قومی اتفاق رائے

نصرت جاوید  جمعرات 18 اکتوبر 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

یقینا مجھے ہی میں کوئی خامی رہ گئی ہو گی جسے میں ابھی تک دریافت نہیں کر سکا۔

حقیقت مگر یہی ہے کہ پاکستان کے اعلیٰ سیاسی، سفارتی اور عسکری حکام جب کبھی ملک بھر سے سینئر صحافیوں کو اسلام آباد بلا کر حساس قومی امور پر بریفنگ دیا کرتے ہیں تو مجھے مدعو نہیں کیا جاتا۔ خود کو دعوت نہ ملنے پر حیرت اس لیے بھی ہوتی ہے کہ گزشتہ 20 برسوں میں جتنے بھی وزیر اعظم آئے ان سے میری بے تکلفانہ نوعیت کی شناسائی رہی۔ بہت سارے عسکری اور سفارتی حکام کے ساتھ بھی تعلقات کچھ اسی نوعیت کے رہے ہیں۔ جنرل مشرف واحد صدر تھے جو نہ جانے کیوں 2001ء کے بعد مجھ سے بتدریج شدید نفرت کرنا شروع ہو گئے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی ناراضگی مجھے ناخوش کرنے کے بجائے خود کو اپنے تئیں بڑا پھنے خان صحافی سمجھنے کا سبب فراہم کرتی رہی۔

تمہید کے باب کو یہیں بند کرنے کے بعد عرض صرف اتنا کرنا مقصود ہے کہ میرے وہ خوش نصیب ساتھی جنھیں حساس قومی امور پر باقاعدگی کے ساتھ بریفنگ ملا کرتی ہے ملالہ پر دل ہلا دینے والے حملے کے دوسرے دن سے مجھے شمالی وزیرستان پر مارو یا مر جائو نوعیت کا آپریشن ہونے کے امکانات بتانا شروع ہو گئے تھے۔ میں شاید اپنے قنوطیت سے بھرے دماغ کے سبب ان کی بات کو زیادہ سنجیدگی سے نہ لیتا۔ مگر گزشتہ جمعے کی شام اسپین کے قومی دن کی تقریب میں جانے کا موقع ملا۔ وہاں بہت سارے ریٹائرڈ جرنیلوں اور سفارتکاروں سے کہیں بڑھ کر ان کی بیگمات ملالہ یوسف زئی پر ہونے والے حملے پر بہت ناراض اور اداس نظر آئیں۔ پھر چند حاضر سروس لوگوں سے بھی ملاقات ہو گئی۔ ان کی اکثریت اس بات کا بڑی شدت سے اظہار کرتی رہی کہ ہمارے بے باک میڈیا کو ذرا ذمے دار ہو کر شمالی وزیرستان کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لیے ’’قومی اتفاق رائے‘‘ پیدا کرنا چاہیے۔

قومی اتفاق رائے کے لیے ان سب لوگوں نے Consensus کا لفظ استعمال کیا تھا۔ اس لفظ کی تکرار سے بالآخر میں نے چڑ کر اپنے ایک نسبتاً بے تکلف مہربان کو وہ لطیفہ سنا ہی دیا جس نے ایک میراثی کو انگریزوں کے لیے خیر کی دُعائیں مانگنے پر مجبور کر دیا تھا۔ ہوا یہ تھا کہ دوسری جنگ عظیم کی حدت کے دوران اس کے گائوں میں فوجی بھرتی کرنے والوں کی ایک ٹیم آئی اور اس میراثی سے ’’ہٹلر سے لڑنے کے لیے‘‘ اس کا بیٹا بھی مانگ لیا۔ میری دانست میں سات بجے سے رات بارہ بجے تک سرخی پائوڈر لگا کر راجستھان کی پیشہ ور سیاپا کرنے والی عورتوں کے انداز اپنانے والے میرے جیسے اینکر حضرات کی ضرورت اگر کسی سنجیدہ آپریشن کے لیے Consensus پیدا کرنے کے ضمن میں پیدا ہو جائے تو پھر ہمیں اپنی ریاست اور اس کے دوامی مالکوں کے لیے دعائے خیر مانگنے کو ہاتھ اُٹھا لینا چاہئیں۔

معاملے کو ذرا سنجیدگی سے زیر بحث لانا چاہتے ہیں تو اپنی حالیہ تاریخ کا صرف ایک واقعہ آپ کو یاد دلانا چاہوں گا۔ ریمنڈ ڈیوس نام کا ایک امریکی لاہور کے ایک مصروف ترین چوک میں دو پاکستانیوں کو بھری دوپہر کی روشنی میں قتل کرنے کے بعد پکڑا گیا۔ وہ تھانے پہنچا تو دوران تفتیش پانی کی فریادیں کرتا کیمرے کی آنکھ سے ریکارڈ ہوا۔ پتہ نہیں کس فیاض دل نے اس کی بے بسی کی یہ ریکارڈنگ ہمارے چند بڑی ریٹنگ لینے والے اینکروں تک پہنچا دی۔ انھوں نے وہ ریکارڈنگ دکھا دکھا کر قوم کو اس بات کے لیے تیار کرنا شروع کر دیا کہ امریکی چاہے جو بھی کہتے رہیں ریمنڈ ڈیوس پر قتل کا مقدمہ چلا کر اسے کیفرکردار تک پہنچانا چاہیے۔

ریمنڈ ڈیوس کے بارے میں جان کے بدلے جان والی دُہائیوں نے سب سے پہلے اس وقت کے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کو اپنا حمایتی بنایا۔ امریکا کے ایک بہت تگڑے سمجھے جانے والے سینیٹر جو اوبامہ کے دوبارہ انتخاب کے بعد اس ملک کے وزیر خارجہ بھی ہو سکتے ہیں، شاہ محمود قریشی کے ذاتی یار سمجھے جاتے تھے۔ مخدوم صاحب کے ہونہار بروا جناب زین قریشی نے تو ان کے دفتر میں رضاکارانہ کام کرتے ہوئے حکمرانی اور سفارتی امور کے رموز سیکھنے کی کوشش کی تھی۔ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کی درخواست لے کر جب یہی جان کیری پاکستان آئے تو انھوں نے مخدوم صاحب سے اکیلے میں ایک طویل ملاقات بھی کی۔ شاہ محمود قریشی مگر ڈٹ گئے۔ صاف کہہ دیا کہ ریمنڈ ڈیوس کے ساتھ انصاف ہو کر رہے گا۔ بالآخر کابینہ سے استعفیٰ دے کر پاکستان میں حقیقی انقلاب لانے کے لیے تحریک انصاف میں شامل ہو گئے۔

جب شاہ محمود قریشی کے حکومت میں رہ جانے والے ساتھی بھی ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے ضمن میں کوئی مدد نہ کر پائے تو ہمارے ’’دوامی مالکوں‘‘ سے رجوع کیا گیا۔ انھوں نے ایک ہفتے سے بھی کم دنوں میں ریمنڈ ڈیوس کو قصاص اور دیت کے اصولوں کے عین مطابق رہائی دلوا دی۔ اس کے ہاتھوں قتل ہونے والوں کے ورثاء بھی مطمئن ہو گئے اور سیاپا فروش اینکر ہکا بکا ہو کر بالآخر دوسری منزلوں کی طرف جادہ پیما ہو گئے۔

میں کہنا صرف یہ چاہ رہا ہوں کہ کسی بھی ریاست اور اس کے دوامی مالکوں کو ان معاملات کے بارے میں فیصلہ کن اقدامات اُٹھانے کے لیے جو ریاست کے تحفظ اور بقا کے لیے ضروری سمجھے جاتے ہیں کسی Consensus وغیرہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جو کرنا اشد ضروری سمجھا جاتا ہے کر لیا جاتا ہے۔

اس ضمن میں چوہدری نثار علی خان نے بھی منگل کو قومی اسمبلی میں ایک طولانی مگر زیادہ تر لایعنی تقریر فرما دی۔ مگر اس میں کم از کم ایک نقطہ کافی پُر اثر سنائی دیا۔ پیال کے راجپوت ہوتے ہوئے چوہدری صاحب کو خطہ پوٹھوہار کے غازیوں کے منصوبوں اور ارادوں کے بارے میں اندر کی خبر میرے اور آپ سے کہیں پہلے مل جاتی ہے۔ وہ بار بار اصرار کرتے رہے کہ ملالہ پر حملے کے بعد سے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی باتیں ہو رہی ہیں۔ مگر انھیں سمجھ نہیں آ رہی کہ ملالہ پر حملے کا شمالی وزیرستان سے تعلق کیوں جوڑا جا رہا ہے۔

چوہدری صاحب نے اُکتا دینے کی حد تک رحمٰن ملک کا ایک بیان بار بار دہرایا جس میں ہمارے بہت ہی متحرک نظر آنے والے وزیر داخلہ نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ملالہ پر حملہ کرنے والوں کا سراغ لگا لیا گیا ہے۔ اس پر حملہ کرنے والے مبینہ طور پر مولوی فضل اللہ کے حامی ہیں جو آج کل افغانستان میں پناہ گزین ہیں۔ جذبات کی رو میں چوہدری صاحب یہ بھی کہتے رہے کہ رحمٰن ملک صاحب مولوی فضل اللہ کے کابل میں مقیم ہونے کی اطلاع دے رہے ہیں۔ چوہدری صاحب یہاں زیادتی کر رہے تھے۔ میرے وہ خوش نصیب ساتھی جنھیں حساس امور پر باقاعدگی سے بریفنگ دی جاتی ہے مولوی فضل اللہ کو افغانستان کے صوبے کنڑ میں پناہ گزین بتاتے ہیں۔

یہ علاقہ ہمارے مالاکنڈ کے اپر دیر کا ہمسایہ ہے۔ جزیات سے قطع نظر چوہدری نثار علی خان بھی کم از کم مولوی فضل اللہ کی افغانستان میں موجودگی کا اثبات کرتے رہے۔ یہ دعویٰ کرنے کے بعد قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے قائد حزب اختلاف کیا چاہتے تھے؟ کم از کم میں تو سمجھ نہیں پایا۔ ان کی تقریر کے دوران کبھی کبھی یہ گمان ضرور ہوا کہ چوہدری صاحب چاہتے ہیں کہ ملالہ پر ہونے والے حملے کا بدلہ شمالی وزیرستان میں قومی آپریشن کے ذریعے نہیں بلکہ افغانستان میں مولوی فضل اللہ کی مبینہ پناہ گاہوں پر حملے کی صورت اُتارا جائے۔ اگر ان کے خواہش واقعی وہی ہے جو میں سمجھا ہوں تو اللہ ہی خیر کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔