محبت کی باتیں

عمر قاضی  پير 3 اگست 2015
umerkazi555@yahoo.com

[email protected]

ادب کا تذکرہ دراصل محبت کا تذکرہ ہے اور محبت سرحدوں میں نہیں سما سکتی۔ صرف ان دو باتوں کو بیان کرتا رہا میں لاہور کی اس کانفرنس میں، جس میں چینی اور پاکستانی ادیب ایک چھت تلے جمع ہوئے تھے۔ ہم چینی چاہت اور پاکستانی پیار کا ادبی جائزہ لینے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔ حالانکہ محبت کوئی ایسا آئٹم نہیں کہ جس پر ’’Made in China‘‘ یا ’’Made in Pakistan‘‘ لکھا جائے۔

اس لیے اس کانفرنس میں جب مجھے بولنے کے لیے بلایا گیا تو میں نے اپنی بات چین کے مشہور شاعر لی بائی کے ان الفاظ سے شروع کی تھی کہ:

’’سارے پرندے نہ معلوم کس سمت اڑ گئے
آسمان میں صرف ایک تنہا بادل ڈول رہا ہے
ہم دونوں ایک دوسرے کو تکتے ہوئے نہیں تھکتے
ایک پہاڑ اور ایک میں!!‘‘

لی بائی کا یہ خیال مجھے اپنی دھرتی کے عظیم ترین شاعر شاہ لطیف کے ان اشعار کی یاد دلا رہا ہے جو انھوں نے اپنے محبوب کردار سسی کے حوالے سے لکھے ہیں۔

سسی کون تھی؟ اہل پنجاب کے لیے تو یہ کردار بہت جانا پہچانا ہے۔ یہ سسی وہی تھی جس کے لیے پانچ دریاؤں والی دھرتی کے صوفی شاعر نے فرمایا تھا کہ:

’’نی سسی بے خبری تیرا لٹیا شہر بھمبھور‘‘

مگر اس کانفرنس میں موجود وہ دوست جن کے لیے سسی ایک اجنبی کردار ہے۔ انھیں صرف میں اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ وہ دریائے سندھ کے کنارے ایک برہمن لڑکی تھی۔ جس نے بلند پہاڑوں سے آنے والے بلوچ پنہوں سے پیار کیا اور جب پنہوں کو اس کے بھائی دھوکے سے لے گئے تب وہ اس جدائی کو تقدیر کی تحریر سمجھ کر قبول کرنے کے بجائے اپنے محبوب کی تلاش میں اپنے گھر سے نکلی اور پھر پہاڑوں کے راستے سسی کا سفر شروع ہوا۔ شاہ لطیف نے اپنے کلام کے پانچ سر سسی کے حوالے سے لکھے اور ان اشعار میں بہت سے اشعار ایسے ہیں جن میں وہ دونوں تنہا ہیں۔

پہاڑ اور سسی!!وہ پہاڑوں سے باتیں کرتی ہے۔ وہ پہاڑوں سے کہتی ہے کہ ’’اے سنگدل پہاڑ! جب میں اپنے محبوب سے ملوں گی،تب اسے کہوں گی کہ میرے پیروں کو تم نے کس قدر زخمی کیا،میں سب کو بتاؤں گی کہ مجھ پر پہاڑ نے ظلم کے پہاڑ ڈھائے ہیں‘‘

پہاڑوں کو شاہ لطیف نے دھرتی کی کیلیں بھی قرار دیا ہے۔ مگر پہاڑ علامت ہوا کرتے ہیں ایک چیلنج کی! ہر پہاڑ انسان کی راہ میں اس لیے کھڑا ہوتا ہے کہ اس کو عبور کیا جائے!

کیا اس سے بڑی اور کوئی موضوعی مطابقت ہوسکتی ہے چین اور ہمارے ادب میں؟

لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ اہل چین نے مشکل پہاڑوں کو اپنے پیروں تلے روندا ہے اور ہم ان پہاڑوں کے تلے دبے ہوئے ہیں۔ اس کا سبب اس کے علاوہ اور کوئی نہیں کہ چین نے اپنی قومی جدوجہد کی قوت صرف ماؤزے تنگ کی سرخ کتاب سے ہی نہیں بلکہ کنفیوشس اور لوہسون سے بھی لی ہے۔ ہمارے چینی بھائیوں نے اپنی جدوجہد میں صرف ماڈرن سائنس کے اسباق نہیں پڑھے بلکہ انھوں نے اپنے لوک ادب اور تاریخ سے بھی بہت بڑی قوت حاصل کی ہے۔ اس لیے اس بات کو سمجھنا بے حد ضروری ہے کہ جن قوموں کی پشت پر تاریخ ہوا کرتی ہے، مستقبل ان قوموں کی آغوش میں ہوا کرتا ہے! چین نے اس حقیقت کو اپنی عملی زندگی میں اپنایا ہے۔ اس لیے چین آج سربلندی اور وقار کی علامت بنا ہوا ہے۔کاش! ہم بھی اپنے ادب اور اپنی ثقافت سے جڑے رہتے۔کاش! ہم بھی اپنی تاریخ سے اس طرح قوت حاصل کرتے جس طرح چین نے حاصل کی!

وہ خودداری اور وہ خودانحصاری جس کے باعث چین آج ایک عالمی قوت بن گیا ہے۔ اس نے یہ قوت اپنے اس ادب سے حاصل کی جس میں صرف ’’فن جنگ‘‘ کے مصنف سن زو کے اقوال ہی نہیں بلکہ وہ لوک گیت بھی ہیں جنھیں سن کر انسان اس شہری زندگی سے بہت دور چلا جاتا ہے۔

چین کی عظیم کامیابی کا راز اس بات میں پنہاں ہے کہ چین مغرب کی دھونس میں نہیں آیا۔ اس نے مغرب سے سائنس لی مگر اپنے آرٹ کو اس نے نہیں چھوڑا مگر ہم سے یہ بھول ہوگئی کہ ہم نے نہ مغرب سے سائنس لی اور نہ اپنے آرٹ کا تحفظ کیا۔یہ اعتراف ہم اس لیے کر رہے ہیں کہ یہ سیاستدانوں کی کانفرنس نہیں۔ یہ ادیبوں اور شاعروں کی محفل ہے۔ اگر ہم اس میں بھی سچ نہ بولیں گے تو پھر اس کانفرنس کا مقصد محض میڈیا کوریج تک محدود رہ جائے گااس لیے آئیں اور چند لمحوں کے لیے سیاست کو بھول جائیں۔ آئیں بادلوں کی باتیں کریں۔ چاند کے گیت گائیں۔ آبشاروں کے حسن پر وارے جائیں۔ کیونکہ فطرت کا یہ حسن جیسا چین میں ویسا پاکستان میں بھی ہے۔ یہ دھرتی بہت خوبصورت ہے اس دھرتی پر بسنے والے لوگوں کو پیار کا پیغام دیں۔ آئیں! ایک دوسرے کے ساتھ محبت کی باتیں شیئر کریں۔ ادب اور کچھ نہیں صرف محبت کی بات ہے، وہ محبت جو ایک چینی مرد بھی کرتا ہے اور ایک پاکستانی عورت بھی کرتی ہے۔آئیں ذرا سے رومانوی بن جائیں۔ ہم آپ کو اپنے دیس میں محبت کا انداز بتائیں اور آپ ہمیں بتائیں کہ جب دو جسم ایک روح بن جاتے ہیں تب کیسا محسوس ہوتا ہے؟

میں اپنے چینی دوستوں سے صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ محبت کی وہ باتیں جو آپ کے ادب کی زینت ہیں، وہی باتیں ہمارے ادب کا زیور ہیں اور شاہ لطیف کے بعد اس کی دھرتی پر جس شاعر نے محبت کے گلاب کھلائے وہ شاعر شیخ ایاز تھا۔ وہ شاعر جس نے لکھا تھا کہ: ’’بانہہ ٹہنی سی تھی… ہاتھ تھا پھول سا… میرے محبوب کا… چاندنی جم گئی… رات پالا پڑا… پھر بھی نکھرا رہا … اس کا رنگ حنا… میرے گھوڑے کے باگوں پر آکر رکا… ہاتھ وہ پھول سا… کوئی کہنے لگا… تم کہاں جا رہے ہو سلونے پیا؟… میں تو سننے لگا تھا سموں کی صدا… لو لگتی رہی … میں چلا ہی گیا… اب تو لڑتے ہوئے … شام ہونے لگی… اور لہو کی مہک… رنگ کھونے لگی… لاشے بکھرے پڑے ہیں… کئی ریت پر… ایک سوکھے ہوئے کھیت پر… اب کھڑا سوچتا ہوں کہ… کیوں جھڑ گیا؟… ہاتھ وہ پھول سا… میرے محبوب کا‘‘اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی ادب کو بہت سے شاعروں نے سنوارا اور سجایا ہے۔

علامہ اقبال تو ہمارے لیے ایک رہنمائی کی عظیم علامت ہیں۔ مگر اقبال کے بعد ہمیں فیض ملا۔ وہ فیض جنھوں نے عشق اور انقلاب کو اس طرح آپس میں ملایا کہ وہ ایک ہوگئے۔ وہ فیض تھے جنھوں نے ’’سنکیانگ‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا کہ ’’چین کا ہر فرد میرا بازو ہے‘‘۔وہ فیض جس نے یہ بھی لکھا تھا کہ’’اور کچھ دیر بعد… جب میرے تنہا دل کو… فکر آ لے گی… کہ تنہائی کا کیا چارہ کریں… درد آئے گا دبے پاؤں… لیے سرخ چراغ!!‘‘ہم نے چینی ادب کا شاہکار ناول ’’سرخ لالٹین‘‘ پڑھا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ درد کیا ہے اور درد کو طاقت میں کس طرح تبدیل کیا جاتا ہے۔ ہمارے پاس وہ ابن انشا بھی ہے جنھوں نے چین کے سفرنامے کا عنوان لکھا تھا کہ ’’چلتے ہو تو چین کو چلیے‘‘۔ ہمارے ادب میں وہ پروین شاکر بھی ہیں جو صرف محبت کی باتیں کیا کرتی تھی۔ جو کہتی تھی کہ:

کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی

مگر میں وادی سندھ سے آیا ہوں اور آپ کے پاس شیخ ایاز کا وہ پیغام لایا ہوں جس میں انھوں نے ایشیا کو برصغیر کے روپ میں پیش کرتے ہوئے لکھا تھا کہ:

’’بادلوں کی طرح… طوفاں کے زد میں ہے ابھی… ردو کد میں ہے ابھی… خطہ برصغیر… اور میری شاعری… دہن عیسی پہ ہو جیسے… شیر مریم کی لکیر… ہاں یقیناً… ایسا دن بھی آئے گا… جب جاگ اٹھے گا … نسل نو کا ضمیر… اور میں ہوں گا… شاعر اول اس کے حسن کا‘‘یہ کانفرنس ایک محفل ہے۔ اس میں قوموں کا ضمیر بول رہا ہے۔ اور اس کو یقین ہے کہ جو خواب ہمارے شاعروں اور ادیبوں نے دیکھے ہیں وہ سچ ہوں گے۔ اس لیے تو اپنے اہل قلم قافلے کی ہمت بڑھاتے ہوئے شیخ ایاز نے لکھا تھا کہ:’’میرے دیدہ ورو… میرے دانش ورو… پاؤں زخمی سہی… ڈگمگاتے چلو… راہ میں سنگ و آہن کے ٹکراؤ سے… اپنے زنجیر کو جگمگاتے چلو!… میرے دیدہ ورو اپنی تحریر سے… اپنی تقدیر کو نقش کرتے چلو… تھام لو ایک دم… یہ عصائے قلم… ایک فرعون کیا… لاکھ فرعون ہوں… ڈوب ہی جائیں گے… ڈوب ہی جائیںگے‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔