غریب پرور شہر ، لوگوں کے امیرانہ ٹھاٹ

شاہد سردار  ہفتہ 1 اگست 2015

کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ ہمارا یہ ملک کیسا غریب ملک ہے جو ’’آئی ایم ایف‘‘ اور ہر ایک در پر ہاتھ پھیلاتے ہوئے کبھی نہیں شرماتا، جس کے مقتدر لوگ کھرب پتی ہیں اور اس کے حکمران، وزیر، سفیر ڈالرز اور پونڈ بیرون ملک بینکوں میں رکھتے ہیں، دنیا کے کئی ممالک میں ان کے کاروبار اور جائیدادیں ہیں مگر اپنے عوام کے لیے ہمدردی کے دو بول کے سوا کچھ نہیں رکھتے۔ تھرپارکر میں بچے بھوک سے مر رہے ہیں لیکن انھیں کوئی پرواہ، کوئی خیال نہیں۔

لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جو قومیں بے حس ہوجائیں، اخوت بھائی چارے اور یگانگت سے صرف نظر کرنے لگیں، قومی دنوں اور اپنے مذہبی تہواروں کو مذاق بنادیں وہ خود ایک مذاق بن جایا کرتی ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ہم وہ بدقسمت قوم ہیں۔ رمضان المبارک شروع ہوتے ہی گراں فروش اور ذخیرہ اندوز دونوں ہاتھوں سے اس قوم کو لوٹنا شروع کرتے ہیں اور جب رمضان ختم ہوتا ہے تو بچا کچھا مال یہ قوم خود ہی لٹانا شروع کردیتی ہے اورکئی دن تک لٹاتی رہتی ہے۔ عیدالفطر کے چار پانچ دنوں تک لوٹنے اور لٹانے کا سلسلہ بدستور جاری رہا۔

’’چیئرمین آل کراچی تاجر اتحاد‘‘ کے مطابق کراچی میں عید کی خریداری کا گزشتہ 10 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا، ’’عید سیزن سیل‘‘ کے لیے تاجروں نے تقریباً 90 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی جب کہ کراچی کے شہریوں نے 70 ارب روپے کی خریداری کی۔

بھلا بتائیں عید پر غریب پرور شہر کراچی کے لوگوں کے یہ امیرانہ ٹھاٹھ باٹ کی سن گن اگر آئی ایم ایف کو مل جائے تو وہ ہمارے وزیر اعظم اور وزیرخزانہ سے کہہ کر بلکہ دباؤ ڈلوا کر کون کون سے نت نئے ٹیکسز ہمارے عوام پر نہ لگوا دیں؟ امن و امان کی بہتر صورتحال کی وجہ سے عید کے حوالے سے تجارتی مراکز پر میلے کا سماں رہا اور یہ سب رینجرز اور دیگر حفاظتی اداروں کی وجہ سے ہوا، شہر کے 25 اقدامات پر 250 سے زائد بازار رمضان المبارک کے پہلے عشرے سے ہی کھلنا شروع ہوگئے تھے جس سے عید نائٹ شاپنگ کی رونقیں بحال ہوگئیں۔ کلفٹن، ڈیفنس، بہادر آباد، طارق روڈ، صدر، جامع کلاتھ، اللہ والا مارکیٹ، جوبلی کلاتھ مارکیٹ، موتن داس، گل پلازہ، حیدری مارکیٹ، لیاقت آباد، ناظم آباد اور دیگر علاقوں کی مارکیٹیں خریداروں کی توجہ کا مرکز رہیں۔

مقامی تجارت کے علاوہ عید اور عید کے فوری بعد شادیوں کے سیزن کے لیے 25 سے 30 ارب روپے کا مال ملک کے مختلف شہروں سے منگوایا جاتا ہے ۔

عید کی خوشیوں میں 80 فیصد عورتوں، نوجوانوں اور بچوں کا اہتمام ہوتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق کم تر وسائل اور متوسط طبقے کے افراد کم ازکم 500روپے سے 5000 روپے فی کس جب کہ پوش گھرانوں کے افراد اوسطاً 50 ہزار روپے سے ایک لاکھ روپے فی کس تک خرچ کرتے ہیں، جب کہ پسماندگی کا شکار 30 فیصد افراد عید پر نئے کپڑے سلوانے کی سکت نہیں رکھتے۔

ہمارے حکمرانوں کی اپنے ہی ملک  سے عدم دلچسپی کا سب سے بڑا ثبوت بھی اس عید الفطر پر سب کو دیکھنے کو ملا جب ہمارے حکمران عید پر اپنے وطن کو چھوڑ کر  ملک سے باہر چلے گئے۔ وزیر اعظم نے عید الفطر اپنی فیملی کے ہمراہ سعودی عرب میں منائی، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو نے دبئی میں عید منائی، سندھ کے وزیر اعلیٰ بھی سعودی عرب میں موجود تھے۔

ان کے برعکس پاکستان کی فوج کے سپریم کمانڈر جنرل راحیل شریف نے عید کا تہوار اور چاند رات مورچوں پر جوانوں کے ساتھ گزار کر قوم کا فخر ثابت ہونے کا عملی ثبوت فراہم کیا، حالانکہ ان کی والدہ کی وفات کے بعد یہ پہلی عید تھی اور کوئی ہوتا تو وہ گھر پر رہتا، لوگ تعزیت اور فاتحہ خوانی کے لیے آتے ہیں، پاس پڑوس کے لوگ افسوس کرتے ہیں پہلی عید پر، لیکن جنرل راحیل شریف نے اپنی ذات پر وطن کو فوقیت دی، یہی نہیں بلکہ جنرل صاحب کے ساتھی بھی فرض شناس اور حب الوطنی کے حوالے سے اپنے ’’باس‘‘ کا ساتھ نبھاتے رہے۔ جنرل ناصر جنجوعہ کوئٹہ میں شہدا کے خاندانوں کے پاس رہے، کورکمانڈر لاہور جنرل نوید زمان قصور میں اگلے مورچوں پر تھے جب کہ جنرل نوید مختار کراچی میں سانحہ صفورا کے شہدا کا غم بانٹ رہے تھے، اسی طرح ملتان میں جنرل اشفاق ندیم شہدا کے خاندانوں کے ساتھ رہے۔

عالمی منظر نامے پر نظریں جمائے بیٹھے لوگ بخوبی اس بات سے واقف ہیں کہ پاکستان دنیا کے ان چند بدنصیب ملکوں میں سے ایک ہے جس کے خوشحال طبقے کسی اقتصادی عمل یا جائز ذرایع سے وجود میں نہیں آئے، ان میں سے 90 فیصد سے زیادہ وہ لوگ ہیں جو کرپشن، لوٹ مار اور سیاسی نوازشات سے ’’کچھ‘‘ بنے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد سے لوٹ مار کا جو سلسلہ چلا وہ نہ صرف آج تک جاری و ساری ہے بلکہ اس کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ان خوشحال لوگوں میں جاگیردار، وڈیرے، خان، ملک، چوہدری، ملا، پیر، سول اور ملٹری بیوروکریٹس، نام نہاد صنعت کار اور تاجر مافیا کے ارکان اور انتہا پسندی کی سیاست کرنے والے لوگ شامل ہیں۔

پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں جو امیر ترین رہائشی علاقے ہیں جنھیں ’’پوش ایریاز‘‘ کا نام دیا جاتا ہے ان میں زیادہ تر مذکورہ بالا طبقوں کے افراد ہی رہتے ہیں۔ یہ لوگ جو کچھ بھی بنے ہیں شارٹ کٹ سے بنے ہیں، کرپشن سے بنے ہیں بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ خوشحالی پوش ایریاز اور کنٹونمنٹ ایریاز سے آج تک باہر نہیں نکل سکی ہے۔ چہرے بدل بدل کر وہی مخصوص لوگ ہر حکومت میں شامل ہوتے رہے ہیں وگرنہ ’’باری‘‘ لگنے کی روایت تو اب پاکستان میں جڑ پکڑ ہی چکی ہے، یوں بھی کہہ لیں یا سمجھ لیں کہ مخصوص مٹھی بھر لوگوں کا پاکستان کے تمام وسائل پر قبضہ ہے۔

اس سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان کا خوشحال طبقہ جو کچھ ہے وہ پاکستان کی وجہ سے ہے لیکن پاکستان صرف کرپشن اور لوٹ مار کے لیے تو نہیں بنا تھا، یہ لاکھوں لوگوں کی قربانی کا نتیجہ ہے، ہمارے اشرافیہ کے پاس جو دولت ہے وہ کروڑوں محب وطن انسانوں کے خون پسینے کی کمائی ہے، اگر کسی کو پاکستان سے واقعی محبت ہے اور اس کی سلامتی اور یکجہتی کی فکر لاحق ہے تو اسے کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف جہاد کرنا ہوگا، اس ایلیٹ کلاس کی موقع پرستی، بے اصولی کی سیاست، ضمیر فروشی اور وطن دشمن سرگرمیوں سے نفرت کرنی ہوگی۔

لیکن عملی طور پر ہمیں ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آرہا اس لیے کہ ہمارے حکمرانوں کی طرح ہمارے عوام کی غالب اکثریت بھی انھیں کی طرح بے حس اور بے غم ہوچکی ہے۔ بڑے سے بڑے حادثے کے گزرنے کے اگلے ہی دن ہم سب اپنی اپنی مستیوں میں مست ہوجاتے ہیں۔ سانحہ عباس ٹاؤن ہو، پشاور میں بچوں کے اسکولوں میں ان کی شہادت کا نوحہ ہو، سانحہ صفورا کا المیہ ہو یا پھر کراچی میں ہیٹ اسٹروک سے جاں بحق ہوجانے والے 1600 سے زائد لوگوں کی المناک موت کا صدمہ ہو، کوئی بھی المیہ، کوئی بھی دلخراش سانحہ، اس قوم کو زیادہ دیر تک مغموم نہیں رکھ پاتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔