جلال الدین حقانی…کچھ یادیں ،کچھ باتیں

اسلم خان  منگل 4 اگست 2015
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

اس دُنیا میں کوئی ناگزیر نہیں۔ سارے قبرستان اپنے اپنے زمانوں میں ناگزیر قرار پانے والوں سے بھرے پڑے ہیں۔’’بس نام رہے اللہ کا اور کسی کو دوام نہیں‘‘-یہ لازوال حقیقت ‘ اٹل سچائی، ہمیں اپنی بے بسی اور کم مائیگی کا احساس دلاتی ہے۔لیکن کسی تاریخی موڑ پرایسا مرحلہ بھی آن پڑتا ہے کہ بعض معاملات میں یہی کم مایہ اور بے بس انسان وقتی طور پر ہی سہی لیکن ’’ناگزیر‘‘ہوجاتا ہے ۔آج کے افغانستان میں ایسا ہی مرحلہ آن پڑا ہے۔ وہاں قیام امن کے لیے دواشخاص ناگزیر ہوچکے تھے۔ ملا محمد عمر اور جلال الدین حقانی۔ امن مذاکرات کو دوسرے مرحلے میں تاراج کرنے کے لیے یکے بعد دیگرے ان کے انتقال کی خبریں اوراس کی تصدیق کی گئی جس کے بعد امن مذاکرات غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کیے جاچکے ہیں۔

بین الاقوامی مذاکرات کار اسلام آباد سے بیجنگ تک مذاکرات کی بساط بچھائے مستقبل کے سہانے خواب دیکھ رہے ہیں‘ وہ جو 15 برس تک ملا محمد عمر کی پرچھائیں کوبھی نہ پاسکے‘ اب وہ مذاکرات کی میز پر ان کے منتظر تھے کہ دوسرے مرحلے سے پہلے ان کے انتقال کی خبریں لیک کرکے مذاکرات کادوسرامرحلہ سبوتاژ کر دیاگیا‘ کہتے ہیں کہ کابل میں حددرجہ رسائی رکھنے والے بھارتی شہ دماغ امن مذاکرات کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں کہ انھیں مذاکراتی عمل سے نکال باہر کیا گیا تھاجس میں پاکستان میزبان جب کہ امریکا اور چین مبصر کی حیثیت سے شریک تھے ۔

امریکی بخوبی جانتے ہیں کہ افغانستان کا ریاستی ڈھانچہ  طالبان ،چین اور پاکستان کی ضمانت اور تائید کے بغیر تحلیل ہوجائے گا۔حامد کرزئی کے بعد اشرف غنی کی حکومت اتحادی افواج کے مکمل انخلاء کے بعد طالبان سے پنجہ آزمائی کی سکت نہیں رکھتی۔طالبان کی طاقت کا اصل راز کیا ہے ۔نسلی، ثقافتی اور لسانی دھڑوں میں منقسم افغانستان جس کا قبائلی طرز معاشرت ،بادشاہت کے زوال کے بعد گذشتہ تین دہائیوں سے خانہ جنگی اور بدترین انتشار کاشکار ہے آخرش افغانوں کی غالب اکثریت ایک روپوش رہنما کی قیادت پر کیسے متفق تھی۔ اس پر اسرار معاملے کا تعلق فلسفہ ِبیعت سے ہے ۔

بیعت کی شرعی حیثیت اور اہمیت کے بارے میں سطحی علم رکھنے والے اس اخبارنویس کوکمانڈرجلال الدین حقانی نے حقائق سے آگاہ کیا تھا۔ کون جلال الدین حقانی؟ ——جناب والا، کوئی اور نہیں حقانی نیٹ ورک کے سربراہ جلال الدین حقانی، طالبان حکومت میں سرحد ی امور کے وزیر اور مسلح افواج کے کمانڈر انچیف۔ جن کے خوست میں قائم مرکز میں اس خاکسار کودورِ جوانی میں چند ہفتے گذارنے کا موقع ملا تھا۔

مدتیں بیت گئیں، سیاہ بالوں میں چاندی جھلکنے لگی ،وقت کے ساتھ ساتھ جوش وخروش مدہم پڑنے لگا، جہاد افغانستان کے علاقائی اور عالمی زاویے آشکار ہوئے تو پتہ چلا کہ ہم تو امریکی پیادے تھے۔ 14برس قبل جمعہ،19اکتوبر 2001ء کو فجر کی نماز کے بعد خلاف معمول میرا فون جاگ اُٹھا ۔ کوئی اجنبی پوچھ رہا تھا‘ آپ کون ہو؟ تصدیق کے بعد‘وہ بلا تمہید کہنے لگا’’کماندان صاحب نماز جمعہ کے بعد تمہارے گھر چائے پینا چاہتا ہے‘‘——کون کماندان؟ مجھے کچھ سمجھ نہ آیا‘اس نے وضاحت کی ،تفصیل بتلائی۔

کامل 14برس بعد اچانک میرا کمانڈر اپنے سپاہی کو شرفِ باریابی بخش رہا تھا۔ وہی جلال الدین حقانی جس کی شان میں امریکی صدر یگن قصیدے پڑھتا تھا ۔جس نے وائٹ ہاؤس مدعو کرکے اُسے آزاد دُنیا کامحافظ اور آزادی کا سپاہی قرار دیا تھا۔ خوشی اور غم کی متضاد کیفیات سے دوچار، یہ اخبار نویس تذبذب کا شکار تھا۔ سوچ رہا تھا کہ اگر ہمارے خفیہ اداروں نے میرے گھر پر دھاوا بول دیا تو کیا ہوگا اگر امریکیوں کو حقانی صاحب کے بارے میں ہوا لگ گئی توکیاہوگا؟ ان کی سلامتی کی ضمانت کون دے گا؟ رابطہ کارنے واضح کر دیا کہ کمانڈر صاحب کی سلامتی کی ذمے داری مجھ پر عائد نہیں ہوگی۔ مجھے صرف ریکارڈنگ کے لیے (Two Way Sound System ) والے پروفیشنل وڈیو کیمروں کا انتظام کرنا ہوگا۔ ابھی نیوز چینلز کا آغا ز نہیں ہوا تھا۔ راز داری اس کھیل کاجزو اعظم تھی ۔ مقامی روزنامے میں اپنے ساتھ کام کرنے والے بااعتماد فوٹو گرافر کو راز داری سے گھر پر بلایا۔

اس دن میں حقیقی معنوں میں خوف اوراس کے احساس سے آشنا ہوا۔ا س سوچ نے دماغ ماؤف کررکھاتھاکہ اگر کچھ غلط ہوگیا، کوئی انہونی ہوگئی تو کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہوں گا۔جس کے بعد فیصلہ کیا کہ چند اخبار نویس دوستوں کو زحمت دوں تاکہ احساس ذمے داری کا کچھ بوجھ ہلکا ہو سکے۔

نجی خبررساں اداروں سے شہرت پانے والے جاوید قریشی ، سندھی اخبارنویس ریاض شاہد اور سیاست کی بھینٹ چڑھ جانے والے ماضی کے شاندار رپورٹر عظیم چوہدری سمیت متعدد دوستوں کو ایک اہم مہمان سے غیر رسمی ملاقات کی دعوت دی۔ جلال الدین حقانی کا عملہ میرے گھر کی ریکی کرچکا تھا۔

جلال الدین حقانی اپنے بیٹے سراج اور چند دیگر افراد کے ہمراہ تشریف لائے ۔حقانی صاحب نے چند لمحے خوست کے مرکز کی یادیں تازہ کیں‘ پھر بتانا شروع کیا کہ وہ افغان عبوری انتظامیہ کے وزیر خزانہ ہدایت امین ارسلا سے مذاکرات کے لیے اسلام آباد آئے تھے اوراب سہ روزہ ناکام مذاکرات کے خاتمے پر وہ واپس جارہے تھے لیکن وہ پاکستان کی سر زمین پر امریکا کے خلاف باضابطہ گوریلا جنگ شروع کرنے کا اعلان کرنا چاہتے تھے ۔جس کے لیے اُنہیں مدتوں بعد اپنا یہ بھولابسراپیادہ ،یہ سپاہی یاد آیا۔جس کے ہاتھ میں اب بندوق نہیں ،قلم تھا۔پاکستان کے سب سے بڑے انگریزی اخبارکا وقایع نگار جومشرق وسطی کے معتبر روزنامے ’’ گلف نیوز‘‘کے لیے بھی کام کررہا تھا۔

جلال الدین حقانی نے بتایا کہ کٹھ پتلی انتظامیہ نے انھیں تین ولائتوں (صوبوں) کا مکمل انتظام اور افغا ن فوج کا سربراہ بنانے کی پیش کش کی ہے’’میرے پاس انکار کے سوا کوئی چارہ کار نہیںتھا‘‘—–پس معذرت کرلی۔ آپ نے ایسا کیوں کیا، روشن مستقبل ،طاقت اور اختیار، آخر آپ اور کیا چاہتے ہیں؟ گوریلا کمانڈر نے جواب دیا، صرف اپنے رب کی رضا——توشہ آخرت اور شافع محشر ﷺکے دربار میں سرخروئی چاہتا ہوں، بوڑھا آدمی ہوں اور کتنے برس جی لوں گا میں آخر ِشب، اپنی آخرت کیوں خراب کروں۔ امیر المومنین ملا عمر کے ہاتھ پر کی گئی شرعی بیعت کیسے توڑوں، میں واپس جا رہا ہوںسفاک امریکیوں سے لڑنے،میدان مجھے پکار رہے ہیں۔۔۔ پھر اپنے جواں سال بیٹے سراج الدین حقانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ‘‘میں نے سراج کو اپنے مستقبل کا آزادانہ فیصلہ کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ یہ اپنی زندگی کی راہیں متعین کرنے میں کلی طور پر آزاد ہے ۔

انھوں نے شرعی بیعت کے فلسفے پر روشنی ڈالتے ہوئے انکشاف کیا کہ سوویت سرخ فوج کے خلاف جہاد کے دوران مُلامحمد عمر میری کمان میں عام سپاہی کے طور پر لڑا تھا۔ پھر وقت بدلا، حالات تبدیل ہوئے اور میں نے محمد عمر کے دست حق پرست پر شرعی بیعت کرلی جوکہ آخری سانس تک موثر رہتی ہے۔ اب اس بیعت سے میںکیسے انکار کرسکتا ہوں ۔ یہ بیعت میری اور محمد عمر کی زندگی میں ختم نہیں ہوسکتی۔ اس کا خاتمہ صرف اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ میں یا محمد عمر اپنے قدموں سے پھر جائیں ، مرتد ہوجائیں، اسلام سے منہ موڑ لیں ۔ہم یہ کیوں کریں گے۔میں جارہا ہوں آخری سانس تک امریکیوں سے لڑنے کے لیے یہ میرا حتمی فیصلہ ہے۔ انھوں نے یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ اُسامہ بن لادن سمیت افغان شہریت حاصل کرنے والے تمام عرب جنگجو ؤں نے بھی ملا محمد عمر کی بیعت کررکھی ہے ۔ گفتگو کایہ حصہ ’’آف دی ریکارڈ‘‘تھا ۔ آج جب دونوں اساطیری کرداراپنے رب کے حضور پیش ہوچکے ہیں گذشتہ 15برس میں پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گذر چکا ۔اس گفتگو کو افادہ عام کے لیے تاریخ کی عدالت میں پیش کررہا ہوں۔  باضابطہ انٹرویوسے پہلے جلال الدین حقانی نے بتایا کہ ہم اُن سے انگریزی میں سوال کریں گے اور وہ عربی میں جواب دیں گے ۔ فوری طورپر اس منطق کوسمجھ نہیں سکاتھا۔ بعد میں جب عالمی خبر رساں ادارے رائٹرزنے دو گھنٹے پر محیط یہ انٹرویو خرید لیا تو بوڑھے دانشمند کی حکمت عملی سمجھ میں آئی کہ عربی مسلمہ عالمی زبان ہے جس سے انگریزی میں ترجمہ معمول کی بات ہے جب کہ اُردو کا معاملہ اس سے یکسر مختلف ہے۔یہ اُن کا آزاد دُنیا سے آخری رابطہ تھا ۔

شرعی بیعت کی یہ فلاسفی ملا محمد عمر مجاہد کی اصل طاقت تھی اور ان کے بعد ملا اختر منصوربھی اسی فلسفہ بیعت سے قوت کارحاصل کریں گے جس کی عالم فاضل امریکی دانشوروںاور ان کے اتحادیوں کی سمجھ نہیں آتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔