بھارتی فوج اور حکومت سے مہاجروں کے لیے مدد نہیں مانگی،الطاف حسین

ایکسپریس ڈیسک  منگل 4 اگست 2015
پاکستان میں ایم کیو ایم کے لوگوں کے ساتھ تیسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک کیاجارہا ہے، الطاف حسین ۔ فوٹو: فائل

پاکستان میں ایم کیو ایم کے لوگوں کے ساتھ تیسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک کیاجارہا ہے، الطاف حسین ۔ فوٹو: فائل

لندن: متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ میں نے مہاجروں کے لیے  بھارتی فوج یا حکومت سے مدد نہیں مانگی، مجھ سے یہ جملہ منسوب کرنے والے حقائق مسخ کررہے ہیں یہ نہیں کہا کہ بھارت فوج پاکستان آکر مہاجروں کی مدد کرے، پاکستان میں ایم کیو ایم کے لوگوں کے ساتھ تیسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک کیا جارہا ہے، انھیں غیر قانونی طور پرگرفتار کرکے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور ہمیں عدالتوں سے بھی انصاف نہیں مل رہا۔

انھوں نے کہاکہ کوئی ملک مذہب، لسانیت، ثقافت، کلچر یا زبان کی بنیاد پر اپنے لوگوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنائے تو مظلوم قوم اپنے تحفظ کیلیے اقوام متحدہ سے رجوع کرسکتی ہے، آج تک ماورائے عدالت قتل میں ملوث کسی ایک اہلکارکو نہ توگرفتار کیا گیا اور نہ ہی کسی کو سزا دی گئی۔ اس ظلم وستم اور کھلی نا انصافی پرمیں عالمی عدالت کا دروازہ نہ کھٹکھٹاؤں تو انصاف کیلیے کس دروازے پر دستک دوں؟ یہ بات انھوں نے پیرکی شب میرپور خاص، سکھر، نواب شاہ، سانگھڑ، ٹنڈو الہیار اور جامشورو زون کے ذمے داران اور کارکنان سے ٹیلی فون پر خطاب کرتے ہوئے کہی۔

اپنے خطاب میں الطاف حسین نے کہا کہ مجھ سے جو جملے منسوب کیے جارہے ہیں ان کے بارے میں حقائق پیس کیے جائیں ورنہ الزام لگانے والے چلو بھر پانی میں ڈوب مریں اگر الزام لگانے والوں نے یہ جملے پیش کردیے تو اپنی گردن کٹوادوں گا، میں گزشتہ37 برسوں سے مہاجروں کو ان کے جائز حقوق دینے کے بجائے طاقت کے بل پر ان کے حقوق کی آواز کو کچلنے کا عمل کیا جارہا ہے اور مہاجروں کے ساتھ زندگی کے ہر شعبے میں روا رکھے گئے امتیازی سلوک کے خلاف جدوجہد کرتا چلا آرہا ہوں۔

الطاف حسین نے کہا کہ اقوام متحدہ میں مختلف شعبہ جات ہوتے ہیں جن میں ہیومن رائٹس، ماورائے عدالت قتل، کسی ملک کے شہریوں پر تشدد، اور ان کی گمشدگی کے معاملات کا جائزہ لینے کے علاوہ مذہب، لسانیت، ثقافت اور زبان کی بنیاد پر امتیازی سلوک اور ظلم و ستم کا جائزہ لینے کے بھی شعبہ جات شامل ہیں۔

انھوں نے کہا کہ میں نے بالکل کہا کہ لوگ خط لکھ کر اقوام متحدہ کوبتائیں کہ مہاجروں پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں، اقوام متحدہ اور نیٹواپنی فوج بھیجے کیونکہ پاکستان میں ایم کیو ایم کے لوگوں کے ساتھ تیسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک کیاجارہا ہے۔ اس پرکہا جا رہا ہے کہ میں نے اقوام متحدہ یا نیٹو فوج بلانے کی بات کی ہے اور اس بنیاد پر مجھے غدارقراردیا جارہا ہے۔

میں نے یہ بات اس لیے کہی ہے کہ میرے لوگوں کوغیر قانونی طور پر گرفتارکرکے بہیمانہ  تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جب زخموں سے چورگرفتارشدگان کو عدالت میں پیش کیا جاتا ہے اور ایم کیو ایم کارکن جج سے کہتا ہے کہ مجھ پر بہت تشددکیا گیا ہے، تشدد سے میرے گردے ناکارہ ہو گئے ہیں اور پیشاب سے خون آ رہا ہے تو جواب میں جج کہتا ہے کہ زیادہ پانی پیاکرو اور پھر اس کا مزید ریمانڈ دے دیا جاتا ہے تاکہ اسے مزید تشدد کا نشانہ بنایا جائے۔

اب اگرعدالت بھی مظلوموں کو انصاف نہ دے اور پاکستان میں کوئی ہماری فریاد تک سننے کو تیار نہ ہو تو پھر میں کہاں جاؤں؟ کس سے فریاد کروں؟ کس سے انصاف مانگوں؟ انھوں نے کہا کہ کہتے ہیں کہ الطاف حسین نے بڑا ظلم کر دیا۔ ایسا بیان دے کر پاکستان میں رابطہ کمیٹی کو مصیبت میں ڈال دیا اور ایم کیو ایم کے لوگوں سے جواب تک نہیں دیا جاتا تو میں تمام کارکنان سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ نے بہت قربانیاں دے دیں، میری خاطر خود کو مزید مصیبت میں نہ ڈالیں، اس سے پہلے کہ آپ بددل ہو جائیں، میں خود آپ کی جان چھوڑ دیتا ہوں یا آپ مجھے چھوڑ دیں۔

اس پر تمام کارکنان نے یک زبان ہو کر کہا کہ آپ نے جو کچھ کہا وہ سچ ہے اور ہم ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن آپ کو ہرگز نہیں چھوڑ سکتے۔ الطاف حسین نے کہا کہ پھر ایک بات ذہن نشین کرلیں کہ میں ظلم کو ظلم ہی کہوں گا، جبرکو جبر ہی کہوں گا، کیونکہ میں جھوٹ نہیں بول سکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔