امریکا اور خواب

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 1 اگست 2015

ہم سب کے تقریباً ایک ہی جیسے خواب ہیں کہ ہم اپنی صلاحیتوں کے مطابق روزگار پر لگے ہوئے ہوں، ہماری آمدنی اخراجات سے زیادہ ہو ۔کھانے پینے کی اشیاء ہماری دسترس میں ہوں ہمارے تمام کام بغیر سفارش اور رشوت کے میرٹ پر ہورہے ہوں ہمارا ملک لوڈ شیڈنگ سے پاک ہو۔

ہمیں پینے کے لیے صاف پانی میسر ہو ہمارے ملک میں ایسا صاف وشفاف سسٹم ہو جہاں سب کو یکساں حقوق حاصل ہوں جہاں سب کی عزت واحترام ہوجہاں ہر معاملے میں مکمل شفافیت اورمیرٹ ہو جہاں سب کو تعلیم اورصحت کی مفت سہولیات حاصل ہوں جہاں سٹرکیں،گلیاں اور محلے صفائی کا مثالی نمونہ پیش کررہی ہوں جہاں حکومت،حکومتی ادارے ، سیاستدان اورعوامی نمایندے آقا نہیں بلکہ خادم ہوں،ایسا ملک ہو جو تعصب، نفرت، عدم برداشت،جہالت عدم رواداری سے پاک ہو جہاں مکمل مساوات ہو جہاں سب کے سب زندگی سے اور زندگی کی تمام ضروریات سے لطف اندوز ہورہے ہوں ۔

ہم سب کے بس یہ ہی خواب ہیں لیکن کیا کریں ان ہی خوابوں نے ہمیں اندھا کر دیا ہے جو لوگ ہم پر مسلط رہے انھوں نے ہی ہماری آنکھوں سے ہمارے خواب نوچ کر ان میں تیزاب بھردیا ۔ اب ہم سب اندھے ہوچکے ہیں، ایسے اندھے جن کے خواب بھی اندھے ہو چکے ہیں اب ہم سب ایک دوسرے سے ٹکراتے پھرتے ہیں۔

ہماری زندگی ایسی ادھڑی کہ ایک جگہ سے اسے رفو کرتے ہیں تو دوسری جگہ سے ادھڑ جاتی ہے یہ ہی کرتے کرتے ہم سب کی زندگی تمام ہورہی ہے۔ یاد رہے برگ نے کہا تھا سب کچھ ایک خواب سے شروع ہوتا ہے جب کہ شیلے نے خواب دیکھا تھا ایک ایسے سماج کا جہاں ناانصافی نہ ہو استحصال نہ ہو جہاں مساوات آزادی ، رواداری ہو ایک ایسے معاشرے کاجہاں ڈر، خوف نہ ہو، آئیں ہم سب اندھے تھوڑی دیر کے لیے ایسی جگہ چلتے ہیں جہاں کے لوگوں کو ان کے خوابوں نے اندھا نہیں کیا بلکہ ان سب کے خواب سچے ہوگئے ہیں اور جو کوئی بھی وہاں جا کر بس جاتا ہے اس کے خواب بھی سچے ہوجاتے ہیں۔

اس لیے نہیں کہ وہ کوئی جادوئی سر زمین ہے اور نہ اس لیے کہ وہاں جادوگر بستے ہیں اور نہ ہی وہ ہمیشہ سے ایسی جگہ ہے ایک زمانے میں وہاں کے لوگ بھی بدترین حالات سے دو چار رہے ہیں پھر وہاں کے لوگوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے ملک کوایسا ملک بنا کر دم لیں گے جہاں ہمارے خواب سچے ہو جائیں اور انھوں نے ایسا کر دکھایا ۔ وہ جادوئی ملک امریکا ہے ایسا ملک جہاں ہر شخص خوش ہے وہاں کسی کو کل کی کوئی فکر نہیں ہوتی کیونکہ فکرکرنے کاکام حکومت کا ہے ۔

جہاں تمام افراد کو یکساں حقوق حاصل ہیں جہاں سب کی برابر کی عزت ہے جہاں ہر معاملے میں شفافیت اور میرٹ ہے جہاں حکومت ، حکومتی ادارے اور سیاستدان آقا نہیں بلکہ خادم ہیں جہاں ایک لمحے کو بجلی نہیں جاتی ۔ جہاں نہ پانی کی کبھی قلت ہوتی ہے اور نہ ہی گیس کی کبھی لوڈ شیڈنگ ۔ جہاں نہ رشتوں میں ملاوٹ ہے اور نہ کھانے پینے کی چیزوں میں جہاں ہر شخص سچ بولتا ہے اور سچ سننا چاہتا ہے جہاں جھوٹ سے سب نفرت کرتے ہیں جہاں ہر شخص دیانتداری اور ایمانداری سے اپنا کام کرتا ہے ۔

جہاں مکمل مساوات اورآزادی ہے جہاں کوئی کسی کو زبان ، رنگ ونسل اور مذہب کے نام پر قتل نہیں کرتا ہے جہاں کوئی کسی کے عقیدے پر اس سے نفرت یا تعصب نہیں کرتا ہے جہاں ہر شخص اپنے ایمان اورعقیدے کی بنیاد پر عبادت کرنے میں مکمل آزاد ہے ، جہاں اگر کوئی شخص اسپتال پہنچتاہے تو اس کا علا ج فوراً اور ہنگا می بنیاد پر کیا جاتاہے بغیرکچھ پوچھے بغیر پیسے رکھوائے، جہاں بچہ جب اسکول میں جاتا ہے تو فوراً اس کا داخلہ کر دیاجاتا ہے باقی سارے کام بعد میں ہوتے رہتے ہیں جہاں جگہ جگہ حکومت نے Open Hands ادارے بنا رکھے ہیں جہاں بغیر رنگ و نسل و مذہب مفت کھانا فراہم کیا جاتا ہے جہاں نوجوان لڑکیاں دیر گئے راتوں میں بلاخوف خطر پبلک ٹرانسپورٹ میں سفرکرتی ہیں اور بحفاظت اپنے اپنے گھروں میں پہنچتی ہیں۔

جہاں نہ کوئی جیب کترے سڑکوں پر گھو متے ہیں اور نہ کسی کے موبائل فون یا پرس چھین لیے جاتے ہیںجہاں 60 سال کی عمر کے بعد ہر شخص کو حکومت اتنی پینشن دیتی ہے کہ اس کی باقی زندگی بغیر کام کیے بغیرآرام سے گذرتی ہے جہاں سڑک پر چلنے کا پہلا حق پیدل چلنے والوں کا ہے نہ کہ گاڑیوں کا ۔ اگر کوئی سٹر ک کراس کررہاہو تو آنے جانیوالی تمام گاڑیاں اس وقت تک رکی رہیں گی جب تک کہ وہ سڑک کراس نہ کرلے جہاں سب خواتین کا احترام کرتے ہیں جہاں لوگوں کی اکثریت Pork کا گوشت نہیں کھاتے کیونکہ یہودیت اور عیسائیت میں Pork کھانا ممنوع ہے ۔

امریکیوں کی خوشحالی ترقی کے پیچھے صرف ایک ہی راز ہے کہ انھوں نے اپنے ملک میں صاف اور شفاف سسٹم بنا رکھاہے جہاں ہر شخص کو یکساں حقوق حاصل ہیں  اور وہ تمام فکروں سے بے نیاز اور بے فکر ہیں کیونکہ وہاں انسان کو دیوتا کا درجہ حاصل ہے اس لیے اس کا احترام کیاجاتا ہے اس سے محبت کی جاتی ہے اس کے بالکل برعکس ہمارے ملک میں انسان کو شیطان کا درجہ دیا جاتا ہے ان کو ذلیل وخوار کرنا فرض سمجھا جاتا ہے ان کو ہر طرح سے پریشان اور تنگ کر نا لازمی سمجھا جاتا ہے۔

یاد رہے امریکا شروع سے جنت نہیں تھابلکہ اس کے لوگوں نے اسے جنت بنا دیاہے اور جنت میں رہنے کے جو اصول ہیں اور جو سلیقے ہیں وہ سب کے سب اچھی طرح سے سیکھ چکے ہیں۔ میرے ہم وطنویاد رہے خواب خود بخود سچے نہیں ہوتے بلکہ سچے کیے جاتے ہیں جس طرح امریکیوں نے کیے ہیں ۔اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اپنے ملک کو جنت بنانا چاہتے ہیں یا اسی دوزخ میں بقیہ زندگی تمام کرنا چاہتے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔