذاکراتی سرکاری وفد میں ایک سے زائد خواتین بھی شامل تھیں۔

ابتدائی بات چیت میں جو رمضان المبارک کے آخری عشرے میں جاری رہی، اعتماد سازی اور مثبت اقدامات کی تفصیلات طے کی گئیں۔ امریکا اور چین کے سینئر سفارت کاروں نے خاموش مبصر کی حیثیت سے مذاکرات کی کارروائی ملاحظہ کی جب کہ پاکستان تو کئی دہائیوں سے اپنے افغان بھائیوں کا میزبان ہے۔ شاید مستقبل میں بھی طویل عرصے تک یہ فریضہ ادا کرتا رہے گا۔

31 جولائی سے شروع ہونے والے امن مذاکرات کا دوسرا مرحلہ طالبان قیادت پر عائد اقوام متحدہ کی پابندیاںختم کرنے، امریکی ایف بی آئی کی مطلوب ترین افراد کی فہرست سے ملامحمد عمر کا نام نکالنے، اُن کی گرفتاری پر ایک کروڑ ڈالر کی انعامی رقم کی واپسی اور جنگی قیدیوں کی رہائی کے لیے فہرستوں کے تبادلے جیسی شرائط سے شروع ہوگا۔

لیکن اصل سوال تو یہ ہے کہ ملامحمد عمر مجاہد کی عدم موجودگی اور واضح آشیرباد نہ ہونے کی افواہوں کے پیش نظر قیام امن کے عمل کو کس طرح سے آگے بڑھایا جائے گا؟ میدان جنگ میں برسرپیکار طالبان اور ان کے کمانڈروں کو کون جنگ بندی کے موثر احکامات جاری کرے گا؟ کیونکہ ایک مدت سے ملامحمد عمر لاپتہ ہیں۔ اگرچہ ماضی میں صوتی پیغامات کے ذریعے وہ افغان عوام اور جنگجوؤں کی رہنمائی کرتے رہے ہیں لیکن گزشتہ دو سال سے یہ سلسلہ بھی ختم ہوچکا ہے جس کے بعد ان کی زندگی اور موت کے بارے میں چہ مگوئیاں زور پکڑ گئی ہیں۔

داعش میں شامل ہوجانے والے بعض کمانڈروں کے بیان بھی ایک تسلسل سے شایع ہوئے جو بلاشبہ معنی خیز ہے۔ شاید اسی وجہ سے عیدالفطر پر ملا عمر کا روایتی پیغام جاری کیاگیا جس میں انھوں نے مبینہ طورپر امن مذاکرات کی حمایت کی۔ تاہم اس تازہ پیغام کے بارے میں نیٹو افواج سے برسرپیکار کمانڈر شک میں ہیں اورشُبہات کا اظہار کررہے ہیں لیکن یہ بھی اپنی جگہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب تک ان کی شہادت کی کوئی مصدقہ اطلاع نہیں آجاتی وہ یقینی طورپر طالبان کے غیر متنازعہ رہنما رہیں گے۔ ان کے زیرزمین رہنے کی بڑی وجہ تو ان کی گرفتاری پر ایک کروڑ ڈالر کا امریکی انعام ہے۔

امن مذاکرات میں حقیقی پیش رفت کی صورت میں ملاعمر کو ایف بی آئی کی مطلوب ترین اشخاص کی فہرست سے نکال کر انعام کی پیش کش واپس لینا ہوگی۔اگلے ہفتے چین میں ہونے والے مذاکرات میں طالبان کے سینئر رہنما مذاکرات میں شامل ہوں گے جس میں نام نہاد کوئٹہ شوریٰ اور رہبر کونسل کے ارکان مذاکراتی عمل کو آگے بڑھائیں گے۔

امریکی رویوں نے ہم کم مایہ اور ناسمجھوں کو ہمیشہ سے ہی الجھائے رکھا ہے۔ ماضی کی مثالوں میں وقت برباد کرنے  کے بجائے حال کا احوال بتائیں تو داعش کا خلیفہ بغدادی تمام تر وحشت ناکیوں سمیت اپنی نام نہاد خلافت کے دارالخلافہ ’رقعہ‘ میں آزادانہ جمعہ کا خطبہ دیتا ہے۔ کیوبا کے کاسترو کی طرح بیش قیمت رولیکس گھڑیاں پہننے کا شوقین یہ نام نہاد خلیفہ عراق اور شام کے علاقوں کو ’فتح‘ کرکے اپنی خلافت وسیع کررہا ہے لیکن کوئی امریکی قاتل ڈرون اس کا تعاقب کرنے کی جرات نہیں رکھتا اور اسے اسلام کو بدنام کرنے کی دانستہ اجازت ہے بلکہ یہ تاثر مزید راسخ ہورہا ہے کہ اس کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔

افغان امن مذاکرات کی کامیابی کے لیے ناگزیر ہے کہ طالبان قیادت پر عائد اقوام متحدہ کی پابندیاں ختم ہوں اور ملامحمد عمر مجاہد کا نام ایف بی آئی کی مطلوب ترین افراد کی فہرست سے نہ صرف نکالا جائے بلکہ ان کے حوالہ سے مقرر کردہ انعامی رقم بھی واپس لی جائے۔ بلاشبہ ملاعمر کی آشیر باد کے بغیر امن مذاکرات کے عمل کو آگے نہیں بڑھایاجاسکتا۔جس کے جواب میں طالبان غیرملکی افواج کے افغانستان سے مکمل انخلاء کی شرط میں نرمی پیدا کرسکتے ہیں اور تیرہ ہزار امریکی واتحادی افواج کے دستوں کی موجودگی پر بات آگے بڑھ سکتی ہے۔

اس بارے میں امریکی رویے ہمیں کیاسبق سکھائیں گے؟ اس کا مجھ ایسے طالب علم کو انتظار ہے۔  سنجیدہ اور نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے اولین شرط رازداری ہوتی ہے۔ اگر فریقین میدان جنگ میں برسرپیکار ہوں، اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ اس پہلو پر اصرار کی وجہ ابھی کچھ عرصے پہلے کا واقعہ ہے جب کچھ عاقبت نااندیشوں نے نام نہاد پاکستانی طالبان سے مذاکرات کا ڈول ڈالا تھا۔

سرکاری اور غیرسرکاری کمیٹیاں بناکر اس کالم نگار کے برادران پروفیسر عرفان صدیقی اور میجر عامر کو ان کمیٹیوں کی بھینٹ چڑھادیاگیا۔ ٹی وی چینلوں پر ہونے والے ان مذاکرات کا نتیجہ کیانکلناتھا لیکن چند ہفتے یہ میڈیا سرکس خوب چلا۔ یہ ایسے مذاکرات تھے کہ افغان طالبان نے واضح طورپر اس عمل سے لاتعلقی کا اعلان کیا۔

یہ کالم نگار بار بار اصرار کرتا رہا کہ خدارا اس کھیل تماشے کو بند کرکے ملامحمد عمر سے براہ راست مذاکرات کیے جائیں جس کے لیے قومی سلامتی امور پر وزیراعظم نواز شریف کے مشیرخصوصی جناب سرتاج عزیز موجود ہیں جو 2001 میں امریکی قیادت میں نیٹو اتحاد کے حملے سے قبل ملامحمد عمر سے براہ راست مذاکرات کرتے رہے تھے کیونکہ پاکستان کے اقتدار کے ایوانوں میں وہ واحد ایسی بزرگ شخصیت تھے جو ملامحمد عمر کی قند ھاری پشتو کو بآسانی سمجھتے ہیں اور حضرت قاقا خیل کے روحانی سلسلہ سے تعلق رکھنے والے گوہر آبدار ہیں۔

2001میں طالبان کے خاتمے اور ملامحمد عمر کے روپوش ہونے کے بعد ان کے نائب اخترمحمد انور رہبر کونسل کی مدد سے تحریک طالبان کا نظام احسن انداز سے چلاتے رہے۔ گاہے ملاعمر بھی صوتی ریکارڈڈ پیغامات کے ذریعے جنگی حکمت عملی اور سیاسی امور پر راہنمائی کرتے لیکن اب مدتوں سے یہ سلسلہ منقطع ہے جس کے باعث طالبان کے انتظامی ڈھانچے میں بے چینی بڑھنے کی اطلاعات زور پکڑرہی ہیں۔ خاص طورپر مختلف دور دراز محاذوں پر برسرپیکار طالبان کماندار اور سپاہ شدت سے چہار سو  ان کی متلاشی ہیں۔

کابل میں مقیم ایک سینئر سفارت کار نے اس کالم نگار کو بتایا کہ ملاعمر سمیت طالبان قیادت کو اس امر کا بخوبی ادراک ہوچکا ہے کہ وہ کسی طورپر دوبارہ پورے افغانستان پر حکمرانی قائم نہیں کرسکتے۔

اس لیے مذاکرات کے ذریعے انھیں سیاسی عمل میں شریک ہونا چاہیے۔ یہ سوال البتہ اپنی جگہ پر پوری سنجیدگی سے موجود ہے کہ ملا محمد عمر کی عدم موجودگی میں جنگ بندی پر عمل درآمد کیسے ہو گا؟ اور کون کرائے گا؟ افغانستان میں ہتھیار تو ویسے کسی بھی وقت دوبارہ اٹھائے جاسکتے ہیں کیونکہ جب مقصد لڑائی  اور محاذآرائی ٹھہرے تو اس کے لیے کسی جواز کی ضرورت نہیں ہوتی تاہم یہ حقیقت فراموش نہیں کی جاسکتی کہ افغانستان سے سیاسی انتشار،مالی بدعنوانی اور علاقائی ماردھاڑ صرف ملا عمر کی قیادت میں طالبان ہی ختم کرسکتے ہیں۔

اسی لیے امریکا اور چین کی ضمانت کے ساتھ طالبان ہی کے ذریعے افغانستان کو امن کی سوغات میسرآسکتی ہے۔ اس میں فریقین کے اخلاص اور مقاصد کے حصول کا بھی کڑا امتحان ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا مقصد اور مدعا امن ہے یا پھر محض مذاکرات کے نام پر کچھ اور نیا حرف آخر یہ کہ افغان امن مذاکرات کی ’پَگ‘ عالمی سطح پر قیام امن کے لیے بروئے کار ادارے پَگوَاش کے سر پر باندھی جارہی ہے۔ یہ ادارہ 1957 میں کینیڈا کے گاؤں پگواش میں معرض وجود میں آیا تھا اور اسی گاؤں کی نسبت سے اس کا نام رکھاگیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔