بچوں کے ادب سے بے اعتنائی کیوں؟

رئیس فاطمہ  جمعرات 18 اکتوبر 2012

بچوں کے ادب سے بے اعتنائی کا مسئلہ زیادہ پرانا نہیں ہے بلکہ ہمارے اسی جدید دور کی دین ہے جب والدین نے ان کے ننھے منے ہاتھوں میں آگ اگلتے کھلونے تھمادیے۔

اسلحہ نے کتاب پر فتح پالی ورنہ پہلے تو ایسا کچھ بھی نہ تھا۔ ہم سب نے اپنے بچپن میں کہانیوں کی ایسی کتابیں پڑھی ہیں جو بالکل معمولی کاغذ پہ چھپی ہوتی تھیں، اخباری کاغذ ہی کا سرورق بھی ہوا کرتا تھا۔ لیکن کہانیوں میں اتنی دلکشی اور دلچسپی ہوتی تھی کہ ختم کیے بغیر کتاب ہاتھ سے چھوٹتی نہیں تھی۔ بڑے بڑے ادبیوں اور شاعروں نے بچوں کے لیے بہت کچھ لکھا ہے اور بڑی محنت سے لکھا ہے۔ مولانا اسماعیل میرٹھی، شریف الدین نیر، حامد اﷲ افسر، کوثر چاند پوری، اشرف صبوحی، آغا اشرف، مولوی عبدالحق، سلیم ضیائی، محمد امین شرقپوری کے نام اس میدان میں جانے پہچانے ہیں، ان کے علاوہ مرزا فرحت اﷲ بیگ کا نام اور کام بھی نمایاں ہے، ان کے بعد صوفی تبسم، ابن انشا نے بھی بچوں کے ادب سے بے اعتنائی نہیں برتی۔

ہمارے بے شمار ادیبوں اور شاعروں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز بچوں کے رسائل ہی سے کیا ہے۔ کیسے کیسے معیاری اور خوب صورت پرچے نکلا کرتے تھے۔ کھلونا دہلی، بھائی جان، پھلواری، جگنو، بچوں کی دنیا، ٹوٹ بٹوٹ، تعلیم و تربیت ان میں سے اکثر اپنی چمک دمک دکھلاکر بند ہوچکے ہیں لیکن بعض پرچے اب بھی نکل رہے ہیں لیکن یہ وہ پرچے ہیں جنھیں مالی مشکلات کا کوئی سامنا نہیں، جیسا کہ ہمدرد نونہال، جس کے مدیر آج بھی مسعود احمد برکاتی ہیں جو 1963 سے اس پرچے سے وابستہ ہیں۔

سوال یہ ہے کہ بچوں کے ادب سے بے اعتنائی یا یوں کہہ لیجیے کہ لاتعلقی کی اصل وجہ کیا ہے؟ میں سمجھتی ہوں کہ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلی تو یہ کہ معاملہ طلب اور رسد کا ہے۔ مارکیٹ میں جس مال کی طلب ہوگی کھپت بھی اسی کی ہوگی۔ آج کے دور میں مانگ آگ برساتی گولیوں والی کلاشنکوف اور پستول کی ہے اسی لیے جب آپ بچوں کے لیے کھلونے خریدنے جائیں گے تو دکان دار ایک سے بڑھ کر ایک آتشی کھلونا آپ کے بچوں کے آگے رکھ دے گا۔ عیدالفطر پر ریکارڈ کے مطابق سب سے زیادہ کھلونا بندوقیں اور پلاسٹک کی گولیوں والے پستول فروخت ہوئے اور دیکھتی آنکھوں نے دیکھا کہ بچوں کو ان کھلونوں کی خریداری خود والدین نے خوشی خوشی کروائی۔ کوئی ایک بھی دکان ایسی نظر نہ آئی جہاں شیلف میں بچوں کے لیے کتابیں لگی ہوں۔

کتابوں کی دکانیں تو ویسے ہی خریداروں کو دیکھنے کو ترستی ہیں، خاص کر بچوں کی کہانیوں اور رسالوں کے حوالے سے۔ دراصل جو آج ادب کا حال ہے وہی حال بچوں کے ادب کا بھی ہے۔ جہاں تک بڑوں کا معاملہ ہے تو وہاں کتابیں بھی چھپ رہی ہیں اور ادبی پرچے بھی نکل رہے ہیں لیکن یہ خود کو کس طرح زندہ رکھے ہوئے ہیں اور دھڑا دھڑ جو کتابیں نہایت نفیس کاغذ پر چالیس چالیس ادیبوں اور دانش وروں کی آرا سے مزین چھاپی جارہی ہیں ان کی کہانی الگ ہے جو اس وقت ہمارا موضوع نہیں ہے۔ بچوں نے کتابوں کی جگہ آگ اگلتی گولیوں اور چھرے والے پستولوں کو کیوں گلے سے لگایا؟ کبھی غور کیا کسی نے؟

بچے تو پودوں کی مانند ہوتے ہیں۔ جب گملے یا کیاری میں کوئی پودا لگایا جاتا ہے تو اس میں مناسب کھاد ڈالی جاتی ہے۔ دھوپ اور روشنی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے، زیادہ پانی جڑوں کو گلا سڑا نہ دے اس لیے گملے کی تہہ میں ایک ٹھیکرا رکھ دیا جاتا ہے، جب بڑھنے لگتا ہے تو آس پاس رکاوٹیں لگاکر اسے سیدھا رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے ورنہ وہ جنگلی خود رو پودوں کی طرح بے ترتیب بڑھتا اور لوگوں کے کپڑوں سے الجھتا رہتا ہے، پھر ایک وقت آتا ہے کہ پودا بڑا ہوجاتا ہے اور وہ مناسب دیکھ بھال سے اس قابل ہوجاتا ہے کہ خود ہی صحیح سمت میں بڑھ سکے۔

بچے بھی پودوں کی مانند دیکھ بھال مانگتے ہیں، پہلے جوائنٹ فیملی کی برکتوں کی بدولت یہ دیکھ بھال بہت آسانی سے ہوجایا کرتی تھی کیوں کہ کھاد، روشنی اور پانی کا کام دادا دادی کیا کرتے تھے۔ ماں باپ کو زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، یہی دادی اماں بچوں کو کہانیاں بھی سناتی تھی، نانیاں اور دادیاں صرف بچوں کو مصروف رکھنے اور ان کا جی بہلانے کے لیے ہی کہانی نہیں سناتی تھیں بلکہ اس میں کوئی نہ کوئی نصیحت بھی پوشیدہ ہوتی تھی، بالکل گڑ کی ڈلی کی طرح جس کے اندر کڑوی گولی رکھ کر بچوں کو کھلادی جاتی تھی۔

ہم سب نے اپنے اپنے بچپن میں طلسم ہوش ربا، فسانہ عجائب، قصہ حاتم طائی، الف لیلہ اور باغ و بہار اپنی اپنی دادی اور نانی ہی سے سنی تھیں لیکن بعد میں کیا ہوا؟ نام نہاد فرد کی آزادی کی جو لہر مغرب سے آئی تھی اس نے کنبوں کو ختم کردیا اور بڑے بوڑھوں کو گھر سے نکال دیا ان بزرگوں کے ساتھ ساتھ کتابوں کے لیے بھی گھروں میں جگہ نہ رہی۔ کیوں کہ اب ڈیمانڈ تھی جگمگاتے فانوسوں اور قیمتی ڈیکوریشن پیسز کی۔ بزرگ اور کتابوں کے بے دخل ہونے کے بعد جو نسل آرائشی اشیا کے مصنوعی ماحول میں پروان چڑھ رہی ہے انھیں کتابوں کا مفہوم بھلا کون سمجھائے گا۔

کتابوں سے بے اعتنائی اور دوری کا ذمے دار میں بچوں کو ہرگز نہیں سمجھتی کیوں کہ وہ تو سرے سے قصور وار ہیں ہی نہیں۔ قصور وار اگر ہیں تو ہم سب خاص کر والدین، اساتذہ اور ادیب، ہمارے پبلشنگ اداروں نے بھی کافی حد تک بچوں کے ادب سے بے اعتنائی برتی ہے۔ کسی حد تک نیشنل بک فائونڈیشن اس معاملے میں فعال نظر آتا ہے۔ ماضی میں بھی اس ادارے نے بچوں کے ادب پر اچھی اچھی کتابیں شایع کی ہیں اور آج بھی فعال نظر آتا ہے۔ دیگر اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ کمرشل ازم کا شکار ہوئے بغیر بچوں کے لیے اچھی اور دلچسپ کہانیوں اور معلوماتی کتب شایع کریں کیوں کہ یہی بچے ہمارا سرمایہ اور مستقبل ہیں لیکن مستقبل کے ہاتھ میں کتاب اور قلم کے بجائے والدین اگر نقلی پستول اور بندوقیں تھمادیں گے تو مستقبل کا منظر نامہ کیا ہوگا، اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔والدین صرف اتنا سوچیں کہ وہ خود جو عزت و احترام اپنے والدین کو دیتے تھے کیا آج ان کی اولاد بھی ویسا ہی کررہی ہے؟ یقیناً نہیں!! کیوں کہ ادب اور ہتھیاروں کے درمیان جو فرق ہے وہی ان دونوں نسلوں میں بھی ہے۔

آج کا منظر نامہ تو بڑا بھیانک ہے۔ پندرہ سولہ سال کے بچے برملا ماں باپ کو کہہ دیتے ہیں آپ کو کیا پتہ، آپ اس معاملے میں نہ بولیں بلکہ میں نے خود بچوں کو والدین اور بزرگوں پہ برستے دیکھا ہے۔ مغرب کی اندھی نقالی میں ہم نے یہ تو سیکھ لیا کہ بچوں کو ڈانٹیں نہیں کہ ماہرین نفسیات کے مطابق ان کی ذہنی نشوونما رک جاتی ہے لہٰذا وہ آگ کھائیں اور انگارے اگلیں، والدین کو کوئی پرواہ نہیں۔ جن گھروں میں خوش قسمتی سے بزرگ موجود ہیں وہ اگر بچوں کو کسی بات پہ ٹوکتے ہیں تو ماں باپ کو بہت برا لگتا ہے ۔ نتیجہ یہ کہ وہ پھر کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔

خوش قسمت تھی وہ نسل جن کے لیے باقاعدہ کتابوں کی خریداری کی جاتی تھی۔ مولوی نذیر احمد کی ’’مراۃ العروس‘‘ پڑھنے والی نسل ساس سسر کی عزت کرنا جانتی تھی، شوہر کی زندگی کو عذاب نہیں بلکہ آسان بناتی تھی کہ لاشعوری طور پر اصغری اور اکبری کے کردار اس کی رہنمائی کرتے تھے لیکن آج کی مائیں بیٹیوں کو باقاعدہ گر سکھاتی ہیں کہ کس طرح کسی کا بیٹا ہائی جیک کیا جاتا ہے، پھر اکیلا کرکے اس کو ملازم بنادیا جاتا ہے اور اسے ماں سے بات کرنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی۔ سگا بیٹا اپنی اولاد کی شکل اپنے والدین کو نہیں دکھاتا جنھوں نے اسے ایک اعلیٰ مقام پہ پہنچایا کیوں کہ ساس سسر اور بیوی کی منشا یہی ہے کہ ’’ہمیشہ کے لیے ماں باپ کو بھول جائو‘‘ اور وہ بے چارہ کہ جس نے اکیلے پرورش پائی خود کو بالکل بے دست و پا پاتا ہے۔ اگر لڑکیوں کی مائوں نے بھی ’’مراۃ العروس‘‘ پڑھی ہوتی تو وہ بیٹی کو اصغری بناتیں، اکبری نہ بننے دیتیں۔ یہ ہے بچوں کو کتاب سے دور رکھنے کی سزا۔ آج ہر خاندان میں آپ کو ’’اکبری‘‘ ہی نظر آئے گی، ’’اصغری‘‘ تو کہیں گم ہوگئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔