’’بجرنگی بھائی جان‘‘ سے دوستی سیکھ لی؟ اب ’’فینٹم‘‘ سے دشمنی سیکھو!

محمد عثمان فاروق  منگل 4 اگست 2015
اگر ہم طاقت کے میدان میں تم سے نہ دبے اور ہر سازش کا بہادری سے مقابلہ کررہے ہیں تو یاد رکھو کہ فلم اور میڈیا کے میدان میں بھی شکست سے دوچار نہیں ہوں گے۔

اگر ہم طاقت کے میدان میں تم سے نہ دبے اور ہر سازش کا بہادری سے مقابلہ کررہے ہیں تو یاد رکھو کہ فلم اور میڈیا کے میدان میں بھی شکست سے دوچار نہیں ہوں گے۔

میں نے کچھ دن پہلے ہندوستانی فلم ’’ بجرنگی بھائی جان ‘‘ پر بلاگ لکھا تھا جس میں ٹھوس تحقیقی حوالہ جات سے یہ نقطہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ’’ بجرنگی بھائی جان ‘‘ ایک سلو پوائزننگ فلم تھی جس کا مقصد پاکستان کی بنیادی نظریاتی اساس کو متاثر کرنا تھا۔ بلاگ کے نیچے ایک پول بھی تھا جس میں یہ سوال کیا گیا تھا کہ کیا آپ اس بلاگ سے متفق ہیں تو تقریبا پچانوے فیصد افراد جن کی تعداد کوئی چھ ہزار کے لگ بھگ تھی انہوں نے بلاگ میں اٹھائے جانے والی نقاط کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ آج کے بلاگ کا تعلق بھی کہیں نہ کہیں میرے پچھلے بلاگ سے ہے۔

چند دنوں میں ہندوستانی فلم ’’فینٹم‘‘ ریلیز ہورہی ہے جس کا 2 منٹ کا ٹریلر دیکھتے ہی واضح ہوجاتا ہے کہ یہ ایک تعصب سے بھرپور پاکستان مخالف فلم ہے جس کی کہانی ایک ایسے ہندوستانی ایجنٹ کے گرد گھومتی ہے جس کا مشن پاکستان میں گھس کر حافظ سعید کو قتل کرنا ہے۔ اب ایک دلچسپ بات اپنے قارئین کو بتانا چاہوں گا کہ ’’بجرنگی بھائی جان‘‘ اور ’’فینٹم‘‘ کا ڈائریکٹر ایک ہی شخص یعنی کبیر خان ہے۔ اب اِدھر ایک اور بات سمجھ لیں کہ بجرنگی بھائی جان میں غیر محسوس طریقے یہ بات دیکھنے والوں کے دماغ میں ڈالی گئی کہ ہندوستان سے خفیہ طور پر پاکستان میں گھسنے والے نیک دل اور ہمدرد لوگ ہوتے ہیں جبکہ فینٹم میں یہ بتایا جائے گا کہ خفیہ طور پر گھسنے والے نیک لوگ اگر پاکستان میں دہشتگردی کریں تو گبھرانا نہیں ہے کیونکہ ایسی دہشتگردی پاکستانیوں کے اپنے مفاد میں ہی ہے۔

یہاں پر میں ان لوگوں کو ایک نقطہ سمجھانا چاہتا ہوں جو میرے پچھلے بلاگ پر اس طرح کے کمنٹ کررہے تھے کہ،

’’دیکھیں جی بجرنگی بھائی جان میں دوستی کا سبق دیا گیا اب ہمیں ہندوستان سے پیار محبت کی بات کرنی چاہیئے وغیرہ‘‘

تو جناب پہلے یہ سمجھ لیں کہ ملکوں کے درمیان دوستیاں اور پیار نہیں ہوتا، ملکوں کے مابین تو تعلقات ہوتے ہیں جن کا انحصار باہمی مفادات اور اعتماد پر ہوتا ہے۔ میں آپ کو ایک مثال دے کر سمجھاتا ہوں۔ چین سے پاکستان کے آجکل سب سے بہترین تعلقات ہیں۔ چین والے کمیونسٹ لوگ ہیں مگر آپ کبھی نہیں سنیں گے کہ چین نے پاکستان میں کوئی ایسی مہم چلائی ہو کہ پاکستان اپنی اسلامی شناخت ختم کرکے کمیونسٹ بن جائے۔ دوسری طرف ہندوستان جب ’’دوستی‘‘ کی بات کرتا ہے تو وہ ’’دوستی‘‘ نہیں ہوتی بلکہ دوستی کی آڑ میں نہ صرف دوقومی نظریے پر حملہ کیا جاتا ہے بلکہ پاکستان کی اسلامی اساس ختم کرکے سیکولر بنانے کی بھی بات کی جاتی ہے۔

فلم اور میڈیا جدید دور کے جنگی ہتھیار ہیں جن کے ذریعے قوموں کے ذہن بدلے جاتے ہیں آج کل کی جنگ کا اصول ہے کہ گولی چلانے والے کو قتل کرنے کے بجائے اس کا ذہن تبدیل کردو تو گولی چلانے والا اپنی بندوق کا رخ خودبخود تبدیل کرلے گا۔ لہذا جب ہماری اپنی فلم انڈسٹری زندگی کی طرف لوٹ رہی ہے تو ہمیں ہندوستان جیسے کینہ پرور دشمن کی فلمیں چلانے کی کیا ضرورت ہے؟ کیونکہ یاد رہے کہ یہ وہی ہندوستان ہے جہاں ہر سال کم ازکم دو ہیوی بجٹ فلمیں پاکستان کے خلاف ریلیز ہوتیں ہیں۔

حالیہ گرداسپور میں سکھوں پر حملے کے دو منٹ بعد ہی اسکا الزام پاکستان پر لگا کر پاکستان سے کرکٹ کھیلنے سے انکار کردیا جاتا ہے۔ کبھی بجرنگی بھائی جان جیسی فلموں میں بارڈر ختم کرکے ایک ہونے کا پیغام دیا جاتا ہے تو کبھی  فینٹم جیسی فلموں میں پاکستان کا بارڈر پامال کرکے پاکستان میں دہشتگردی کرنے والے کو ہیرو دکھایا جاتا ہے۔ جبکہ ہندوستان میں مسلمانوں کے اصل حالات یہ ہوں کہ سمجھوتہ ایکسپریس کے مجرموں کو بری کردیا جائے۔ گجرات قتل عام کا مجرم ہندوستان کا وزیراعظم بن جائے اور یعقوب میمن نامی ایک مسلمان کو صرف اِس لیے پھانسی دے دی جائے کہ اُس کے بھائی پر یہ مبینہ الزام ہے کہ 1993 میں ممبئی دھماکے میں وہ ملوث تھا۔ افضل گرو کو پھانسی کی سزا سنانے والے جج کے الفاظ تھے کہ جرم ثابت نہیں ہوا لیکن ہندوستانی عوام کے اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے پھانسی دینا ضروری ہے۔

میرا سوال ہے کہ ہندوستانی عوام کے اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے وہاں آج تک کتنے ہندووں کو پھانسی دی گئی؟ وہ ملک جو پاکستان میں سیلابی ریلے بھی چھوڑے اور پھر پاکستان میں دہشتگردی بھی کروائے اور اپنی فلموں کے ذریعے یہ پراپیگنڈا بھی کرے کہ ہندوستان سے جب انڈین جاسوس چوری چھپے پاکستان میں دہشتگردی کرنے آئے تو اسکا پھولوں سے استقبال بھی کیا جائے اور اسے بحفاظت بارڈر پار بھی کروایا جائے تو بھارتیوں سے یہی کہنا چاہوں گا ہم بیوقوف نہیں ہیں کہ تمھاری چالیں سمجھ نہ پائیں۔

اگر ہم طاقت کے میدان میں تم سے نہ دبے اور ہر سازش کا بہادری سے مقابلہ کررہے ہیں تو یاد رکھو کہ فلم اور میڈیا کے میدان میں بھی شکست سے دوچار نہیں ہوں گے اور اور ہاں فینٹم  فلم کے ٹریلر کے آخر میں انگریزی میں ایک لائن لکھی تھی کہ ’’ایک خواہش جو کاش سچ ہوتی‘‘ تو بھارتیوں ہم افسوس سے یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ تمھارا یہ ’’کاش‘‘ ہمیشہ ’’کاش‘‘ ہی رہے گا۔

کیا آپ بلاگر کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

عثمان فاروق

محمد عثمان فاروق

بلاگر قومی اور بین الااقوامی سیاسی اور دفاعی صورت حال پر خاصی گہری نظر رکھتے ہیں۔ سائنس فکشن انکا پسندیدہ موضوع ہے۔ آپ ان سے فیس بک پر usmanfarooq54 اور ٹوئیٹر پر @usmanfarooq54 پر رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔