پرافل بھی چلاگیا

مقتدا منصور  جمعرات 30 جولائی 2015
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

پرافل بدوائی بھی مرگیا۔ وہ آنکھیں، جو اس خطے میں دیرپا امن اور پائیدار ترقی کا خواب دیکھا کرتی تھیں، ہمیشہ کے لیے بند ہوچکی ہیں۔ وہ دل جو جنوبی ایشیاء کے غریب، مفلوک الحال اور فاقہ زدہ محنت کشوں اور سماج کے محروم طبقات کے لیے دھڑکتا تھا، بند ہوچکا ہے۔ وہ ذہن جو غربت، افلاس اور جہل کے اندھیرے مٹانے کی تدابیر سوچنے میں غلطاں رہتا تھا، سوچوں کی حدود سے آگے جاچکا ہے۔ وہ قلم، جو سینہ قرطاس پر انسانیت کے درد کو اجاگر کیا کرتا تھا، ساکت ہوچکا ہے۔

وہ زبان جو حقوق انسانی کے لیے آواز بلند کیا کرتی تھی 23جون2015 کو ہالینڈ  کے شہر ایمسٹرڈیم میں ہمیشہ کے لیے خاموش ہوچکی ہے۔ گزشتہ سنیچر کے روز امن کے اس پجاری کی چتا کی خاک جامشورو کے نزدیک سندھو میں بہا دی گئی۔ یوں ویزا سے آزاد جنوبی ایشیاء کا خواب دیکھنے والا خود تو نہیں، مگر اس کی راکھ ویزا کے بغیر پاکستان میں داخل ہوکر اس کے سب سے بڑے دریا میں شامل ہوگئی۔

جنوبی ایشیاء بالخصوص پاکستان اور بھارت میں امن، شانتی اور اہنسا کے لیے صدائے خیر بلند کرنے والی آوازیں ویسے ہی بہت کم ہیں۔ گنتی کے وہ معدودے چند اہل قلم اور متوشش شہری ہیں کہ انسانیت نوازی جن کی فکری اساس کی بنیاد ہے۔ وہ اس خطے میں امن ، جمہوریت اور حقوق انسانی کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں۔

ان لوگوں کی تعداد میں اضافہ تو کجا، وقت گذرنے کے ساتھ کمی ضروری آرہی ہے۔ کیونکہ وہ نوجوان نسل، جس سے دنیا کے بدلتے حقائق کا ادراک کرتے ہوئے وسیع البنیادی پر مبنی فیصلوں کی توقع کی جاتی ہے، وہ خود ماضی کی غلام گردشوں میں پھنس کر تنگ نظری اور متشدد رویوں کا شکارہو چکی ہے۔ اس لیے امن اور اہنسا کے لیے اٹھنے والی ان آوازوں میں اضافے کے بجائے مسلسل کمی واقع ہورہی ہے۔ پرافل بھی اسی قلم قبیلے کا ایک بے باک ونڈر سپاہی تھا،جو قلم کی سپر ہاتھ میں تھامے ظلم و زیادتی کے خلاف نبرد آزماء تھا اور اپنی آخری سانس تک ان آدرشوں کی تکمیل کے لیے حکمرانوں اور جنون پرست قوتوں کے ساتھ الجھتا رہا۔

پرافل سے میری پہلی ملاقات1999 میں پائلر کے سربراہ کرامت علی کے توسط سے اسوقت ہوئی، جب وہ جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے خلاف کانفرنس میں شرکت کے لیے کراچی آیا تھا۔ 1998 میں جب بھارت اور پاکستان نے یکے بعد دیگرے جوہری دھماکے کرکے اپنے جنگی جنون کو وحشتوں کی انتہاؤں تک پہنچایا، تو خطے کے متوشش شہریوں، امن دوست قلمکاروں اور اہل علم و دانش نے اس جنون پرستی کے خلاف منظم ہوکر آواز اٹھانے کا فیصلہ کیا۔

یوں پاکستان انڈیا پیپلز فورم برائے امن و جمہوریت کا قیام عمل میں آیا۔ اس فورم کے ذریعے دونوں ملکوں کے اہل قلم اور متوشش شہریوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملکر ہتھیاروں کی غیر منطقی دوڑ کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کا موقع ملا۔ یہی وجہ ہے کہ ان15سے16برسوں کے دوران جب بھی اور جہاں بھی ملنے کا موقع ملا، ہماری گفتگو کا محور جنوبی ایشیاء کا مستقبل رہا۔ وہ جب بھی ملا خطے میں امن کی دگرگوں صورتحال، بڑھتے ہوئے جنگی جنون، کمیونل ازم کے رجحان میں اضافے اور امارت اور غربت میں بڑھتے ہوئے فاصلے پر تشویش میں مبتلا  نظر آیا۔  میں گزشتہ16 برسوں سے اس کی تحریروں کو بڑے غور سے پڑھتا رہا ہوں، کیونکہ وہ انتہائی جرأت کے ساتھ مدلل انداز میں اپنا موقف پیش کرنے کا عادی تھا۔

جنوبی ایشیاء بالخصوص پاک و ہند کے عوام جن مسائل و مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ ان کا سبب ان دونوں ممالک کی حکمران اشرافیہ کا جنگی جنون اور عوام دشمن رویہ ہے۔

ہر قسم کے اسلحے کی دوڑ نے سماجی ترقی کے اہداف کو گہنا دیا ہے، کیونکہ ان دونوں ملکوں کے وسائل کا بڑا حصہ جنگی بازی کے جذبات کی تسکین پر خرچ کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ حکمرانوں اور مراعات یافتہ اشرافیہ کی اس روش اور رویہ نے دونوں ممالک کے عوام کے درمیان  نفرتوں کی ایسی دیوار کھڑی کردی ہے، جسے عبورکرنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوچکا ہے۔ ان کے درمیان سیاسی، سماجی ، معاشی اور ثقافتی روابط کے راستے بند ہو  جانے کی وجہ سے خطے کی ترقی کے اہداف حاصل کرنا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔

اگر ان دونوں ممالک کے عوام کو درپیش مسائل کا جائزہ لیا جائے تو سب سے بڑا مسئلہ کمیونل سوچ کا گہرا ہونا ہے۔ جو تقسیم ہند کے نتیجے میں زیادہ نفرت انگیز ہوئی ہے۔ جب کہ کشمیر سمیت مختلف تنازعات نے اسے مہمیز لگائی ہے۔ ساتھ ہی عقیدے کی بنیاد پر مختلف عقائد اور نظریات کے انسانوں کو کمتر اور ملیچھ سمجھنے کی روش نے تشدد کی راہ ہموار کی ہے۔ عقیدہ کی بنیاد پر ہونے والی سیاست نے دونوں ملکوں میں جمہوریت کے لیے شدید نوعیت کا خطرات پیدا کر دیے ہیں۔

پاکستان میں مسلم شدت پسندی اور بھارت میں ہندو قومی پرستی میں تشددکا بڑھتا ہوا رجحان تعلقات میں بہتری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ یہ روش صرف دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان تعلقات کو مسلسل خراب رکھنے کا ہی باعث نہیں ہے، بلکہ کسی بھی وقت احمقانہ جذباتیت پورے خطے کی تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک میں طبقاتی تقسیم ، جو وقت گذرنے کے ساتھ مزید گہری ہورہی ہے، دونوں معاشروں میں محروم طبقات کا حجم بڑھانے کا سبب بنی ہوئی ہے۔ یہ ایک ایسا ناسور ہے، جو  وقت گذرنے کے ساتھ لا علاج ہوتا جارہا ہے۔

دوسرا پہلو جس پر پرافل واضح تھا، وہ سیکیولر ازم ہے۔ اس کاکہنا  تھا کہ بھارت کو صرف اس کے سیکیولر آئین اور جمہوریت نے اب تک جوڑے رکھا ہے۔ وہ اور بیشتر حقیقت پسند دانشور اور سیاسی تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ اگر بھارت ابتدائی برسوں میں سیکولرآئین بنانے میں کامیاب نہ ہوتا، تواس کا ابتدائی دس برسوں کے اندر بکھر جانا یقینی تھا۔ یہی کچھ سوچ پاکستان کے متوشش شہریوں کی بھی ہے کہ اگر پاکستان کی قیادت اور منصوبہ ساز 11اگست 1947 کو دستورساز اسمبلی کے پہلے اجلاس میں بابائے قوم کے دیے گئے مشورے پر عمل کرکے ایک سیکولر آئین بنا لیتے، تو ملک کو ان سیاسی، سماجی اور ثقافتی بحرانوں سے بچایا جاسکتا تھا ، جن سے آج دوچار ہے۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ قرارداد مقاصد کو آئین کا حصہ بنایا جانا اور دوسری آئینی ترمیم جیسے اقدامات قائد کے تصورات پاکستان سے صریحاً متصادم ہیں۔ ساتھ ہی اس حقیقت کو بھی تسلیم کیا جانا چاہیے کہ پاکستان بھی بھارت کی طرح ایک کثیر القومی اور کثیر المذہبی ملک ہے۔ اس کا وجود اور بقاء تمام قوموں اور مذاہب کے ماننے والوں کے مساوی حقوق سے مشروط ہے۔ اس لیے پاکستان میں ایسی وفاقی جمہوریت کا تسلسل لازمی ہے، جس میں تمام عقائد کے شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں۔

تیسرا مسئلہ جس نے اس خطے کو آتش فشاں کے دھانے پر کھڑا کردیا ہے، وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود سنگین نوعیت کے تنازعات ہیں۔ دونوں جانب کی مقتدر اشرافیہ نہ تو ان تنازعات کو سنجیدگی کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کررہی ہے اور نہ ہی عوام کے درمیان روابط قائم ہونے دے رہی ہے۔

جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان سماجی، ثقافتی اور معاشی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایک دوسرے کی نیت پر شک و شبہات نے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ ذرا سی بات پر ایک دوسرے کی خفیہ ایجنسیوںکا ایجنٹ ہونے کے الزامات نے خوف و ہراس کا نا ختم ہونے والا ایک ایسا سلسلہ قائم کردیا ہے جو آزادانہ باہمی تعلقات اور خیالات کے صحت مند تبادلے کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں ۔

اس حقیقت کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے کہ اپنی جائے پیدائش اور اپنے آبائی گھروں کو دیکھنے کی خواہش بنیادی انسانی حقوق کا حصہ ہے۔ مگر اس حق کی تسلسل کے ساتھ خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ وہ سینئر شہری جو سرحد کے ادھر یا ادھر پیدا ہوئے تھے، اب بہت کم تعداد میں رہ گئے ہیں۔ مگر انھیں بھی اپنے آبائی شہروں میں جانے کے لیے وہ سہولیات نہیں دی جا رہی ہیں، جو عالمی سطح پر ان کا حق تصور کی جاتی ہیں۔

غرض کہ قومی حمیت کے نام پر پھیلائی جانے والی عصبیتوں اور مذہب کے نام پر فروغ  پاتی جنون پرستی نے پورے ماحول کو زہر آلود کردیا ہے۔ بھارت میں یہ تاثر پھیلایا جاتا ہے کہ ہر پاکستانی دہشت گرد ہے، جب کہ پاکستان میں ہر بھارتی کو عیار، مکار اور اسلام دشمن کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں تعلقات کبھی بہتری کی طرف نہیں جا سکتے۔ کیونکہ ذہنوں میں بیٹھے شکوک و شبہات اچھے تعلقات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔

افسوسناک یہ بات ہے کہ دونوں ممالک کی مقتدر اشرافیہ کی سمجھ میں یہ معمولی سی بات نہیں آرہی کہ پڑوسی تبدیل نہیں ہوتے، ان کے ساتھ مفاہمت ہی قومی ترقی کی واحد کلید ہے۔ پرافل بدوائی اس قلم قبیلہ کا رکن تھا،جو دونوں ممالک کے درمیان خوشگوار تعلقات اور عوام کے عوام کے ساتھ روابط میں ہر قسم کی رکاوٹوں کے خاتمہ کا خواہشمند ہے، مگر وہ یہ خواب آنکھوں میں لیے اس دنیا سے چلا گیا۔اب یہ ان تمام متوشش شہریوں،حقیقت پسند قلمکاروں،فنکاروں اورادیبوں کی ذمے داری ہے، جو امن، شانتی اوراہنسا پر یقین رکھتے ہیں کہ وہ اس مشن کو آگے بڑھائیں، جو پرافل کا آدرش تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔