خدارا، آسانیاں پیدا کریں !!

شیریں حیدر  ہفتہ 1 اگست 2015
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’ آپ ایسا کریں کہ کل آ جائیں، اس وقت کافی رش ہے!! ‘‘ انھوں نے مجھے یہ فقرہ کہا تو میرے اندر سے غصے کا طوفان اٹھا۔

’’ کیا نام ہے آپ کا بیٹا؟ ‘‘ میں نے اس کی سفید خشخشی داڑھی کو نظر انداز کر کے پوچھا۔

’’ جی ! خالد!! ‘‘ اس نے انتہائی تمیز سے جواب دیا، ظاہر ہے کہ میں نے اسے بیٹا کہہ کر مخاطب کیا تھا، ’’ کہیں کیا مسئلہ ہے آپ کا؟ ‘‘

’’ آج مسلسل تیسرا دن ہے مجھے یہاں آتے ہوئے اور آج آپ تیسری دفعہ مجھے واپس جانے کا کہہ رہے ہیں، کل گاڑیوں کے ٹوکن جمع کروانے کی آخری تاریخ ہے، خواتین کے لیے ہر روز گھر کے کام کار سے وقت نکال کر آنا ممکن نہیں ہوتا، یہاں تو خواتین کے لیے علیحدہ کاؤنٹر ہونا چاہیے ‘‘ لگ بھگ بارہ فٹ بائی سولہ فٹ کا کمرہ، جو کہ اس پوسٹ آفس کی مکمل عمارت تھی۔

داخلی دروازے سے لے کر کمرے کے وسط میں رکھی طویل میز تک مرد حضرات ٹھونسے ہوئے تھے، وسطی میز کے پار تین لوگوں کا عملہ مسلسل مصروف تھا ’’ پرسوں تو رش دیکھ کر میں باہر سے ہی لوٹ گئی کہ تل دھرنے کو جگہ نہ تھی، کل میں نے تیس منٹ انتظار کیا باہر کھڑے ہو کر اور اندر داخل ہونے کو چند انچ کی جگہ ملی تو آپ نے اعلان کر دیا کہ آپ کی لنچ بریک ہے اور اب جو لوگ پہلے سے اندر کھڑے ہیں، صرف ان کی گاڑیوں کے ٹوکن کا کام ہو گا، سو میں چلی گئی‘‘

’’ معذرت چاہتا ہوں مگر کیا کریں، صبح سے بغیر سانس لیے یہی کام کیے جا رہے ہیں، کمرے میں نہ اے سی ہے نہ پنکھا کچھ کر سکتا ہے کہ اتنے نفوس اندر گھسے ہوئے ہیں ‘‘

’’ آپ لوگ کوئی ٹوکن نمبر کیوں نہیں جاری کرتے ، لوگ اپنے نمبر کی ترتیب کے مطابق آئیں، کمرہ اس قدر چھوٹا ہے اور ہر کوئی یوں چیخ و پکار مچا رہا ہے جیسے سبزی منڈی میں ہو ‘‘

’’ آپ چیک کریں، ان سب لوگوں کے ہاتھوں میں ٹوکن نمبر ہیں مگر کوئی ان کی ترتیب کے مطابق نہیں آ رہا، کوئی اپنے عہدے کا رعب جماتا ہے تو کوئی عمر اور مرتبے کا، اب آپ ہی دیکھ لیں کہ آپ نے اپنے خاتون ہونے کا کہا ہے تو مجھے آپ کی طرف متوجہ ہونا پڑا ہے، بلکہ آپ کا کام پہلے کر رہا ہوں  ‘‘ انھوں نے مجھے جتلا دیا۔

’’ آپ کیوں آئی ہیں بی بی، کسی مرد کو بھجوا دیا ہوتا‘‘  ایک صاحب سے رہا نہ گیا۔

’’ اگر کسی گھر میں مرد نہ ہو تو ‘‘ میں نے ان سے سوال کیا۔

’’ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ ‘‘ ان کے انداز اور سوال پر مجھے ہنسی آ گئی، مگر میں نے اسے دبا لیا۔

’’ آپ کسی ملازم وغیرہ کو بھجوا دیتیں ‘‘ خالد صاحب کو بھی موقع مل گیا۔

’’ گاڑی میری ہے خالد صاحب اور اسے چلاتی بھی میں ہی ہوں ، ملازم نہیں ہے میرے پاس کوئی ایسا جو کہ ٹوکن جمع کروانے آ سکے، پھر کوئی نہ کوئی اعتراض بھی نکل آتا ہے تو وہ کیا جانے ‘‘ میں نے گاڑی کی کتاب ان کے سامنے رکھی۔

’’ آپ نے پچھلے سال کا ٹیکس جمع نہیں کروایا تھا؟ ‘‘ انھوں نے سوال کیا۔

’’ معلوم نہیں ، میرا مطلب ہے کہ مجھے یاد نہیں!!‘‘ میں شرمندہ سی ہوئی۔

’’ فائلر ہیں کہ نہیں ؟ ‘‘ انھوں نے سوال کیا، میں نے سوالیہ انداز سے انھیں دیکھا، ’’ میرا مطلب ہے کہ انکم ٹیکس دیتی ہیں آپ، ٹیکس کی ادائیگی کا کوئی ثبوت آپ کے پاس؟ ‘‘ میں نے حیرت سے انھیں دیکھا، جس ملک میں سانس لینے پر بھی ہم ٹیکس دیتے ہیں اور پھر وہ ٹیکس جاتا کہاں ہے ، اس کا بھی ہمیں علم نہیں ہوتا، نفی میں سر ہلایا، کیونکہ ٹیکس وہ دیتے ہیں جن کی اتنی آمدنی ہو کہ اس پر ٹیکس ادا کریں۔ انھوں نے دو سال کے ٹیکس کی بھاری رقم بتائی، میں نے گن کر انھیں رقم ادا کی، یہ رقم پہلے ادا کیے گئے ٹیکس سے تین گنا زائد تھی۔

’ کیا ہی اچھا ہوتا کہ میں اس سال بھی گاڑی کا ٹیکس ادا نہ کرتی، اگر ایک پورا سال میری گاڑی کہیں چیک نہیں ہوئی تو شاید آیندہ بھی کبھی نہ ہوتی، دل میں ایک کمینی سی سوچ آئی۔

’’ گاڑیوں کا ٹیکس ادا کرنے کی حتمی تاریخ اکتیس جولائی ہے… کوئی نہ کوئی تاریخ آغاز بھی تو ہوتی ہو گی؟ ‘‘ میں نے سوال کیا۔

’’ یکم جولائی کے بعد کبھی بھی ٹیکس جمع کروایا جا سکتا ہے ‘‘ جواب ملا۔

’’ تو پھر یہ سب لوگ آخری تاریخوں میں ہی کیوں رش کیے ہوئے ہیں؟ ‘‘ ظاہر ہے کہ میں بھی ان ھی  میں سے ایک تھی، میرے پاس اس کی کوئی وجوہات تھیں، یقینا اور لوگوں کے پاس بھی ہوں گی۔

’’ بس سب لوگ رمضان اور عید میں مصروف رہے اور عید کی چھٹیاں ختم ہوئیں تو ٹیکس ادائیگی والوں کا رش شروع ہو گیا، دوسرے کچھ ایسا ہوا کہ گزشتہ برس جن لوگوں نے اپنی گاڑیوں کے ٹوکن جولائی کے پہلے یا دوسرے ہفتے میں جمع کروا دیے تھے، ان سے ہم گزشتہ برس کے بقایا جات بھی وصول کر رہے ہیں کیونکہ پچھلے سال جولائی کے وسط میں ٹیکس کے نرخ بڑھا دیے گئے تھے اورجو لوگ ٹیکس اد ا کر چکے تھے ان سے اب وصولی کی جا رہی ہے ‘‘

اپنی گاڑی کا ٹیکس ادا کر کے بیٹے کی گاڑی کے کاغذات انھیں دیے تو انھوں نے وصولی سے انکار کر دیا کہ اس کا ٹیکس وہیں پر ادا کیا جائے گا جہاں اس سے پہلے ادا کیا گیا تھا۔ ’’ مگر میرے لیے تو اتنی دور جانا آسان نہیں ہے ‘‘ میں نے التماس کی۔

’’ پھر آپ مین ڈاک خانے سے ایک سر ٹیفکیٹ لے آئیں کہ آپ اس کے بعد اس کار کے ٹیکس کی ادائیگی اس ڈاکخانے میں کرنا چاہتی ہیں‘‘

’’ کون سا مین ڈاک خانہ؟ ‘‘ میں نے سوال کیا، انھوں نے مجھے اس کا ایڈریس سمجھایا تو میں تقریباً چیخ اٹھی، ’’ یعنی یہاں سے تیس پنتیس کلومیٹر؟ ‘‘

’’ کیا کریں جی، ہم اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتے ‘‘ انھوں نے اپنی بے بسی کو ظاہر کر دیا ۔

’’ ہم سارے ہی ایسے ہیں، دوسروں کے لیے مشکلات کھڑی کر کے خوش ہو جانے والے لوگ‘‘ بڑبڑا کر، کاغذات سمیٹ کر، مردوں کے اس سمندر میں سے میں اپنی کشتی نکال کر ایک نئے مشن پر روانگی کے لیے باہر نکلی۔

’’ بڑی پیاری بات کی ہے آپ نے بہن جی ‘‘ عقب سے وہ بلند آواز میں نے سنی۔

’’ کیوں ہیں ہم ایسے؟ ‘‘ گاڑی چلاتے ہوئے میں سوچ رہی تھی، جہاں گھروں کے یوٹیلٹی بل جمع کروانے کے لیے اب تمام بینکوں میں سہولت فراہم کر دی گئی ہے کہ جہاں چاہے بل جمع کروائیں اسی طرح گاڑیوں کے ٹوکن کے لیے کیوں نہیںکیا جا سکتا؟ چھوٹے چھوٹے ڈاک خانوں میں جہاں جگہ کی تنگی اور عملے کی کمی ہے وہاں پر ان دنوں میں اضافی کاؤنٹر یا شامیانہ وغیرہ لگا کر بھی ٹیکس جمع کرنے کے لیے اضافی عملہ فراہم کیا جا سکتا ہے۔ اول تو یہ سہولت ڈاکخانوں کی بجائے بنکوں میں فراہم کی جائے جہاں کم از کم سارا نظام تو کمپیوٹر سے منسلک ہے اور یقینا اس سے ہم کسی بھی بینک میںکسی بھی گاڑی کا ٹیکس جمع کروا سکتے ہیں ۔

پاکستان پوسٹ ملک کے ان چند اداروں میں شامل ہے جو کہ اپنی بقا کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور روز بروز بڑھتی ہوئی ترقی نے اس محکمے کی ضرورت اور افادیت کو کم کر دیا ہے، اب ڈاک خانوں میں زیادہ تر وہ لوگ نظر آتے ہیں جنھیں بے نظیر انکم سپورٹ سے دو تین ماہ کے بعد دو ہزار روپے ملتے ہیں ، اس کے لیے بھی لوگوں کو کارڈ دے کر ان کی امدادی رقم تو مختص کر دی جاتی ہے جسے وہ مستحقین وصول کرنے پہنچ جاتے ہیں مگر وہ رقم ڈاک خانوںمیں نہیں بھیجی جاتی۔ میں نے خود عورتوں کو ڈاک خانوں کے چکر لگاتے اور صبح سے شام تک رقم کے انتظار میں بیٹھے ہوئے دیکھا ہے۔ جس ادارے کے پاس عملے اور فنڈز کی کمی ہے، ایسے میں اس پر ٹیکس جمع کرنے کی بھاری ذمے داری ڈال دینا مناسب نہیں ۔

حکومت نے جو سکھ کا سانس ہمیں پٹرول کی قیمتیں کم کر کے لینے کا موقع دیا تھا، اب گاڑیوں کے ٹیکس کی رقم تین گنا بڑھا کر ہم سے سال بھر کے پٹرول کی اضافی قیمت وصول کر لی ہے!!! ’’لگے رہو بھائی  ‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔