ہمارے ہیں سیاستدان کیسے کیسے

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 29 جولائی 2015

آئیں پہلے ایک چھوٹی سی کہانی پڑھتے ہیں ’’ایک غریب فیملی جس میں پانچ افراد تھے، باپ ہمیشہ بیمار رہتا تھا، آخر میں مر گیا، تین دن تک پڑوسیوں نے کھانا بھیجا، بعد میں ماں نے کچھ دنوں تک جیسا تیسا بچوں کو کھلایا پھر فاقے پڑنے لگے، جس کی وجہ سے 8 سال کا بیٹا بیمار ہو گیا، آخرکار اس نے بستر پکڑ لیا، 5 سال کی معصوم بچی نے ماں کے کان میں پو چھا، اماں بھائی کب مرے گا؟ ماں تڑپ گئی اور کہا ایسا کیوں پوچھ رہی ہو؟ بچی نے معصومیت سے کہا، اماں بھائی مرے گا تو گھر میں کھانا آئے گا‘‘۔

یہ کہانی میں نے کافی عرصے پہلے پڑھی تھی لیکن میں آج تک یہ سمجھ نہیں پایا کہ آیا یہ صرف ایک کہانی ہے یا پاکستان کے 18 کروڑ غریب لوگوں کی زندگیوں کا آنکھوں دیکھا حال ہے۔ اگر آپ کے پاس تھوڑا سا وقت ہو تو آپ ذرا پاکستان کے غریب لوگوں کی بستیوں کا احوال خود جا کر کر لیجئے پھر آپ وہاں جو جو مناظر دیکھیں گے تو پھر آپ بھی اس کہانی پر شک کرنے پرمجبور ہو جائیں گے کہ یہ کہانی نہیں ہے بلکہ پاکستان کے غریبوں کی وہ اصل حقیقت ہے جسے ہم نہ دیکھنا چاہ رہے ہیں اور نہ ہی سننا چاہ رہے ہیں۔

اب ذرا ہم اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان کے غریب لوگوں کا موجودہ حال آیا پاکستان بننے کے پہلے روز سے ہی ہے یا ہمارے سیاست دانوں نے ان جیتے جاگتے انسانوں کو خود اپنے ہاتھوں قبر میں لٹا دیا ہے اور وہ آج بھی بیلچے اٹھائے ان کے اوپر مٹی پھینکنے کے لیے بے تاب ہیںٍ، مکمل جائزے کے بعد آپ اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ پاکستان بننے اور برسوں بعد بھی ملک کے عوام نہ صرف خوشحال تھے بلکہ ان کی زندگیاں انتہائی خوش و خرم گزر رہی تھیں، پھر ایوب خان کے دور سے پاکستان کے سیاستدانوں کی کر پشن اور لوٹ مار کا آغاز ہوتا ہے اور اس کے بعد سے آج تک ان غریبوں پر ساری آفات ان ہی بلاؤں کی نازل کردہ ہیں۔

ہم سب نصیبوں کے نہیں بلکہ سیاست دانوں کے مارے ہیں۔ آج کے دور میں اگر آپ کا مقصد کسی قوم یا ملک کو ختم کرنا ہے تو آپ اور کچھ نہ کیجئے صرف اس قوم یا ملک کے سیاست دانوں میں کرپشن کے جراثیم داخل کر دیجئے اور آرام اور سکون سے بیٹھ جائیے کیونکہ اب آپ نے کچھ نہیں کرنا ہے پھر سارا کام جراثیم خود کر دیں گے اور اس جلدی اور تیزی سے کریں گے کہ آپ خود حیران ہو جائیں گے اور کچھ ہی عرصے بعد آپ اس ملک اور قوم کو فالج زدہ پائیں گے۔ اس بات کو اور زیادہ سمجھنے کے لیے آپ ایک چھوٹا سا تجربہ کر کے دیکھ لیجئے، ایک ہر طرح سے خوشحال، خوش و خرم، صحت مند آدمی کو کسی طرح سے ہیروئن پینے کی لت میں مبتلا کر دیجئے، تھوڑے ہی دنوں بعد آپ اس کا انجام دیکھ کر وحشت زدہ ہو جائیں گے۔

ماضی بعید میں برطانیہ نے چینیوں کے خلاف افیون کا حربہ استعمال کیا تھا اور چینیوں کو افیون کی لت میں مبتلا کر دیا تھا لیکن یہ حربہ زیادہ دیر تک کارآمد ثابت نہ ہو سکا کیونکہ افیون سمیت دیگر تمام لت کو چھوڑنے کا خطرہ ہمیشہ موجود رہتا ہے لیکن کرپشن وہ واحد لت ہے جس سے باہر نکلنے کا خطرہ کبھی موجود نہیں ہوتا ہے۔

ہمارے ملک میں سیاستدان بننا وہ واحد نفع بخش کاروبار بن گیا ہے جس میں کبھی بھی کسی بھی وقت نقصان کا کوئی خطرہ موجود نہیں ہے، بلکہ اس کے بالکل برعکس دن دگنی رات چوگنی ترقی یقینی ہے، بس آپ میں کر پشن کے جراثیم، دوچار لفنگوں سے دوستی، طبعیت میں بے رحمی اور سنگدلی، خو ن میں منافقت، دل میں بے حسی کا ہونا ضروری ہے۔ خدا کے فضل سے ہمارے تمام سیاست دان ان تمام خوبیوں سے لبالب بھرے ہوئے ہیں، اس لحاظ سے بھی ہم خوش نصیب قوم واقع ہوئے ہیں کہ ہمیں سیاست دانوں کی تمام اقسام سے پالا پڑا ہوا ہے۔ آئیں سیاست دانوں کی اقسام کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔

پہلی قسم کل وقتی سیاست دانوں کی ہے جو سیاست کے علاوہ اور کچھ نہیں کرتے ہیں، ان کا روزگار سیاست کے علاوہ کچھ نہیں، سیاست، سیاست اور بس سیاست، اٹھتے بیٹھتے جاگتے سوتے، کھاتے پیتے ہوئے ہر لمحہ ہر وقت صرف سیاست صرف سیاست۔ دوسری قسم کاروباری سیاست دانوں کی ہے، جو سیاست ایک کاروبار کے طور پر کرتے ہیں جو ہر بات میں صرف اپنا نفع نقصان دیکھتے ہیں، جو سیاست میں صرف اس لیے آتے ہیں کہ ان کا دھندہ عروج پر پہنچے۔ یہ انتہائی موقع پرست ماننے جاتے ہیں، جو اپنے نفع کے لیے پوری قوم کا نقصان کرنے میں ذرا سی بھی دیر نہیں لگاتے ہیں۔

تیسری قسم حادثاتی سیاست دانوں کی ہے، ایسے سیاست دان ہمیشہ کسی حادثے کی شکل میں قوم پر مسلط ہو جاتے ہیں اور اپنا کام انتہائی سرعت کے ساتھ کر کے کسی حادثے کی طرح غائب ہو جاتے ہیں اور باقی زندگی باہر کے ممالک میں عیش کے ساتھ گزارتے رہتے ہیں۔ چوتھی قسم جرائم پیشہ سیاست دانوں کی ہے جن کے متعلق اگر کچھ بھی نہ لکھا جائے تو قوم خودبخود ان کے کرتوتوں کے متعلق زوز زوز سے کہنا شروع کر دے گی۔ سیاست دانوں کی یہ قسم پاکستان کے ہر شہر، ہر گلی، ہر کوچے میں آپ کو بکثرت دیکھنے اور بھگتنے کو ملے گی۔

پانچویں قسم وڈیرے، پیر، چوہدری، سردار، سیاست دانوں کی ہے، جو اپنے مریدوں، علاقے میں اپنے اثر و رسوخ، اپنے پیسوں کی مدد سے سیاست دان بن جاتے ہیں، سیاست دانوں کی اس قسم کی ہر زمانے میں ہر وقت موجاں ہی موجاں رہتی ہیں، ہر پارٹی ہر حکمران ان کی مدد اور ساتھ کا طلبگار رہتا ہے، ان پر ذہانت، شاطرپن، منافقت آکر ختم ہوجاتی ہے، یہ قسم پاکستان بننے کے پہلے روز سے آج تک اقتدار کے خوب مزے لوٹ رہی ہے اور دور دور تک ان کے مزوں کو کوئی بھی خطرہ نظر نہیں آرہا ہے۔ اور باقی رہ گئے 18 کروڑ عوام تو ان کی بات ہی نہ کی جائے تو زیادہ بہتر ہے کیونکہ جو سب کچھ ہوتا ہوا دیکھ رہے ہوں اور پھر بھی چپ چاپ بت بنے بیٹھے ہوں تو ان کی بات کرنا یا نہ کرنا دونوں برابر ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔